فرہاد یوسفی
المیہ یہ نہیں کہ ہمارا معاشرہ تیز رفتار علم و ترقی کا ساتھ نہیں دے پا رہا یا اپنی مجبوریوں اور نارسائیوں کی وجہ سے حصول علم و حکمت سے محروم رہ گیا ہے بلکہ افسوسناک اور المناک پہلو یہ ہے کہ معاشرہ علم و سائنس اور مستقبل کی ترقی پر یقین کو جہالت اور اپنی بے علمی، بے خبری اور جہالت کو باعث افتخار اور زریعہ نجات سمجھنے لگا ہے۔
کسی بھی محفل میں آپ جتنی بھی کوشش کریں لوگوں کی گفتگو کو علم و سائنس یا مادہ، کہکشاؤں، بلیک ہولز یا جینیٹک انجینئرنگ وغیرہ کی طرف نہیں موڑ سکتے۔ کسی بھی محفل میں قابلِ قدر و منزلت وہی ہے جو سب سے زیادہ جہالت بگھارے، توہمات پر پختہ عقیدہ رکھے، لوگوں کو قصے کہانیوں کے زریعے بہلائے اور علم و سائنس اور دانشوری کی مخالفت میں ذہنی پسماندگی اور معذوری کے فیوض و برکات بیان کرے۔
علم و حکمت کا اگر کہیں ذکر ہوتا بھی ہے تو صرف اتنا کہ ہمارا ماضی بہت درخشاں تھا, ہم نے بہت ترقی کی تھی ہمارے پاس بہت علم تھا اور ساری دنیا کو تہذیب ہم نے سکھائی اور آخر میں یہ ہوا کہ ہماری بے عملیوں کی وجہ سے علم ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ کر غیروں کے ہاتھوں میں چلا گیا اور نتیجتاً ہم محروم اور پسماندہ رہ گئے۔
یہاں تک بیان کرتے ہوئے ہم ان سب کو عالم اور علوم کا درجہ بھی دیتے ہیں مگر اگلے ہی لمحے دوسروں کے ہاتھوں میں جانے والے علم کو کمتر اور بے توقیر کہہ کر پھر اپنے عقائد کو ان علوم پر ترجیح دیتے ہیں اور علم و سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذکر سے گریز کرتے ہوئے کان لپیٹ کر نکل جانے کو بہتر اور نجات کا راستہ سمجھتے ہیں۔
محرومی کی انتہا ہے کہ معاشرے میں ایسا کوئی انٹیلیکچوئل طبقہ نہیں جن کے ساتھ آپ تبادلہ خیال کرسکیں اور کسی نظریے کسی فلسفے یا کائناتی قوانین پر کوئی ڈیبیٹ کر سکیں۔
سب سے زیادہ خطرناک، المناک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ معاشرے سے علم و حکمت، سوچ اور فکر کے فقدان کے ساتھ ساتھ برداشت، رواداری اور تحمل کا مادہ بھی ختم ہوگیا ہے اور ایسے میں جنون، دنگا فساد، بدنظمی اور ہلڑ بازی کو عین کارثواب اور یہاں تک کہ بنامِ مذہب بیغیر کسی تحقیق و ثبوت قتل کو تحفظ دینا کار نجات اور مذہبی فریضہ ٹھہرایا گیا ہے۔
کسی محفل میں علم و حکمت اور سائنس و ٹیکنالوجی کا ذکر کرتے ہوئے لگتا ہے کہ سب لوگ دل ہی دل میں آپ کا مذاق اڑا رہے ہیں، نظریہ ارتقا تو ہے ہی عقیدہ کفر مگر فزکس اور بیالوجی کے ابتدائی علوم کا ذکر کرنا بھی کسی نامعلوم سیارے کے بارے میں بات کرنے کے مترادف محسوس ہوتا ہے۔ اب تک جینیٹک انجنئرنگ، ٹرانس جین اور یا ٹرانس ہیومین جیسے علوم کے بارے میں اول تو کسی کو پتہ ہی نہیں اور اگر کوئی سمجھانے کی کوشش کرے تو پہلے ہی ہلے میں ایسی باتوں کو کفریہ، گمراہ کن اور اسلام کے خلاف قرار دے کر قرآن پاک سے درجنوں آیتوں کو اس کے رد میں پیش کرکے کٹر مسلمانی کا ثبوت فراہم کیا جاتا ہے۔
ان کے خیال میں ایسی باتیں ایک ابنارمل، گمراہ اور کھسکے ہوئے انسان ہی بول سکتا ہے اور ایسی باتیں کہنا اللہ تعالی کی خدائی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ ان خواب خرگوش میں مبتلہ بے خبر جنونیوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اب پوری دنیا اور تمام مذاہب مل کر انسان کو دردوں، غموں اور موت سے نجات دلانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں اور رواں صدی ٹرانس جینک اور ٹرانس ہیومینز انسانوں کی صدی ہے جس کی ابتدا ہوچکی ہے۔