پرویز ہود بھائی، بشکریہ: جدوجہد
وزیر اعظم عمران خا ن کا کہنا ہے کہ وہ ویسی ہی فلاحی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جو ساتویں صدی میں پیغمبر اسلام نے قائم کی تھی، یعنی وہ دور حاضر کی ریاست مدینہ کابانی بننا چاہتے ہیں۔ 12 ربیع الاؤل کی تقریبات کی تیاریوں کے سلسلے میں ہونے والے ایک اجلاس میں انہوں نے رحمت العالمین اتھارٹی بنانے کا اعلان بھی کیا اور خود ہی اس اتھارٹی کے سر پرست اعلیٰ بھی بن گئے۔
عمران خا ن کا کہنا ہے کہ رحمت العالمین اتھارٹی کی مدد سے ریاستِ مدینہ کی منزل اور قریب آ جائے گی۔ لیکن یہ اتھارٹی اپنا نصب العین کیسے حاصل کرے گی؟ ایسے کون سے اقدامات اٹھائے جائیں گے جن کے نتیجے میں مسلمانوں کے دل میں پیغمبر اسلام کا پیغام ِ مساوات نقش ہو جائے گا؟ مغرب اسلاموفوبیا سے تائب ہو جائے گا؟ اس بابت کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ ہر کس و ناکس کو یہ منطق تو سمجھ میں آتی ہے کہ محکمہ گیس یا محکمہ پانی و بجلی کو چلانے کے لئے اتھارٹی بنائی جائے تو اس کا مقصد کیا ہو گا۔ پیغمبر اسلام کے نام پر قائم کی گئی اتھارٹی کیا خدمات سر انجام دے گی؟
عمران خان اس سوال کا جواب یہ دیتے ہیں کہ وہ ایک عالم کو رحمت العالمین اتھارٹی کا سربراہ مقرر کریں گے (تلاش شروع ہو چکی ہے) جس کے بعد رحمت العالمین اتھارٹی نصابی کتب کا جائزہ لے گی، سوشل میڈیا پر نظر رکھے گی، توہین ِمذہب کرنے والوں کا تدارک کرے گی، علاوہ ازیں یہ اتھارٹی یونیورسٹیوں میں تحقییق کا بندوبست کرائے گی تا کہ اسلام کا صحیح پیغام لوگوں تک پہنچ سکے۔ صدر عارف علوی نے اس آرڈیننس پر دستخط بھی کر دئیے ہیں۔
بندہ پرور اس وضاحت پر سر ہی پیٹ سکتا ہے۔
پاکستان میں نصابی کتب، حتیٰ کہ سائنس کی کتابیں، مذہبی سنسر شپ کی قینچی سے گزر کر ہی طلبہ تک پہنچتی ہیں۔ رہی بات نیوز میڈیا کی تو ان پر نظر رکھنے کے لئے پہلے ہی متعلقہ ادارے موجود ہیں۔ جہاں تک سیرت نبی پرتحقیق کی بات ہے تو یہ بھی پہلے موجود ہے۔ ویسے کیا ہمیں پہلے سے سکولوں میں مساوات محمدی اور پیغمبر اسلام کے نظریہ انصاف کا درس نہیں دیا جا رہا تھا؟
رحمت العالمین اتھارٹی سیاسی مقاصد کے لئے بنائی جا رہی ہے نہ کہ مذہبی مقاصد کے لئے۔ اس اتھارٹی کے قیام کے موقع پر عمران خان نے جو تقریر کی، وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے۔
تقریر کے آغاز پر ہر مذہبی مبلغ کی طرح انہوں نے پرجوش وعظ کیا (لیکن معلوم نہیں ونسٹن چرچل اور برطانوی عدالتیں بیچ میں کہاں سے آ گئیں) پھر سیاست پر گفتگو شروع کر دی۔ اپنے پیش رو حکمرانوں کے بخئے ادھیڑے، انتخابی دھاندلیوں کا واویلا کیا اور تان الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر آ کر ٹوٹی۔ بیچ میں حضرت عمر کا حوالہ دیا گیا کہ انہوں نے (دو دفعہ) سپہ سالار اعلیٰ خالد بن ولید کو برطرف کیا حالانکہ سپہ سالار اعلیٰ نے کبھی کوئی جنگ نہیں ہاری۔
اس پرانے تنازعہ کو یہاں پر کیوں اُٹھایا گیا؟ اس لئے تو نہیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے سوال پر جنرل باجوہ اور عمران خان کے مابین اختلافات تھے؟ بین السطور پیغام یہ تھا: میں باس ہوں، جرنیل میرا حکم مانیں (خیر،کچھ دن بعدعمران کو پسپا ہونا پڑا)۔
اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ عمران خان کا موقف درست تھا، پھر بھی کسی مذہبی موقع پر سیاسی بات کرنا مناسب نہیں اس لئے کہ سیاست اور مذہب کو علیحدہ رہنا چاہئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کے بھوکے ایسے بے شمار سیاستدان گزرے ہیں جنہوں نے سیاست کے لئے مذہب کا استحصال کیا۔ لوگوں سے وعدہ کیا گیا کہ چاند تارے توڑ کر لائیں گے اور عوام کے قدموں میں ڈھیر کر دیں گے مگر نتیجہ ہمیشہ ڈھاک کے وہی تین پات۔ ریاست مدینہ کا وعدہ بھی ایسا ہی ایک وعدہ ثابت ہوا ہے۔ وعدوں کے نتیجے میں مزید وعدے کر دئیے جاتے ہیں۔
بقول مارکس: جب لوگوں کو روٹی نہ دے سکو تو افیون فراہم کر دو۔ امسال یو این ڈی پی کی جاری کی گئی رپورٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کس حال کو پہنچ چکا ہے۔ امیر غریب میں فرق آسمان کو چھو رہا ہے۔ فوج، کارپوریٹ سیکٹر، جاگیردار طبقے، سیاستدانوں اور امیر طبقے کو 17.4 ارب ڈالڑ ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے۔ قاری جانتے ہونگے کہ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ اور فوجی فاونڈیشن کو ٹیکس سے مکمل طور پر مستثنیٰ قرار دیدیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق: ”امیر اور غریب پاکستانی دو مختلف پاکستانوں میں رہتے ہیں۔ دونوں کے لئے دستیاب تعلیم اور صحت کی سہولتوں اور معیار زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے“۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح مراعات یافتہ طبقہ ایسی مراعات کا اعلان کرتا ہے جن سے صرف وہ خود ہی مستفید ہوتا ہے۔ رپورٹ میں شائد یہ اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو وزیر اعظم کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں۔ یو این ڈی پی نے یہ رپورٹ اپریل میں وزیر اعظم کو پیش کی تھی۔ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ نے اس پر غور کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ معاملہ ختم۔
وزیر اعظم ایک فلاحی ریاست چاہتے ہیں۔ درست؟ فلاحی ریاست بنانے کا طریقہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
ماہرین کے مطابق پاکستان میں رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کا اصل تخمینہ 300 تا 400 ارب ڈالر لگایا جاتا ہے۔ جو تخمینہ ظاہر کیا جاتا ہے وہ 16 تا 20 ارب ڈالر ہے، یعنی 20 گنا کم۔ قارئین کو چاہئے کہ کسی دن خود ہی ویکی پیڈیا وزٹ کریں اور دیکھیں کہ عمران خان، نواز شریف، پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے اعلان کردہ اثاثوں کی اعلانیہ قیمت اور مارکیٹ میں ان کی اصل قیمت میں کتنا فرق ہے۔ جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب ایماندار لوگ ہیں۔
ان حقائق کے پیش ِنظر پہلا اقدام یہ ہو نا چاہئے: رحمت العالمین اتھارٹی بنانے کی بجائے ایسی اتھارٹی بنائی جائے جو ہر شہری کی دیہی و شہری جائداد کا اصل تخمینہ لگائے۔ اس کے علاوہ ان کی آمدن کا حساب کتاب دیکھے۔ مزید یہ کہ اندرون ملک و بیرون ملک تمام اثاثہ جات کی تفصیل جمع کی جائے۔ ایک بار جب اصل صورت ِحال سامنے آ جائے تو امیر لوگوں پر ان کی دولت کے حساب سے ٹیکس لگایا جائے مگر متوسط طبقہ پر ٹیکس کا بوجھ کم ڈالا جائے۔
کیا دیگر ممالک میں ایسا ہوتا ہے؟ کچھ میں ہوتا ہے، کچھ میں نہیں ہوتا۔
کیا پاکستان میں ایسا ہو سکتا ہے؟ شائد۔ اگر یوں کیا گیا تو موجودہ نظام ضرور درہم برہم ہو گا۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہیں تو شہریوں کو اس بارے سچ سچ بتا دینا چاہئے۔ خان صاحب، اگر آپ ایسا کچھ کرنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتے تو کم از کم عوام سے جھوٹ مت بولیں۔
عمران خان نے بار بار وعدہ کیا کہ وہ لوٹ مار کرنے والی پاکستانی اشرافیہ کی کمر توڑ کر رکھ دیں گے مگر اس نعرے کا اطلاق عام طور پر سیاسی مخالفین کے علاوہ خال خال ہی ہوتا نظر آیا۔ جرنیل، پراپرٹی ڈویلپر، بنکار، ارب پتی لوگ احتساب کے شکنجے میں جکڑے نظر نہیں آئے۔ شائد عمران خان جانتے ہیں کہ اقتدار میں رہنا ہے تو ان قوتوں سے بنا کر رکھنی پڑے گی جن کو وہ ماضی میں للکارا کرتے تھے۔
خان صاحب، اگر آپ اسلاموفوبیا ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا طریقہ بھی ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے لئے تھوڑی آسانیاں پیدا کریں۔ غیر مسلموں کی اکثریت تو پہلے ہی ملک چھوڑ چکی۔ باقی تیار بیٹھے ہیں۔ رحمت العالمین اتھارٹی سے لامحدود تحقیق کرانے کی بجائے لا اکرہ فی الدین پر عمل کرائیں۔ حالت یہ ہے کہ کسی بھی 13 سالہ ہندو یا مسیحی بچی کو اغوا کے بعد زبردستی اسلام قبول کرا دیا جاتا ہے۔ ایک پارلیمانی کمیٹی نے جبری تبدیلی مذہب کا بل مسترد کر دیا ہے۔ یورپ میں پھیلے اسلاموفوبیا کا توڑ یہ نہیں کہ فرانس کے سفیر کو بے دخل کرنے کا اعلان کیا جائے، پھر اس اعلان سے پیچھے ہٹ جائیں…بہتر حل یہ ہو گا کہ اس بل کو منظور کیا جائے۔
عمران خان ہر دوسری تقریر میں نوجوانوں میں ”اخلاقی بے راہ روی“ کا رونا ضرور روتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے کہ پاکستان میں طلاقیں بڑھ گئی ہیں، شادیاں کم ہو گئی ہیں اور لوگوں کی وضع قطع مغربی طرز کی ہوتی جا رہی ہے؟
لمز کے پروفیسر اور ماہر عمرانیات عمیر جاوید کی تحقیق کے مطابق تو ایسا نہیں ہے۔ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ لائف سٹائل میں رجعت پسندی اور مذہبی نمود و نمائش میں اضافہ ہوا ہے۔ کیا اس سارے عمل کے نتیجے میں پاکستانی زیادہ دیانت دار اور باہمی معاملات میں زیادہ بردبار بن گئے ہیں؟ اس کا فیصلہ قارئین خود کر لیں۔
تسبیح پھیرنے، بے راہ روی کا رونا رونے اور ایسے مسائل کا حل پیش کرنے سے جن کا سرے سے وجود ہی نہ ہو، پاکستان فلاحی ریاست نہیں بنے گا۔ پاکستانی رہنما معیشت پر توجہ دیں، تعلیم کے معیار کو بہتر بنائیں، نوجوانوں میں بیروزگاری کا تدارک کریں، ٹیکنالوجی کے میدان میں پسماندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کریں…سب سے اہم یہ کہ طالبان کی فتح (جو باقی دنیا کی نظر میں پاکستان کی مدد سے حاصل ہوئی) کے نتیجے میں ہونیوالی عالمی تنہائی کا کوئی حل نکالیں۔