عزیز علی داد
اکتوبر 2018 کے انہی دنوں میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی طالبات پر فحاشی کا الزام لگایا گیا تھا اور ثقافت کے نام پر وہ دشنام طرازی کی گئی کہ خدا کی پناہ۔ اس دفعہ پھر قراقرم ہونیورسٹی میں ایک طالبہ کے گانے پر ہماری ثقافت کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور ثقافتی ٹھیکیدار پھر سے اس بیمار ثقافت کو بچانے کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں۔ اور اس کو بچانے کے لیے کوئی علمی یا فکری کام کرنے کی بجاۓ پھر سے گالم گلوچ کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
گلگت بلتستان کے مردوں نے علاقے کی بیٹیوں کو طوائف کہنے کا فرض اپنے نازک کاندھوں، قلموں اور آنکھوں پر اٹھایا ہوا ہے. یہ مرد مومن وہ ہیں جن کی نگاہ سے لوگوں کی تقدیر بدلتی نہیں بلکہ ان کی زندگی برباد ہوجاتی ہے. مزید یہ کہ ان مردوں کی عقابی نگاہوں سے عورت کیسے بچ سکتی ہے. ان کی ہوس زدہ نگاہوں اور حبس زدہ ذہنیت سے لڑکے، بچے اور جانور تک محفوظ نہیں ہیں. مگر یہی مرد معاشرے کی اخلاقیات کے مالک اور عورتوں کے چوکیدار ضرور بنتے ہیں. یہ تو ایسے ہوا کہ جیسے ہم نے بلی کو دودھ کی رکھوالی کے لیے بٹھایا ہے۔ ایسے مرد کو اپنے ذہن میں ہی مار دو بعد میں یہ اپنی گھٹن ذدہ ذات میں حبس سے مر جائیں گے.
عصمت چغتائی بہت اچھی طرح جانتی تھی کہ ایسےحبس زدہ دل و دماغ اور جنسی طور پر کچلا ہوا جسم صرف اور صرف غلاظتوں پہ پلتا ہے نہ کہ روشن خیالات اور شعور پے۔
اگرچہ یہاں ہر کوئی کلچر اور ثقافت کا لفظ استعمال کررہا ہے مگر کسی کو اس کے معنی کا پتہ تک نہیں ہے۔ کوئی یہاں کے مختلف زبان بولنے والوں سے پوچھے تو سہی کہ ان کی زبان میں کلچر کے لیے کونسا لفظ ہے؟ کم از کم شینا، بروشسکی اور وخی میں کلچر کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے۔
ہماری ذہنی کیفیت کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہمارے دماغ میں تاریخ کا چکر والا نظریہ انسٹال ہے نہ کہ خط مستقیم والا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہر چیز کو دہراتے رہتے ہیں اور چکر کے منحوس گردش میں پھنس جاتے ہیں اور اور تاریخ کا مستقیم لکیر پر سفر نہیں کرپاتے ہیں۔ یوں ترقی کے سفر کی بجاۓ معکوس کا سفر یورہا ہے۔ اس وجہ سے ہمارے عقیدے اور اعمال میں دوری پیدا ہوئی ہے۔
مثال کے طور پر ہم صراط المستقیم پر چلنے پر یقین رکھتے ہیں مگر اپنی شخصیت اور ذہن کو ثقافتی دائرے کے چکر میں پھنسایا ہوا ہے۔ دائرے کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں پتہ نہیں چلتا ہے کہ جو اس میں دوڈ رہے ہیں ان میں اول یا آخر کون ہے۔ بس مسلسل ایک ہی عمل دھراۓ جارہے ہوتے ہیں۔ اس وجہ ہم آگے نہیں بڑھ پا رہے ہیں اور کوئی نیا کام ہم سے نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس وجہ سے ہی ہمارہی شخصیت دو حصوں میں تقیسم ہوچکی ہے۔ اس دو گونی شخصیت کی وجہ سے ہم دنیا کو اس کی معروضی حالت میں سمجھنے کی بجاۓ اپنی موضوعی کیفیت میں رنگ دیتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں کہ دنیا ہماری موضوعی کیفیت کے مطابق عمل کرے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک نفسیاتی مرض ہے۔ اگر اس کا بروقت علاج نہیں کیا جاتا ہے تو یہ شقاق دماغی میں مبتلا کرکے ہمیں فریب ذات اور فریب دنیا کا شکار کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم یونیورسٹی چاہتے ہیں مگر اس کو اپنے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجے کے طور ہم علم کی روشنی حاصل کرنے کی بجائے اپنے آپ کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دیتےہیں۔
اگر ایک گانے اور ناچ سے آپ کی ثقافت کو خطرہ ہے تو یقین جانیے آپ کی ثقافت اور اس کی پیدا کردہ آپ کی شخصیت بہت کمزور ہے۔ یونیورسٹی کا مقصد ایک نئے ذہن کی تشکیل ہوتا ہے۔ یہی ذہن معاشرے میں داخل ہوکر اس کی سوچ تبدیل کردیتا ہے۔ بدقسمتی سے گلگت میں یہ عمل الٹا ہبے۔ یہاں پر معاشرے کی ساری گندی سوچ یونیورسٹی میں داخل ہوچکی ہے۔ یوں یونیورسٹی علمی درسگاہ کم اور ہماری منقسم ذات اور ذہنیت کا مسکن بن گیا ہے۔ علم کا حصول تو دور کی بات ہے۔ اس ذہن کی تیرگی کی وجہ سے آج ہم میں نہ اپنی ذات کی تفہیم ہے، نہ معاشرے کی، نہ مذہب کی اور نہ ثقافت کی۔ ہم وہ لوگ ہیں جو اپنی بند ذہنیت کے زندان کے قیدی بن چکے ہیں۔ اس زندان کے اندھیرے میں علم کی کوئی کرن سرائیت نہیں کرسکتی کیونکہ اس زندان کو کلچر کا نام دے کر تاریکیوں میں پلا ذہن اس کا محافظ بن بیٹھا ہے۔ نتیجتا ہم نہ کچھ دیکھ پا رہے ہیں، نہ سن پارہے ہے اور نہ کچھ علم حاصل کر پارہے ہیں۔ اب ہم اپنے کلچر کے تاریک زندان میں علم کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری زندگیوں میں ساری روشنیاں گل ہوچکی ہیں، سب رنگ اڑ چکے ہیں اور سارے سر غائب ہوچکے ہیں۔ اور پاگل پنا شخیصت کا بے ہنگم ہونے کا نام ہی تو ہے۔
فریڈرک نطشے نے کہا تھا "وہ جو موسیقی سن نہیں سکتے تھے، یہ سمجھ بیٹھے کہ ناچنے والے پاگل پنے کا شکار ہیں۔” آج ہماری حالت بھی یہی ہے کیونکہ خوشی کو منانے والے، سر بنانے والے، جمالیات کو چاہنے والے اور خرد کی بات کرنے والے پاگل لگتے ہیں۔
عزیز علی داد گلگت بلتستان کے نوجوان مفکر، کام نویس، اور محقق ہیں وہ سماجی و ثقافتی مسائل پر مختلیف انگریزی اخبارات اور بین الاقوامی جریدوں میں لکھتے ہیں۔