Baam-e-Jahan

لینڈ ریفارمز ایکٹ اور گلگت بلتستان

قلعہ بلتت

انجینئر منظور پروانہ

(چئیرمین گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ)


گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں حکمران جماعت کے ممبران جاوید منوا اور سید سہیل عباس نے اپوزیشن لیڈر امجد ایڈووکیٹ کی طرف سے نو توڑ رولز کو ختم کرنے کی قرار داد کو مسترد کر کے گلگت بلتستان کی عوام کو مشتعل کر دیا ہے۔ حکمران جماعت کے ان دو نو زائیدہ سیاست دانوں نے اس قرارداد کی مخالفت کر کے عوامی غیض و غضب کو دعوت دی ہے۔ امجد ایڈووکیٹ کی قرار داد میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ نوتوڑ رولز کو ختم کیا جائے تاکہ عوامی زمینوں کو خالصہ سرکار قرار دے کر بندر بانٹ سے روکا جا سکے، یہ قرارداد گلگت بلتستان کے عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہے، جبکہ حکمران جماعت کے رہنما عوامی ملکیتی زمینوں میں حکومت کے لئے حصہ چاہتے ہیں تاکہ گلگت بلتستان میں غیر مقامیوں کو بسانے کے لئے محفوظ راستہ دیا جائے، اس مقصد کے لئے پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن کی نا مکمل ایجنڈا کی تکمیل کرتے ہوئے گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارمز ایکٹ لانا چاہتی ہے جبکہ گلگت بلتستان کی عوام لینڈ ریفارم ایکٹ کو عوام دشمن اور عوام کی ملکیتی زمینوں پر قبضہ کرنے کی حکومتی چال سمجھتی ہے۔
ایک طرف حکومت پاکستان نے بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر میں سپیشل سٹیٹس کو ختم کرنے کے لئے بھارت کی طرف سے کی گئی اقدامات پر سخت ناپسندیگی کا اظہار کیا ہے اور شد و مد کے ساتھ بیان دے رہی ہے کہ بھارت جموں و کشمیر کی ڈیمو گرافی تبدیل کر رہی ہے اور وہاں غیر مقامیوں کو بسانے کی سازش کر رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف حکومت پاکستان گلگت بلتستان میں جموں و کشمیر میں کی جانے والی بھارتی اقدامات کو دوہرا رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے گلگت بلتستان اسمبلی کو استعمال کرنا چاہتی ہے تاکہ اس اسمبلی کے ذریعے لینڈ ریفارمز ایکٹ لا کر قانون باشندگان ریاست کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کیا جائے۔ قانون باشندگان ریاست جسے عام زبان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کہا جاتا ہے اس وقت تک نافذ العمل رہے گی جب تک متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حق خود ارایت کے ذریعے کوئی حل نہیں نکلا آتا۔ تنازعہ کشمیر کے حل تک سٹیٹ سبجیکٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ جب تک ریاست جموں و کشمیر کی سب سے اہم اکائی گلگت بلتستان کی مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوتا اس خطے کی ڈیمو گرافی کو تبدیل کرنے کی کوشش تنازعہ کشمیر پر ریاست پاکستان کی موقف کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔
سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے مطابق گلگت بلتستان کی تمام بنجر اراضی، جنگلات و معدنیات و چرا گاہیں عوام کی ملکیت ہے جسے ریاست نے یہاں کے عوام کے درمیان حد بندی کر کے ان تمام زمینوں کی عوام کو مالکانہ حقوق دئیے ہیں،گھاس چرائی کا معاوضہ بھی ریاست ہر علاقے کے عوام سے مالیہ کی صورت میں وصول کر چکی ہے، اور سرکاری کاغذات میں اندراج بھی ہوئی ہیں، اراضی کی درجہ بندی کر کے لوگوں میں تقسیم کی جا چکی ہے اور ریکارڈ مال میں درج کئے گئے ہیں۔ زمینوں کی اس درجہ بندی میں پہلے نمبر پر نفوس کے زیر قبضہ اراضی ہے جو ان کی ذاتی ملکیتی زمین ہے جو انہیں وراثت میں ملی ہیں یا کسی لین دین کے نتیجے میں۔، دوسرا اندرونی لین اراضی(آباد یا غیر آباد) ہے جو کہ شاملات کہلاتے ہیں یہ اراضی ملکیتی زمین سے ملحقہ فرد یا افراد کی ملکیت ہے، تیسرا بیرون لین شاملات(غیر آباد بنجریا چراگاہ محلہ) ہیں جس پر گاؤں کے تمام لوگوں کا برابر کاحق ہے چوتھی قسم چراہاہیں،جنگلات اور پہاڑہے جو کہ علاقے کے مواضعات میں منقسم ہیں اور حدود تعین کئے گئے ہیں اور کاغذات مال میں عملدرآمد ہے۔ ریاست کی اس زمینی منصوبہ بندی کو "نظام بندوبست” کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جوکہ 1907 ء میں ہو چکی ہے بندوبست کا مطلب بھی یہ ہے کہ ریاست زمینوں کی درجہ بندی کا باب مکمل کر چکی ہے جس میں مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں، محکمہ مال زمینوں کا مالک نہیں بلکہ نگہبان ہے۔ بندوبست میں کسی بھی قسم کی تبدیلی اور ریفارم کا کسی شخص یا ادارے کو اختیار حاصل نہیں ہے۔
گلگت بلتستان کی اس مضبوط اور منظم نظام بندوبست کو سابقہ اور موجودہ حکومت لینڈ ریفامز ایکٹ لا کر تبدیل کرنے کی کوشش میں ہے، اگر نظام بندوبست کو چھیڑا گیا تو گلگت بلتستان میں زمینوں کی تقسیم کا نظام در ہم بر ہم ہوگا۔ملکیتی شاملات، شاملات دیہہ اور چراگاہ سب سرکاری زمین کہلا ئے گی۔زمین پر تنازعہ گلی محلے سے شروع ہوگی۔ چراگا ہ اور پہاڑی علاقے معدنیات کی وجہ سے سرکار کی ملکیت قرار پائے گی،تمام بنجر اور داس حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔ جن چراگاہیں اور جنگلات میں معدنیات پائے جاتے ہیں وہ علاقے غیر مقامی لوگوں کے نام لیزکرنے کا حکومت کوجواز مل جائے گی۔ اگر سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو ختم کر کے نیا لینڈ ریفامز ایکٹ لائی گئی تو گلگت بلتستان کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، ریاستی باشندے ایک ایک انچ زمین کو ترسے گی اور غیر ریاستی باشندے گلگت بلتستان کی زمینوں کے مالک بن جائیں گے۔ عوام کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے کا فارمولا بھی انتہائی آسان بنایا جائے گا، عوامی ملکیتی اراضی سرکاری ادارے اور با اثر شخصیات کے نام انتقال ہوگا ، با اثر لوگ انتقال کو لے کر زمین پر قابض ہونگے۔عدالتیں انتقال اور الاٹمنٹ کے مطابق فیصلے دیں گی۔
مجھے لینڈ ریفامز ایکٹ پر عوامی تحفظات اور شعور کو دیکھ کر انتہائی خوشی ہو رہی ہے کیونکہ گلگت بلتستان کی زمینوں کو آنے والی نسلوں کے لئے بچانے کے لئے ہر فرد کو کمر بستہ ہونے کی ضرورت ہے۔ امجد ایڈووکیٹ کی قرارداد کو لینڈ ریفامز کمیٹی کو بھیجنے کے پیچھے سیاسی عزائم کا پوشیدہ ہونا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے ہوتے ہوئے اس پر عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے نیا لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل اور لینڈریفامز ایکٹ لانے کی باتیں ایک مخصوص ایجنڈے کا حصہ ہے۔ لینڈ ریفارم کمیٹی مسلم لیگ ن کی حکومت میں بنائی گئی تھی لیکن عوامی مزاحمت کے پیش نظر یہ کمیٹی اپنی تجاویز منظر عام پر نہیں لا سکی اور آج تک موجودہ کمیٹی بھی اپنی سفارشات کو پبلک کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ لینڈ ریفارم ایکٹ کے ذریعے 30% اراضی حکومتی تحویل میں لینے کی بات منظر عام پر آنے کے بعد سے عوام سیخ پا ہے۔
اس لینڈز ریفامز ایکٹ کے خط و خال میری عقل و فہم اور تجزیے کے مطابق کچھ اس طرح کی ہی ہو سکتے ہیں۔
۔اس ایکٹ کے تحت خالصہ سرکار کی اصطلاح کو ڈوگروں سے منسوب کر کے ختم کی جا سکتی ہے، اس کی جگہ گورنمنٹ لینڈز یا پاک سرکار کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ عوام کو تاثر دی جا سکے کہ ہم نے ڈوگروں کی خالصہ سرکار کو ختم کیا ہے۔
۔ گلگت بلتستان کی اہمیت کے حامل بنجر زمینوں کو سرکاری ملکیت قرار دے کر سرکار کی تحویل میں لی جا سکتی ہے۔ تاکہ عسکری و انتظامی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
۔معدنیات اور قیمتی پتھر والی جگہوں کو قانون کے مطابق مائنگ اینڈسٹریل ڈپارٹمنٹ کی ملکیت قرار دی جا سکتی ہے، اور ان مقامات کو غیر ملکی کمپنیوں کو لیز پر دینے کے لئے راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
۔بے گھر لوگوں کے لئے منصوبہ کے نام پر بھی ہزاروں ایکڑز زمین مختص کی جائے گی ان زمینوں کا بھی مالک حکومت ہوگی۔
۔گلگت بلتستان میں انڈسٹری لگانے کے لئے بھی عوامی ملکیت کی ہزراوں ایکڑ زمین کو حکومتی ملکیت میں منتقل کی جا سکتی ہے۔
۔جن علاقوں میں لوگوں کا زمینوں پر اجتماعی تنازعہ چل رہا ہے ان کو بحق سرکار قرق کرنے کا شق بھی ایکٹ میں شامل ہوسکتاہے۔
۔شاہراہ قراقرم سمیت گلگت بلتستان کی تمام شاہراہوں سے متصل بنجر زمینوں کو سرکاری اداروں اور کاروباری مقاصد کے لئے حکومتی تحویل میں لیا جا سکتا ہے جس سے لوگوں کی شاملات اور شاملات دیہہ اراضی بھی حکومت کی ہو جائے گی۔
۔ہزاروں ایکڑ عوامی ملکیتی زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تجارتی و کاروباری مقاصد کے لئے دی جا سکتی ہے جیسے حال ہی میں کئی ایکڑز زمین این ایل سی کو چھلمس داس اور مناور میں الاٹ کئے گئے ہیں اور زمینی تنازعہ عدالت میں ہے۔
۔گلگت بلتستان میں ڈیفنس ہاؤ سنگ سوسائیٹز، کارپوریٹ ہوٹلز، سیاحتی سینٹرز اور دیگر مقصد کے لئے بھی ہزاروں اراضی کی ضرورت ہے، ان ضروریا ت کو پورا کرنے کے لئے بھی لینڈ ریفامز کی آڑ میں عوامی ملکیتی ارضی کو ہتھیا لی جائے گی۔
۔ حال ہی میں ڈپٹی کمشنر سکردو کی طرف سے زمینوں کی لین دین پر پابندی اور اسسٹنٹ کمشنر کھرمنگ کی طرف سے دریا کنارے سے استعمال کے لئے ریت اٹھانے پر پابندی کی نوٹیفیکیشن آچکی ہے، ایسے اقدامات کو ایکٹ کے ذریعے قانونی بنانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
۔ نیشنل پارک بنانے کے لئے لی گئی عوامی ملکیتی زمینوں کو اس ایکٹ کے تحت قانونی تحفظ دے کر محکمہ جنگلات کے حوالے کی جا سکتی ہے۔
دریا، پہاڑ، جنگل، لینڈ ریفارمز ایکٹ کے ذریعے خالصہ سرکاری قرار پانے کے بعد سوچنے سے بہتر ہے کہ عوام پہلے ہی کچھ سوچے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں