بصیر نوید
لاہور میں صوبائی حکومت کی درخواست پر 60 دن کیلئے رینجرز کو طلب کرلیا گیا اور کراچی کی مثال دی گئی ہے۔ اب یہاں رینجرز بھی کراچی کی طرح کبھی واپس نہیں جائے گی، ہر 60 دن کے بعد انکے قیام کی توسیع کیلئے دباؤ ڈالا جائے گا چاہے حکومت پی ٹی آئی کی ہو یا ن لیگ کی۔ اگر توسیع میں صوبائی حکومت ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی رہی تو پھر ہنگامے ہوں گے، کرائم کی شرح بڑھ جائے گی، ویسے لبیک والی تنظیم تو موجود ہوگی جسکو صرف اشارہ کی ضرورت ہوگی۔ کراچی میں 1987 میں 90 دن کیلئے آئی تھی اور مجال ہے جو ایک دن کی بھی غیر حاضری کی ہو۔
اب یہ لاہور میں سب سے پہلے تعلیمی اداروں پر قبضہ کرکے قیام کریں گے اور کراچی کی طرح انکی منزل کا پہلا قیام طالبات کے سرکاری اسکول اور کالجز ہوں گے، جہاں یہ لنگوٹ باندھ کر اپنے کپڑے خاص کر اپنے انڈرویر لٹکائیں گے، خواتین اساتذہ کو تلقین کریں گے کہ زیادہ توجہ سے پڑھائیں اور کالجوں میں شام تک بیٹھا کریں اپنی تنخواہیں حلال گریں۔ انکے پاس ایسے کرتوتوں کیلئے کراچی کا تجربی پہلے ہی سے موجود ہے۔ پھر بوائز ہاسٹلز اور تاریخی عمارتوں پر قبضہ کرکے اپنے قیام کو دوام بخشیں گے۔ کسی پرانی عمارت جو انگریزوں نے تعمیر کی ہو اسمیں عقوبت خانے قائم کرکے لاپتہ افراد سے تفتیش کرینگے۔ ایسی عمارتوں کا چناؤ کرسکتے ہیں جہاں سے چیخوں کی آوازیں باہر نہ جائیں۔ نیز ایدھی سینٹرز جیسی کسی فلاحی تنظیم کی ایمبولینسز پر قبضہ کرکے لاپتہ لوگوں کی لاشیں گمنام قبرستانوں تک پہنچائی جائیں گی۔
کوکا کولا اور پیپسی کی جعلی مشروبات کی فیکٹریاں چلائی جائیں گی، شہریوں کو پینے کا پانی نلکوں کے فراہمی ممکن نہیں ہوگی، بلکہ پانی کی موٹی پائپ لائنوں میں جگہ جگہ نقب لگا کر واٹر ٹینکوں کا کاروبار عروج پر ہوگا۔ٹرانسپورٹر حضرات بھی اپنے کاروبار کا خیال رکھیں کیونکہ ہر بس، رکشہ، ٹیکسی اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کو اپنی آمدنی کا ایک خاص حصہ رینجرز کی خوشنودی کیلئے رکھنا پڑے گا۔ نوجوانوں کو والدین سنبھالیں جنکا جنسی استعمال ہونے کے ساتھ مختلف جرائم میں ملوث کردئیے جانے کے بڑے امکانات ہوجاتے ہیں، ورنہ مقابلوں میں ماردیئے جائیں گے۔ کرائم ریٹ بڑھ جائیں گے۔ یہ سب کراچی اور سندھ کے مختلف شیروں میں ہوا ہے۔ ایک مرتبہ آمد کے بعد مجال ہے انہیں کوئی واپس بھیج سکے۔ لاہور والو اب تم بھی مزہ چکھو، بہت کراچی والوں پر الزام لگائے اب تمہاری باری ہے۔