Baam-e-Jahan

ثقافتی پاگل پن (قسط دوئم)

عزیزاد علی د

عزیز علی داد



میری پچھلی مضمون قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں کھیلوں کا ہفتہ منانے کے دوران منعقدہ ایک تفریحی پروگرام میں طلبا و طالبات کے گانا گانے اور ڈانس کرنے کے نتیجے میں عوامی سطح پر پیدا ہونے والے شدید ردِ عمل کے متعلق تھی، جس میں میں نے کہا تھا کہ ہم ایک ثقافتی پاگل پن میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے ہمارا ذہن اور شخصیت دو متضاد حصوں میں بٹ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم میں نہ روایت کی فہم باقی ہے نہ ہی کلچر کی۔ اور یہی وہ بات تھی جو کلچر کے ٹھیکیداروں اور غیرت بریگیڈ کو بری لگی اور حسبِ روایت اور حسبِ توقع وہ اپنے مخصوص کلچر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے قومی کھیل یعنی ذاتیات اور گالم گلوچ پر اتر آئے۔

ان حالات میں مجھے میتھیو آرنلڈ کی کہی گئی ایک خوبصورت بات یاد آتی ہے جس میں وہ دنیا میں سب سے اعلٰی سوچی گئی سوچ اور اس کے اظہار سے رابطہ ہونے کو کلچر کا نام دیتے ہیں۔ لیکن صد افسوس کہ ہمارے یہاں گھٹیا اور غلیظ سوچ کا اظہار کرنے والے کلچر کے نمائندے بن گئے ہیں۔ اور یہی ایک معاشرے کی سب سے نچلی سطح پر ہونے یعنی اسفل سافلین ہونے کی علامت ہے۔

معاشرے کا تہذیبی سطح پر اتنی پستی میں گرنے کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے اہم ہمارے اذہان کا یک رخی ہوجانا ہے۔ جب ہمارا ذہن یک رخی ہوجاتے ہیں تو اس سے تمام رنگ محو ہوجاتے ہیں۔ یوں وہ رنگوں کی گوناگونی دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے، اور وہ باہر کی دنیا کو صرف ایک ہی رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ بھی اسی یک رخی ذہن کے مالک بن کر اب ہر معاملے کو صرف فرقہ واریت کا ہی رنگ دیتے ہیں۔ آپ کچھ بھی کہیں، آپ کی دیگر شناختوں کو نظر انداز کر کے آپ کے قول اور فعل کو فرقہ ورانہ ترازو میں رکھ کر ہی تولیں گے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ رقص اور موسیقی کا تعلق سیدھا آپ کے فرقے سے جڑا ہے۔ حالآنکہ ان دونوں اعمال کا تعلق انسان کے دل کی خوشی اور اسے منانے کے انداز سے ہے۔ اسی طرح اگر کوئی لواطت جیسے غلیظ فعل کا مرتکب ہوتا ہے تو اس حرکت کو بھی سیدھا فرقے کے ساتھ مربوط کیا جاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رکتا بلکہ یہی ذہنیت اپنے خوفناک ترین نتائج سمیت ہر طرف دکھائی دیتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا پورا معاشرہ ہی ذہنی طور پر مفلوج ہوچلا ہے۔

خیر آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ گلگت کے شامنزم/دانیل میں موسیقی، ناچ اور گانا اہم عناصر ہوتے ہیں۔ اور ہمارا مقامی دنیل چاہے وہ مرد ہو یا عورت، سُرنائی کی دھن اور ڈھول کی تھاپ پر لوگوں کے سامنے رقص کرتے اور گانا گاتے ہوئے نچھار یا کسی ذہنی مرض کی تشخیص کرتے تھے۔ یوں وہ ایک طرح سے معاشرتی طبیب کا کام بھی سرانجام دیتے تھے۔ اب ہمارا المیہ یہ ہے کہ ذہنی امراض کی تشخیص کرنے والے ایسے طبیب ہم میں نہیں رہے۔ اور جنہوں نے معاشرے کو ٹھیک کرنے کا ٹھیکہ اپنے ذمے لیا ہوا ہے، بنیادی طور پر وہ خود ذہنی لحاظ سے ڈسٹرب ہیں۔ نتیجتاً، ہم پاگل پنے کے مزید اندھیرے زندان خانے میں گرتے جا رہے ہیں۔ یہی شامنزم، امریکہ کے اصلی باشندوں میں ایک مضبوط روایت رہی ہے۔ ان کا شامن بھی ایک طرح سے ذہنی بیماریوں کی تشخیص اور ان کا علاج کرتا تھا۔ اگر کوئی فرد بے دلی، بے گانگی اور ڈپریشن کا شکار ہوتا تو وہ علاج کرانے شامن کے پاس چلاجاتا۔ شامن مریض سے کچھ بنیادی سوالات پوچھتا تھا جو کچھ اس مطابق ہوتے
۔ 1 آپ نے رقص کرنا کب ترک کیا ہے؟
۔ 2 آپ نے گانے گانا کب چھوڑ دیا ہے؟
۔3 آپ نے کہانیوں سے مسحور ہونے کی صلاحیت کب کھو دی ہے؟
۔4 آپ خاموشی کی آغوش میں کب سے آسودگی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں؟

چنانچہ ان سوالات سے حاصل شدہ جوابات کا تجزیہ کرنے کے بعد شامن/دنیل کا یہ کہنا ہے کہ انسان کی زندگی سے اگر یہ چیزیں غائب ہوجائیں تو انسان پاگل پنے کا شکار ہوجاتا ہے۔ جہاں انسان کو جسمانی طور پر صحت مند رہنے کیلئے اچھے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں زندگی کو خوبصورت بنانے کے لیے جمالیات کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ جس معاشرے سے جمالیات کے عناصر مثلا موسیقی، ناچ اور گانا غائب ہوجائیں وہ معاشرہ دیوانگی کا شکار ہوجاتا ہے۔

تصویر میں ایک دنیل/شامن موسیقی کی دھن پر وجدانی کیفیت میں ناچ رہا ہے۔

اس کی مثال حالیہ دنوں میں طالبان کے ہاتھوں درجن سے زیادہ باراتیوں کا قتل ہے جن کا قصور یہ تھا کہ وہ بارات لے جانے کے دوران موسیقی کے آلات بجارہے تھے۔ ان کا یہ انجام اس لئے ہوا کہ تشدد اور خون ریزی کے رسیا ان طالبان کے دلوں میں موسیقیت کے لئے گنجائش تھی نہ ہی اس کو سننے اور محسوس کرنے کی صلاحیت! لہٰذا موسیقی کی تال پہ رقصاں، خوشی سے تھرکتے لوگ ان کو پاگل اور واجب القتل لگے۔ یہی صورت حال قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں موسیقی پر اعتراض کرنے والوں کی بھی ہے۔ وہ ایک ایسے راستے پر گامزن ہیں جس کی منزل درندگی اور وحشت کے سوا کچھ نہیں۔ وگرنہ یہی انسان اگر کائنات کا اچھوتا پن اور انسان کی خوبصورتی کو محسوس کرسکے تو وہ بھی مولانا رومی کی طرح یہ گاتے ہوئے محوِ رقصاں ہو:
نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم
​ترجمہ: "میں کُوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔”

اسی طرح حضرت عثمان مروندی رقص کرتے ہوتے فرماتے ہیں
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بایں ذوقے کہ پیشِِ یار می رقصم
ترجمہ: مجھے نہیں معلوم کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقصاں ھوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقصاں ھوں۔
تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہر طرزے کہ رقصانی منم اے یار می رقصم
ترجمہ: توہر وقت جب بھی مجھے نغمہ سناتا ہے، میں ہر بار رقصاں ھوں، اور جس طرز پر بھی تو رقص کراتا ہے، اے یار میں رقصاں ھوں۔
​ترجمہ: "میں کُوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔”

اس کے ساتھ ہی نطشے کا وہ قول بھی دہرانا مناسب ہوگا کہ جنہیں موسیقی کی آوازسنائی نہیں دی ان کو لگا کہ رقص کرنے والے پاگل ہیں۔


عزیز علی داد گلگت بلتستان کے نوجوان مفکر، کام نویس، اور محقق ہیں وہ سماجی و ثقافتی مسائل پر مختلیف انگریزی اخبارات اور بین الاقوامی جریدوں میں لکھتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے