علی احمد جان، بشکریہ: ہم سب
جب سے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج محترم رانا شمیم کے حوالے سے پاکستان کے سابق چیف جسٹس محترم ثاقب نثار پر یہ الزام سامنے آیا ہے کہ انھوں نے سابق وزیر اعظم نوز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو انتخابات سے دور رکھنے کے لئے ماتحت عدلیہ پر دباؤ ڈالا تھا، ملک میں ایک ہنگام سا بپا ہے۔ اسلام آباد کی ہائی کورٹ نے دیگر کے علاوہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کو بھی توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے ہوئے ہیں۔ دو سابق منصفوں کے درمیان اس انوکھے مقدمے سے مزید انکشافات اور تحیرات متوقع ہیں۔
گلگت بلتستان کی عدلیہ بھی وہاں کی مقننہ کی طرح ایک انتظامی حکم نامہ مجریہ 2009 ء (یہ حکم نامہ بوقت ضرورت تبدیل کر دیا جاتا ہے ) کے تحت وجود میں آئی ہے جو ہمیشہ اسلام آباد میں قائم وفاقی حکومت کے تابعدار اور فرمانبردار ہوتی ہے۔ بشمول چیف جج تمام ججوں کی تعیناتی وفاقی حکومت کرتی ہے جس کے لئے کسی واضح طریقہ کار کی عدم موجودگی میں ہر دور میں حکومت وقت سے وفاداری بشرط استواری کا ہی دستور رہا ہے۔
گلگت بلتستان کا ایک عدالتی کیس جس نے پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں شہرت پائی وہ کامریڈ بابا جان نام کے ایک سیاسی کارکن کو دی جانے والی 80 سال کی سزا کاہے۔ کامریڈ بابا جان ایک سیاسی بلوے کے دوران ہونے والے اپنے ہی کارکن کے قتل کے الزام میں جیل میں تھے۔ جہاں سے اس نے گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے کاغذات جمع کروا دیے تھے۔ ہنزہ کا حلقہ جہاں سے کامریڈ بابا جان الیکشن لڑ رہے تھے پاکستان بھر سے اس کی جماعت پاکستان ورکرز پارٹی کا آماجگاہ بن گیا۔ گاؤں میں لوگ پیدل ہی اس کی انتخابی مہم چلانے نکلے۔ شاہراہ قراقرم پر ٹریکٹر ٹرالی پر سرخ جھنڈے لہراتے ہوئے نوجوان گھر، محلہ گلی کوچوں میں پھیل گئے۔
کامریڈ بابا جان کا مقابلہ ہنزہ کے روایتی حکمران خاندان سے تھا جو اس دور کی حکمران جماعت کے دیرینہ وفادار اور حاشہ بردار رہے تھے۔ ہنزہ میں انتخابی مہم کے دوران کامریڈ بابا جان کی جیت یقینی نظر آنے لگی۔ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں میں بھی بتایا گیا کہ اگر انتخابات ہوئے تو بابا جان کو جیتنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
گلگت بلتستان کے اپیلٹ کورٹ نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابات سے فوراً پہلے راتوں رات بابا جان کو 80 سال کی سزا دے کر نا اہل کر دیا اور پاکستان کی حکمران جماعت کے وفادار خاندان کی جیت کو یقینی بنایا۔ مکافات عمل دیکھیے کہ کچھ ایسا ہی پاکستان کے اس وقت کی حکمران جماعت کے سربراہ کے ساتھ ملک کی سب سے اعلیٰ عدلیہ نے بھی کیا۔ ہنزہ کا وہ خاندان جس پر نوازشات کی بارش ہوئی تھی آج کل وہ بھی مکافات عمل سے گزر رہا ہے۔
گلگت بلتستان کی عدلیہ میں بڑی دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ملک کے مخصوص واقعات کے مقدمات بھی یہاں درج کروائے جاتے ہیں۔ جیسے جنگ جیو گروپ کے خلاف مشہور شائستہ واحدی توہین مذہب کا کیس جس میں ملزمان کو گلگت بلتستان کی عدالت نے سزا بھی دی ہوئی ہے۔ سننے میں آتا ہے ایسے کئی کیس بھی گلگت بلتستان میں چل رہے ہیں جن کا اس خطے سے کوئی تعلق بھی نہیں۔ آج تک کسی جج سے یہ کسی نے نہیں پوچھا کہ گلگت بلتستان پاکستان کے آئینی حدود میں شامل نہیں تو عدالت کس آئین اور قانون کے تحت ایسے مقدمات سنتی ہے۔
جب سے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کا پاکستان کے سابق چیف جسٹس کے بارے میں انکشاف سامنے آیا ہے اس کے بعد کئی اور زبانیں بھی بولنے لگی ہیں۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس کے بارے میں نواز شریف اور ان کے ہمدرد اور ہمنوا پہلے سے بولتے آئے ہیں مگر گلگت بلتستان کے سابق چیف کے بارے میں کہ وہ کون تھا، کہاں سے آیا اور کیا کرتا رہا، اس بارے میں پاکستان کے کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان کے لوگوں کے لئے گلگت بلتستان کی سیاحت کے علاوہ کچھ زیادہ اہمیت نہیں۔
رانا شمیم صاحب گلگت بلتستان کی عدلیہ کے سب سے بڑے جج یعنی قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ ان کو گلگت بلتستان میں وہ اختیارات حاصل رہے ہیں جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاکستان میں ہوتے ہیں۔ تنخواہ، مراعات بشمول پنشن کے علاوہ بلاشرکت غیرے ایسے قانونی اور انتظامی اختیارات بھی ان کے پاس رہے ہیں جن پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔
رانا شمیم صاحب کا بیٹا جو اس مقدمے میں ان کا وکیل بھی ہے ان کے بیان کے مطابق وہ جب گلگت بلتستان کی عدلیہ کے چیف جج بنے تو ملک کے حکمران خاندان کے ساتھ ان کی وفاداری ہی ان کا بطور منصف اعلیٰ تعیناتی کا معیار رہا تھا۔ صاحبزادے نے تو اپنے پنجابی راجپوت باپ کی سندھ میں بطور ایڈوکیٹ جنرل تعیناتی کو بھی فاتحانہ انداز میں بیان کیا جس سے لگتا ہے ان کے نزدیک سرکاری عہدوں کے لئے مقابلے کے امتحانات اور تعلیمی قابلیت وغیرہ برہمنوں اور کھشریوں کے لئے نہیں صرف ہمارے جیسے کمی کمینوں پر ہی لازم ہے۔
گلگت بلتستان میں رانا شمیم کی اپنی بطور منصف اعلیٰ تعیناتی کے دوران حق اور انصاف کا کتنا بول بالا رہا اس بارے میں تو وہاں کے لوگ خاص طور پر ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر جج اور وکیل ہی بہتر بتا سکتے ہیں مگر ہم صرف اتنا ہی کچھ جانتے ہیں جو اس دوران اخباروں میں چھپا یا سوشل میڈیا پر آیا۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ رانا شمیم صاحب گلگت بلتستان میں بطور منصف اعلیٰ اپنی تعیناتی کے دوران قانونی امور سے زیادہ انتظامی معاملات میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انھیں ملازمتیں دینے کے علاوہ تعمیرات کا بھی شوق تھا۔ ان سے منسوب دیگر خریداریوں کے علاوہ سکردو میں ان کا بنایا ایک ریسٹ ہاؤس بھی کافی مشہور ہے۔
گلگت بلتستان کے چیف جج بننے کے لئے شرائط میں سے ایک اہلیت کے لئے پاکستان کے سپریم کورٹ کے جج بننے کی صلاحیت یعنی امیدوار کا کسی ہائی کورٹ کا جج ہونا قرار پایا ہے۔ بتایا گیا تھا کہ رانا شمیم صاحب سندھ ہائی کورٹ کے جج رہے تھے جس کی بنیاد پر وہ گلگت بلتستان کے چیف جج بننے کے اہل قرار پائے۔ اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ رانا صاحب مس کنڈکٹ کی وجہ سے نہ صرف سندھ ہائی کورٹ کا مستقل جج نہ بن پائے تھے بلکہ ان پر اپنے نام کے ساتھ سابق جج لکھنے پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی (بحوالہ انور منصور سابق اٹارنی جنرل پاکستان) ۔ مگراس واحد تجربہ اور اہلیت کی بنیاد پر وہ تین سال تک گلگت بلتستان کے منصف اعلیٰ یا قاضی القضاۃ مقرر ہوئے اور لوگوں کی قسمت کے فیصلے کرتے رہے، اب نہ صرف وہ اپنے نام کے ساتھ سابق چیف جج لکھ سکتے ہیں بلکہ زندگی بھر ماہانہ لاکھوں میں پنشن، گاڑی، نوکر چاکر اور صحت سمیت کئی مراعات سے مستفید ہوں گے۔
ایک منصف اعلیٰ کا دوسرے پر لگائے الزام کی صداقت یا جھوٹ میں سے ایک ثابت ہو جائے گا۔ اگر رانا شمیم صاحب کا پاکستان کے سابق چیف جج پر الزام سچ ثابت ہوتا ہے تو اس کے نتائج تو سب ہی کو معلوم ہیں۔ مگر کیا رانا شمیم صاحب اپنے لگائے الزام کو ثابت نہ کرسکے تو ایسے شخص کی تین سالوں تک گلگت بلتستان میں بطور چیف جج دیے فیصلوں کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کیا ہوگی۔ گلگت بلتستان کے عوام اس کیس کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں کہ آیا حکومت پاکستان کا تفویض کردہ ان کا سابق منصف اعلیٰ اس مقدمے میں سرخرو ہوتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ سچے ثابت ہوئے تو گلگت بلتستان کے لوگوں کے لئے بھی باعث افتخار ہو گا مگر ایسا نہ ہوسکا تو بہت سارے سوالات جنم لیں گے جس کا جواب حکومت کو نہیں ریاست کو دینا ہو گا کیونکہ یہ ریاست کے ایک اہم ستون کا سوال ہے۔