عنایت ابدالی
سپریم اپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم نے جس طریقے اور جن کے کہنے پر کامریڈ باباجان کو الیکشن سے باہر رکھنے کے لیے 75 سال کی سزا دی وہی طریقہ میاں محمد نواز شریف کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔
بس فرق یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس رانا شمیم نواز شریف کے ذاتی کلرک تھے جس نے موصوف کو اٹھا کر ہمارے اوپر مسلط کیا اور اب چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے ایک کال کو لے کر نواز شریف کا گواہ بن رہا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ باباجان ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ نہ کسی کو چیف جسٹس بنا سکتا ہے اور نہ ہی اس کو سزا دلوانے کے لیے جہاں جہاں، جس جس نے سازشیں کی، وہاں سے کوئی گواہی دیے گا۔
سابق چیف جسٹس رانا شمیم نے باباجان اور دیگر چودہ افراد کو 75 سال تک کی سزائیں دینے کے بعد کئی نجی محفلوں میں اعتراف کیا تھا کہ باباجان اور دیگر کے خلاف فیصلے عجلت میں کیے گئے۔
ایک اہم ثبوت یہ بھی ہے کہ انسداد دہشتگری عدالت نے جن نوجوانوں کو باعزت رہا کیا، رانا شمیم نے ان کو بھی سزائیں دے کر جیل بھیج دیا بعد آزاں ان کو رہا کیا گیا۔
اسی بینج میں ایک معزز جج شہباز خان نے کامریڈ باباجان اور دیگر کے حق میں فیصلہ دیا۔ بعد آزاں جسٹس شہباز خان دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا۔
کامریڈ باباجان اور دیگر کو علی آباد ہنزہ میں عوامی دھرنے سے اس وقت رہا کیا گیا مگر دھرنے کے شرکا اور حکومت کے درمیان جو معاہدے ہوئے وہ ابھی تک منظر عام پر نہیں لائے گئے۔
سپریم اپلیٹ کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ کامریڈ باباجان اور دیگر چودہ نوجوانوں کی ریویو پٹیشن کو سماعت کےلیے مقرر کریں تاکہ جس عجلت میں باباجان اور دیگر چودہ نوجوانوں کو سزا دی گئی تھی اس کا ازالہ ہو سکیں۔
آخر میں رانا شمیم سے مطالبہ ہے کہ لندن سے یہ بیان بھی جاری کریں کہ باباجان کو الیکشن سے باہر رکھنے اور اس وقت کے گورنر گلگت بلتستان میر غضنفر علی خان کے بیٹے کو جتوانے کے لیے انہوں نے گورنر گلگت بلتستان، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان اور دیگر طاقتوں کے کہنے پر غیر قانونی اور عجلت میں باباجان اور دیگر نوجوانوں کو سزائیں سنائی۔
اگر سابق چیف جسٹس سپریم اپلیٹ کورٹ رانا شمیم جرات کرکے یہ بیان بھی ریکارڈ کریں جہاں نواز شریف کے خلاف سازش کا پول کھول دیا وہاں نواز شریف کی پارٹی کے عہدیداران نے باباجان کے خلاف جو سازش کی وہ بھی بے نقاب کریں۔