Baam-e-Jahan

سیکسو کی میڈوسا کے ساتھ رقص، پارٹ 1

قراقرم یونیورسٹی

ریشما پروین مسافر

اگر میں لڑکیوں کے موسیقی اوررقص سے متعلق بات کروں گی تو اس سے کیا ہوگا۔

لڑکیوں کو ناچنا اور گانا چاہیے اور دوسری عورتوں کو بھی اس ناچ گانے میں شامل کرنا چاہیے۔ جس سے ان کو اتنی ہی شدت سے دور رکھا گیا ہے جتنے کہ ان کو اپنے جسموں سے- ویسی ہی وجوہات کی بنا پر، ویسی ہی قانون کے تحت، اور اسی مہلک مقصد کے لئے۔۔

عورت کو ایسے ہی گانا گانا اور ناچنا چاہیے، جیسے دنیا اور تاریخ میں اپنے وجود کا دعوی کرنا۔ کیونکہ اب ماضی سےمستقبل کا تعین نہیں ہو سکتا۔ اس بات سے انکار نہیں کہ ماضی کے اثرات اب بھی موجود ہے۔ مگر میں ماضی کو دوہرا کے اس کو مضبوط کرنے کے قائل نہیں ہوں۔ بلکہ ماضی کو توڑ کے، تباہ کر کے، پرُانے فرسودہ روایات سے ٹوٹ کے ہی ایک غیر متوقع مستقبل بنا سکتے ہیں۔

Art: DANCE by Alexander Rodchenko (1915)

میں یہ ایک عورت ہونے کے ناطے دوسری عورتوں کے لئے لکھ رہی ہوں۔ وہ عورتیں جو کہ روائتی مردوں کے خلاف ایک ناگزیر جدوجہد میں شامل ہیں؛ اوروہ عورتیں جو کہ ایک کائناتی سبجیکٹ کے طور پر دوسرے عورتوں کو اپنے حواس میں لانے اور تاریخ میں اپنا حصہ ڈالنے کا کام کرتیں ہیں۔

کاش کہ عورتیں اس منفرد آرٹ کے دعوے کا بر ملا اعلان کر سکیں، تاکہ دوسری عورتیں، جن کی خود مختاری کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے، چیخ پڑیں: کہ میں بھی بہہ گئی تھی ، کہ میری خواہشات نے نئے خواہشوں کو جنم دیا، کہ میرا جسم اَن سنی نغموں کو پہچان گیا، کہ وہ عورتیں جو لکھنا چاہتی ہیں، گانا گانا چاہتی ہیں، ناچنا چاہتی ہیں، بات کرنے کی جرات کرتی ہیں، یا کچھ نیا کرنا چاہتی ہیں، اور ان کو شرمندگی کا احساس دلایا گیا، جبکہ معاشرے کی اصل بیماری یہ ہے کہ ایسی عورتیں موت سے مزاحمت کرتیں ہیں اور زندہ رہنا چاہتی ہیں۔

اور تم کیوں نہیں گاتی ہو؟ گاؤ! گانا تمھارے لئے ہے اور تم گانے کے لئے ہو؛ یہ جسم تمھاری ہے اسے لے لو۔

مجھے پتہ ہے کہ تم گاتی کیوں نہیں ہو؟ کیونکہ گانا صرف مردوں کے لئے مختص کی گئی ہے اور یہ بالکل پاگل پن ہے۔

اور جو تم نے گایا ہے وہ بھی چھپ کے گایا ہے جو کہ اچھی بات نہیں کیونکہ وہ خفیہ ہے؛ یا تم نے وہ اپنے آپ کو سزا دینے کے لئے کیا ہے، یا پھر اپنی پریشانی کو کم کرنے۔

اور پھر جب تم گاتی ہو تو ہم اپنے آپ کو مجرم سمجھتے ہو۔ تاکہ ہمیں معاف کیا جا سکے، یا ہم بھول سکیں، یا پھر اس کو دبا سکیں۔
گاو !!! کہ تمھیں کوئی روک نہ سکے؛ مرد بھی نہیں اور نہ ہی پدر شاہی نظام، اب خواتین واپس نکل آئیں ہیں، اندھیرے سے، بہت دور سے، ہمیشہ سے، کسی خوف کے بغیر، جھاڑیوں سے جہاں چڑیلوں کو زندہ رکھا گیا ہے، بہت نیچے سے، ثقافتی دسترس سے، اپنے بچپن کے صدمے اور اس کو بھلانے کے تگ ودو سے۔ اور یہ کسی خطرہ سے کم نہیں۔

اب جب کہ وہ واپس آگئیں ہیں۔ اور وہ اُس بند کمرے میں، دائرے میں گھوم رہی ہیں، جس میں ان کو قیدی بنا کے برین واشنگ کی گئی تھیں۔ تم ان کو قید میں رکھ کے، سست کر سکتے ہو، پرانے حر بے استعمال کر سکتے ہو، کہ وہاں اندھیرا ہے، اندھیرا خوفناک ہے، اندھیرے میں دیکھ نہیں سکتے، اندھیرے میں ڈر ہے، اندھیرے میں ہلو مت کہ گر جاؤ گے ۔ اور ہم نے اندھیرے کے اس وحشت کو انٹرنیلائز کیا ہے۔

لیکن ہم بھی آندھی ہیں، طوفان ہیں، ہم اس حد تک جا سکتے ہیں جہاں کوئی اختتام بھی نہیں، ہم اپنی سوچ کو اب نہیں روکیں گے، نہ لکھنے کو اور نہ ہی گانے کو۔ اور ہم اپنے اندر کی کمی سے متذبذب نہیں ہونگے۔

ہمارے لئے خوشی کیا ہے کہ ہمیں نکال دی ہے، وراثت میں ہمیں ایسا سائیڈ کیا ہے کہ جیسے پینٹ کے برش سے کسی تصویر کو مٹانے کی کوشش کی گئی ہو۔ ہم خود اپنا حوصلہ ہیں، ہم ہر جگہ ہیں۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ اب سے کوئی بھی ہمیں روک نہیں سکتا، ہم ہمیشہ سے واپس آجاہیں گے۔

یہ وقت ہے کہ نوجوان لڑکیاں نئے سرے سے اپنا آپ جان کے، پرانے سے ٹوٹ کے خود سے جڑے۔ پرانے دسترس سے نکلے ، اور مستقبل کی عورتوں سے آگے نکل کر سوچیں ۔

ثقافت ہی رقص اور موسیقی کا کار فرما ہے، اسی لئے یہ سیاسی بھی ہے اور مردانہ بھی، جس کی وجہ سے عورتوں پر شعوری جبر برقرار رہی ہے، مگر بالکل خفیہ انداز میں۔ خواتین کے بولنے کی باری کبھی نہیں آئی ہے۔ گانا گانا اسی لئے ایک ممکن تبدیلی ہے اور سوشل اور ساختی تبدیلی کی بنیاد ہے۔

ہم ایک غیر شعوری دنیا بنا سکتے ہیں جس میں دبے گئے لوگ زندہ رہ سکے۔ کبھی سوچا ہے کہ پریاں اتنی دور پہاڑوں کے دامن میں کیوں رہتی ہیں؟ وہ کیوں انسانی آبادی سے بچ کے رہنا چاہتی ہیں؟ کیونکہ انسانوں کی بستی مردانہ اور وحشی ہوتی ہے۔

جب عورت کی آزادی کا وقت آئے گا، تو وہ ماضی سے ٹوٹ کے اپنی تاریخ بنائے گی: انفرادی لحاظ سے، وہ اپنا جسم جو کہ اس سے چھین لی گئی ہے، میں واپس جائے گی۔ گا لو، تاکہ لوگ تمھیں سنیں۔ اور پھر وہ لاشعوری دنیا بن سکے گی اور کھیل کے رولز تبدیل ہونگے۔ عورتیں اس شرمندگی (خواہش رکھنے یا نہ رکھنے پر؛ بہت ہونے پر یا کچھ نہ ہونے پر؛ ) سے نجات پائے گی۔ اپنی وِل کو مشق کرنے اور اپنے حق کے لئے شروعات لینے کئے خواتین کو گانا گانا چاہیے۔

پبلک میں کھڑے ہوکے، منہ کھولنا اور بات کرنا یا گانا گانا، عورتوں کے لئے بہت مشکل کام ہے، اور خاص کر طنز کرنے والےُ مردوں کے سامنے لیکن وہ جرات کرتی ہیں۔ یہ ایک علامتی سپیس کو جو کہ خاموشی سے ہٹ کر ہے۔

عورتوں کو پبلک میں سنیں، کہ اس کے اندر کی آواز سچی ہے۔
وہ چیز جو ہمیشہ کانوں میں گونجتی ہے،اور جس سے ہم سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہے، وہ ایک عورت کا گانا گانا ہے، بشرطیکہ سننے والا کان سمجھ بوجھ رکھتا ہو۔

ہم نئی تاریخ رقم کرنے کے دھانے پر ہیں۔ ایک سبجیکٹ ( نہ کہ اوبجکٹ) ہونے کے ناطے خواتین کو تاریخ میں ہر جگہ موجود ہونا چاہیے۔ انفرادی تاریخ، خواتین کی اور دنیا کی اجتماعی تاریخ میں شامل ہوتی ہے۔ وہ ہر قسم کی آزادی کا ایک لازمی جزو ہے۔ اس کو دوراندیش ہونے کا موقع ملنا چاہیے، نہ کہ اس کو قید میں محدود تعامل ہو۔ وہ ا انسانی سوچ میں، اقدار میں اور انسانی تعلقات میں نئی جان ڈال دیں گی۔ (جاری ہے)

ریشما پروین مسافر ماہر تعلیم ہیں اور حال ہی میں آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ وہ صنفی برابری کے حامی اور پدرشاہانہ نظام کے سخت خلاف ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں