Baam-e-Jahan

سیکسو کی میڈوسا کے ساتھ ایک رقص! پارٹ 2

gender equality

ریشمہ پروین


یاد رہے کہ جنسی مخالفت سے ہمیشہ مردوں نے ہی فائدہ اٹھایا ہے، یہاں تک کہ ناچ اور گانے کو بھی اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا ہے. یہ صرف ایک تاریخی اور ثقافتی حد ہے۔ اب یہ فسانہ تیزی سے ایک ناقابل تلافی نسائیت بن رہی ہے۔ بہت سے لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے مرد اور عورت کے موسیقی یا رقص میں امتیاز نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر دونوں کو اکھٹا کیا جائے، (نہ کہ ایک جنس میں حد تعین کرے) یہ انسانی سبجیکٹ کے بیچ کا ایک لامحدود متحرک ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک ایسا عمل جس میں مختلف سبجیکٹ کا آپس میں ایک دوسرے کی نئے سرے سے جان کاری ممکن ہے، مختلف قسم کے ان کاؤنٹرز، ایک کا دوسرے میں بدل جانا اور بیچ کی تبدیلیوں سے عورتیں اپنے وجود کو منظم کر سکتی ہیں۔

اب یہ ہو رہا ہے کہ عورتیں اپنی تاثیر سے اٹھ کھڑی ہو رہی ہیں اور بات کر رہی ہیں، اور ہلچل مچ رہی ہے۔ یہاں ہم مرد کا سامنا کرتے ہے جو کہ کسی چٹان کی طرح سخت ہے، منجمد ہے، تبدیل ہونے کی صلاحیت نہیں ہے، اس کی سوچ میں لچک نہیں، اس کا رویہ سخت ہے، اور اس کو پاور کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے بر عکس ہم عورتیں بے ترتیبی کا بیج بونے والے ہیں۔ اور یہ ہم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ ہم مردوں کے اندر کی کمی کو پورا کرنے والے نہیں بنیں گے، جس سے ماضی کے وہ سارے منجمد روائتیں مضبوط ہو۔ ہم یہ نہیں چاہتے۔ ہم منفی سوچ اور سخت رویے کی تابعداری اور بیعت کا عہد نہیں لیں گے۔ نسائیت کو ہی ہم ہاں کہیں گے۔ مستقبل کو پانی سا لچکدار کریں گے، نہ کہ چٹان کی طرح سخت۔ آج کی عورت مستقبل کے عورت کی اسلاف ہے، جس کے بعد آپس کے تعلقات پرانے جیسے نہیں رہیں گے۔ تم عورتو! تمھاری اپنی تاثیر اور پاور تب سامنے آئے گا جب تمھاری زبان کو جبر سے آزادی ملے گی۔

عورت نے ہمیشہ مرد کے کلامِ گفتگو کے اندر رہ کے بات کی ہے، یہ وقت ہے کہ عورتیں اپنا کلامِ گفتگو، اپنے ہی جسم اور روح کے اردگرد تشکیل دیں۔

جس اندھیرے سے ہمیں ڈرایا گیا تھا، وہ نہ اندھیرا ہے اور نہ ہی غیر دریافت شدہ ہے، وہ صرف اس لئے غیر دریافت شدہ ہے کیونکہ ہمیں یہ باور کرایا گیا تھا کہ وہ بہت خوفناک ہے۔ اور ہمیں یہ یقین کرنے پر مجبور کیا گیا تھا کہ سفید بہتر ہے ۔ اور ہم نے یقین کر بھی لیا۔ آدھی دنیا کا اس پر ہنسنا تو بنتا ہے، علاوہ اس کے کہ یہ ابھی تک ختم نہیں ہے، وہ نہیں بدلے ہیں، وہ اپنی خواہش سے دنیا کو اور حقیقت کو پینٹ کرتے ہیں۔ مذہبی پادریوں اور مولویوں کو کانپنے دو، ہم اپنا جنس دکھائیں گے۔

ان کے لئے یہ پریشانی ہوگی کہ ہم یہ دکھا دیں کہ عورتیں مرد نہیں ہیں، کہ عورتوں نے دھمکیاں سننا چھوڑ دی ہے تاکہ تاریخ بدل جائے۔ تمھیں میڈوسا کی آنکھ میں دیکھ کے یہ اندازہ لگانا ہوگا، کہ وہ زندہ ہے، لاش نہیں، کہ وہ خوبصورت ہے اور قہقہے لگا رہی ہے۔

مردوں کا ماننا ہے کہ موت اور نسائیت ناقابل نمائندگی ہے۔ کیونکہ وہ نسائیت کو موت کی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کو ہم سے ڈرنا چاہیے۔ اور ہم ان کو کانپتے جسم کو پیچھے سے دیکھتے ہوئے، کہیں کہ جلدی کرو کہ اب وہ اندھیرا ناقابل دریافت نہیں۔ میں یہاں رہی ہوں۔

کچھ مرد ایسے ہیں جو کی نسائیت سے نہیں ڈرتے، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ لیکن نسائیت کے بارے میں اب عورتوں کا سب کچھ لکھنا باقی ہے۔ ہمیں اپنے جسموں سے نفرت کرنا اور اس کو نظر انداز کرنا بڑی بے باکی اور بے شرمی سے سکھایا گیا ہے، کہ جنسی شائستگی ہو؛ وہی پرانا بیوقوفوں والا کھیل۔ لیکن وہ کون لوگ ہے جو کہ بے شرمی سے عورتوں کے جسموں پر بات کرتے ہیں جن کے اپنے جسم کو عورت نے جنم دیا ہے؟

جن چند عورتوں نے اپنے جسم کا دعوی کیا ہے، وہ گا بھی سکتے ہیں لکھ اور پڑھ بھی سکتے ہیں، کھیل بھی سکتے ہیں اور رقص بھی کر سکتے ہیں۔ یہی عورتوں کا پاور ہے، کہ وہ پرانے کو توڑتے ہیں، نئے بنانے کی جستجو میں ہیں، بول کے خاموشی توڑتے ہیں، اور ناممکن کو ممکن بناتے ہیں۔ پرانا نظام مردوں کے لئے ایک ایسا سہارا ہے، جیسے پیٹ میں ماں کا نال نومولود کے لئے ایک سہارا ہوتا ہے۔ مرد ہمیشہ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ بوڑھی عورتیں ہی ٹھیک ہیں، جن سے ان کو سہارہ ملتا ہے۔

عورت کا گانا گانا تخریبی سے کم نہیں۔ یہ مردوں کی اجارہ داری پہ ایک چوٹ ہے۔ اگر عورت مرد نہیں ہے تو اس کے لئے جگہ نہیں ہے، لیکن وہ عورت ہی رہ کے پدرشاہی کو توڑ ڈالے گی۔ مرد کے بنائے ہوئے قانون کو تباہ کریگی، اور اپنے قہقہے سے مردوں کی “سچ” کو اڑا دے گی

عورت نے ہمیشہ مرد کے کلامِ گفتگو کے اندر رہ کے بات کی ہے، یہ وقت ہے کہ عورتیں اپنا کلامِ گفتگو، اپنے ہی جسم اور روح کے اردگرد تشکیل دیں۔ عورت کا اپنا کلام گفتگوہو، اس کو پکڑیں، اپنے منہ میں ڈالیں، اپنے ہی دانت سے اس کو کاٹے، تاکہ اپنے لئے اپنے الفاظ اور زبان تشکیل دے سکیں۔ اور اس سے اپنے ہی اندر سے وہ بہار ملے، جہاں کبھی ہم مردوں کے قید میں تھے-
ہم کنٹرول حاصل کر کے جبر نہیں کریں گے، بلکہ اس کو توڑ کے پرواز کریں گے۔ پرواز ہماری زبان ہے، علامت ہے۔ ہم پرندے بنیں گے، نہ کہ ڈاکو۔

عورتیں کسی جگہ بھی نہ ڈریں۔ میری آنکھیں، میری زبان، میرے کان، میرا ناک، میری جلد، میرا منہ، اور میرا جسم ۔۔۔۔ تم بچے پیدا کرنا چاہو، یا نہ چاہو، یہ صرف تمھارا فیصلہ ہے، کسی کو یہ اختیار مت دو کہ وہ تمھیں ڈرائے دھمکائے، تمھاری اپنی خواہش کے خلاف۔ اور عورتیں بچوں کے معاملے میں زیادہ خطرے سے گزرتی ہیں، اب یہ مرد اور عورت پر ہے کہ پرانے سسٹم کو توڑ دیں، ایک نیا اور زندہ سبجیکٹ بنانے کے لئے۔ ہماری خواہشات ہمیں گائیڈ کرے گی، جیسے لکھنے کی خواہش، بولنے کی خواہش، گانے کی خواہش، اور اپنے آپ میں زندہ رہنے کی خواہش، اور زبان رکھنے کی خواہش۔

کل کی عورتیں بھی ابھی تک زندہ ہیں، جو کہ پرانے خیالات اور طاقت کے مارے ہوئے ہیں، چپ ہیں، یا مردوں کے حقیقت کے زیر اثر ہیں اور enlightened کی مزاحمت کرتیں ہیں۔ اگر نئی نسل کی لڑکیاں جرات کریں تو ان کو ہلایا جاسکتا ہیں، لیکن افسوس کہ ہمیں واپس اس رسی میں باندھ دی جاتی ہے، جو کہ اگر باپ کا نہیں تو اس جگہ کا جو کہ پدر شاہی سے منسلک ہے، میں رکھا جاتا ہے۔ ہم پر آوازیں کسی جاتی ہیں، اور ہمیں “سیدھے لائن” میں لایا جاتا ہے اور باندھ لیا جاتا ہے کہ وہ جو اہم ہیں ان کے لئے کام کریں۔

ان اہم لوگوں سے دور رہو! وہ تمھیں اس رسی میں واپس باندھ لیں گے اور تمھاری طاقت کو مفلوج کریں گے۔ اس دائرے کو توڑ دو۔

وہ جو عورت ہونے کا خطرہ لے سکتے ہیں وہ کبھی خوف زدہ نہیں ہونگے۔ نہ خواہشات رکھنے سے، نہ ہی اپنے اندر کے سپیس سے جو ابھی دریافت کرنا باقی ہے۔ وہ نہ انکار کرتے ہیں اور نہ ہی نفرت۔ وہ دیکھتے ہیں، جانچتے ہیں، وہ دوسری عورتوں کو اپروچ کرتے ہیں، بچے کا خیال رکھتے ہیں اور محبت کرتے ہیں۔

میں تمھارے لئے ہوں، جو تم مجھ میں دیکھنا چاہو، مجھے ایسے دیکھو، جیسے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ جب ہم لکھتے ہیں، گاتے ہیں، رقص کرتے ہیں اور ہر وہ چیز جو ہم نہیں جانتے کہ ہم جانتے ہیں، ہمیں محبت کی طرف لے جائے گی۔

ایک دوسرے میں ہم کبھی بھی کم نہیں ہونگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں