عثمان قاضی
کابل سے آداب۔ ہوا کچھ یوں کہ کہ پندرہ اگست کو افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد جو غیر یقینی کیفیت طاری ہوئی اس نے ایک ایسے سیاسی، اقتصادی اور ممکنہ طور پر انسانی بحران کو جنم دیا کہ جس کی نظیر دنیا نے سوویت یونین کی تحلیل کے وقت سے نہ دیکھی تھی۔ ہمارے ادارے کو اس خادم پر کچھ گمان ہے کہ ایسے حالات میں کچھ کارگزاری دکھا سکتا ہے، سو حکم صادر ہوا کہ میاں، اٹھاؤ اپنا بھنگ و دیگر لوازمات اور رخ کرو کابل کا۔ ایک ستم ظریف نے اس پر فقرہ چست کیا کہ ”جہاں بحران، وہاں عثمان“ ۔ سچ پوچھیں تو گھر بیٹھے نیویارک کے صدر دفتر کے لیے کام کرتے کرتے کچھ طبیعت اوبھ بھی چلی تھی۔ سو تعمیل کی اور اکتوبر کے شروع میں کابل پہنچ گیا۔
یہاں اس خادم کا قیام جلال آباد جانے والی شاہ راہ پر کابل کے مضافات میں واقع ایک قلعہ بند احاطے میں ہے جو ”یونوکا“ یعنی یونائیٹڈ نیشنز آفس کمپاونڈ ان افغانستان کہلاتا ہے۔ ہر ادارے کے لیے دفاتر اور قیام گاہوں کا ایک ٹکڑا مخصوص ہے جہاں یہ خادم صومالیہ کی روایت کو تازہ کرتے ہوئے ایک تنگ دامان کنٹینر میں مقیم ہے۔ سید محمد جعفری کی نظم ”نصف ہٹ“ یاد آتی ہے۔
لکڑی کی نصف ہٹ میں بسیرا ہے آج کل
فدوی بشر نہیں ہے بٹیرا ہے آج کل
دو کمریاں کہ عرض ہے، جن میں نہ طول ہے
جینا اگر یہی ہے تو مرنا فضول ہے
یہاں کچھ ایسا سماں ہے کہ حکومت کے گرتے ہی ہزاروں تکنیکی کارکن، پڑھے لکھے حکومتی اہل کار اور امدادی اداروں کے کارپرداذان کام چھوڑ کر گھروں میں محصور ہو گئے اور کئی تو سرے سے ملک سے فرار ہو گئے، جن کے جہازوں میں دبک کر بیٹھنے اور جہازوں سے گرنے کے دل دوز مناظر احباب نے دیکھے ہی ہوں گے۔ سب سے اہم ادارہ ”د افغانستان بانک“ جسے آپ ہمارے سٹیٹ بینک کا متبادل سمجھ لیجیے، بالکل بند پڑا ہے۔ کئی ممالک نے افغانستان رقم بھجوانے پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ جن صاحب کو بینک کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے وہ بین الاقوامی شرح مبادلہ، زرمبادلہ کے ذخائر کے انتظام، نجی بینکوں کی نگرانی، مقامی کرنسی کے اجراء جیسے امور میں کوئی دست گاہ نہیں رکھتے۔ بظاہر عقل سلیم اور قوت ایمانی پر بھروسا کیے بیٹھے ہیں۔ گزشتہ دور کے کچھ تکنیکی ماہرین طوعاً یا کرہا، کام پر آ چکے ہیں لیکن ایک تو انہیں تنخواہ دینے کا کوئی نظام معین نہیں ہے دوم ان کی ماہرانہ رائے پر کوئی کان دھرنے والا نہیں۔ نجی بینکنگ کا سارا سلسلہ بھی نتیجتاً ٹھپ ہو چکا ہے۔ ایسے ہی حالات اکثر وزارتوں کے ہیں جہاں اہل ہنر یا تو ناپید ہیں اور یا بے اختیار بنا دیے گئے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ملک میں کوئی ساڑھے چارسو بلین افغانی مقامی کرنسی موجود ہے لیکن اس میں سے صرف پانچ سو ملین گردش میں ہے اور باقی رقم لوگوں نے غیر یقینی حالات کے پیش نظر چھپا رکھی ہے۔ سب سے زیادہ دردناک حالت سفید پوش طبقے کی ہے جس کا گزارہ سرکاری یا نجی شعبے کی ملازمتوں اور ماہانہ تنخواہوں پر تھا۔ کئی جگہ پر لوگوں کے اپنا اثاث البیت سڑک پر رکھ کر بیچنے کی اطلاع ملی اور ایک آدھ بار ایسے مناظر نظر بھی آئے۔ کچھ نے جی کڑا کر کے بے ہنر مزدوری کا کام شروع کر دیا ہے کہ کم از کم اہل خانہ بھوکے نہ مریں۔ دوسری جانب ملک کے سب سے کلیدی برآمدی راستے، طورخم اور قندھار بار بار بند ہو جاتے ہیں اور کروڑوں مالیت کے پھل اور سبزی سرحد کے دونوں جانب گل سڑ کر کاشت کاروں اور سوداگروں کو برباد کر رہی ہے۔
سوشل میڈیا سے پتا چلتا ہے کہ احباب پاکستانی وزیر خارجہ کی افغانستان کو معاشی ماہرین کی مدد کی پیش کش کا ٹھٹھا اڑا رہے ہیں۔ ان کے پاس اس کی اپنی وجوہات ہوں گی لیکن اس خادم کی رائے میں پاکستان میں چوٹی کے ماہرین معیشت موجود ہیں اور ان میں سے بہت سے دیگر ممالک اور عالمی اداروں میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی تکنیکی رائے کو فیصلہ سازی میں اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس خادم کا خیال ہے کہ پاکستان کے پاس یہ اچھا موقع ہے کہ اگر وہ کسی طرح د افغانستان بینک کے نظام کو بحال کرنے میں مدد دے سکے تو اس سے سب سے زیادہ بھلا عالمی امدادی اداروں اور افغان عوام کا ہو گا جن تک انسانی اور ترقیاتی امداد بینکنگ سسٹم کے جام ہو جانے کے سبب نہیں پہنچ پا رہی۔
دو چار بار کابل شہر مختلف اجلاسوں میں شرکت کے لیے جانا ہوا۔ جہاں یہ دیکھ کر دل خوش ہوا کہ چھوٹی جماعتوں کے بچے اور بچیاں جوق در جوق سکول جا رہے ہیں، وہاں یہ امر اپنی جگہ تشویش ناک ہے کہ ثانوی اور اس اوپر کے درجوں میں خواتین کی تعلیم کا نظام حکما بند ہے۔ سنا ہے کہ دو تین دور دراز صوبوں میں مقامی آبادی کے دباؤ کے زیر اثر اس ضمن میں کچھ نرمی کی گئی ہے، لیکن یہ ایک پوری نسل کا زیاں ہے جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ حجاب [اور خال خال برقع] پوش خواتین، تنہا اور گروہوں میں کہیں کہیں نظر آتی ہیں اور شرعی محرم کی شرط پر بہت سختی سے عمل درآمد ہوتا نہیں دکھائی دیتا۔
پندرہ اگست کے بعد امدادی اداروں بشمول اقوام متحدہ کے اہل کاروں کو حفاظت کے پیش نظر افغانستان سے نکال لیا گیا تھا۔ اب جب کہ امی جمی ہوئی ہے تو وہ واپس آنا چاہ رہے ہیں لیکن واپسی کا صرف ایک راستہ، براہ پاکستان ہے جہاں سے اقوام متحدہ کی خصوصی چارٹر پروازیں چلائی جا رہی ہیں۔ اس خادم کو یہ دیکھ کر یک گونہ شرمندگی ہو رہی ہے کہ نیلے پاسپورٹ والے اہل کاروں کو بھی ویزا فراہم کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے۔ جب لوگ اس سستی کا موازنہ اس چستی سے کرتے ہیں جو ناٹو کے فوجیوں کو براستہ اسلام آباد نکالتے وقت دکھائی گئی تھی تو ”اکبر زمین میں غیرت قومی سے“ گڑ جاتا ہے۔ اس خادم کی رائے میں ان اہل کاروں کو اسلام آباد سے گزرنے وہاں رکنے اور ڈالر خرچ کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ پاکستان ویانا پروٹوکول کے تحت یہ سہولت فراہم کرنے کا مکلف ہے اگرچہ پابند نہیں۔ اب اقوام متحدہ والے اس سستی سے تنگ آ کر دوحہ اور الما اتا کے فضائی راستے کھولنے کا سوچ رہے ہیں اور ان تمام اجلاسوں میں پاکستان کا نام برسر الزام آنا بدیہی امر ہے۔ امید ہے کہ متعلقہ محکمے اس موقع کی نزاکت کا احساس کریں گے۔
اس دوران اس خادم کو ہرات کے تاریخی شہر حاضری دینے کا موقع ملا، لیکن اس کا احوال اگلے مراسلے میں، کہ یہاں اوقات تنگ ہیں اور آلام سخت۔
بشکریہ: ہم سب