ویب ڈیسک
سیالکوٹ میں مبینہ طور پر توہین مذہب کے نام پر سری لنکن منیجر کے بہیمانہ قتل کی عوامی ورکرز پارٹی اور دیگر سیاسی اور سماجی رہنماوؤں نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
پارٹی رہنماوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملزوں کو فورا گرفتار کریں اور سیاسی پارٹیوں کو پابند کریں کہ وہ اپنے سیاسی پوسٹروں اور بینرز پر مذہبی شخصیات اور آیات کو استعمال نہ کریں۔
اے ڈبلیو پی کے صدر یوسف مستی خان، جنرل سیکرٹری اختر حسین اور تمام قومی صدور اور فیڈرل کمیٹی کے اراکین نے اس واقعے کو ایک وحشیانہ فعل اور پاکستان کے لیے شرمناک لمحہ قرار دیا۔
انہوں نے اسے مذہبی جنونیت کی خوشنودی کی پالیسی کا نتیجہ قرار دیا۔
ایک بیان میں ان رہنماؤں نے حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے قومی سلامتی دفاعی پالیسی کے نام پر مذہبی انتہا پسند گروپوں کی سرپرستی پر سخت تنقید کی۔
ان رہنماوں نے کمارا کے خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔
یوسف مستی خان نے کہا، ریاست اور مرکزی دھارے کی جماعتوں کی طرف سے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اسلام اور کہ مذہبی جھتوں کو مسلح کرنے اور ان کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا براہ راست نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت اس واقعہ سے واضح ہوتا ہے جب اس شخص نے مبینہ طور پر ایک فاشسٹ مذہبی پارٹی کے پوسٹر کو اتارنے کی کوشیش کیں تو انتہا پسندوں نے رد عمل میں اس بھیانک جرم کا ارتکاب کیا اور مذکورہ پارٹی کے نعرے لگا رہاے تھے۔
اختر حسین نے کہا کہ اسی پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ نے پچھلی حکومت کو ہٹانے اور اپنی پسند کے دوغلی حکمرانوں کو اقتدار پر قابض کرنے کے لیے مضبوط بنایا اور استعمال کیا اور حال ہی میں اس کے ساتھ ایک متنازعہ معاہدہ کرانے میں ضامن کے طور پر کردار ادا کیا تاکہ ان کے پرتشدد مارچ کو ختم کیا جا سکے جس میں آٹھ پولیس اہلکاروں کی جانیں گئیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عصمت شاہجہان نے کہا کہ پاکستان کو کئی دہائیوں سے ریاست کی کوتاہ اندیشی اور غلط پالیسی کی وجہ سے مذہب اور عسکریت پسند تنظیموں کو اپنی طاقت اور خطے میں سامراجی جنگی ایجنڈے کا حصہ بنانے کے لیے استعمال کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب تک ان غلطیوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور مذہبی جنونیوں کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنا ترک نہیں کیا جاتا، ملک کے سماجی اور جمہوری اقدار اور اداروں کی تباہی بلا روک ٹوک جاری رہے گی۔
ڈاکٹر فرزانہ باری، رکن فیڈرل کمیٹی، نے نشاندہی کی کہ ریاست کی عوام دشمن معاشی پالیسیوں کی وجہ سے بڑھتی ہوئی سماجی ناہمواری اور بائیں بازو کی تنظیموں، ٹریڈ یونینوں اور طلبہ یونینوں کی تباہی نے بھی مذہبی جماعتوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ تشدد کے لیے مذہبی جذبات کو ابھارے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فاشسٹ سیاست ہمیشہ بائیں بازو اور کارکنوں کی سیاست کی تباہی کے نتیجے میں پروان چڑھتی ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کے سابق صدر ڈاکٹر عاصم سجاد اختر نے کہا کہ سیالکوٹ میں عقیدے کے دفاع کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں ایک اور معصوم جان کی بازی ہار گیا۔
انہوں نے کہا سب سے خوفناک پہلو اس سانحہ کا یہ ہے کہ بہت سے نوجوان ہجوم کا حصہ تھے اور سیلفی لے رہے تھے۔
ا نہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو نوجوانوں، اور محنت کشوں کے ذہین کو اس قسم کی سفاکیت کا ذہین بنانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جو تقریباً روزمرہ کی بنیاد پر ناقابل بیان تشدد کا سہارا لیتے ہیں۔انہوں نے ان لوگوں کی بے حسی پر بھی افسوس کیا جو کود تو پرتشدد کام میں شامل نہیں ہوتے لیکن خاموش تماشای بنتے رہتے ہیں ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے نظریہ دان آج بھی مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ ان کے پاس اس ملک کے لیے آگ بھڑکانے کے علاوہ کوئی وژن نہیں ہے تاکہ وہ اپنی طاقت کو برقرار رکھ سکیں، ان کا خیال ہے کہ وہ جب چاہیں ان آگ پر قابو پالیں گے۔ لیکن ایک آئیگا جب وہ بھی اسی آگ میں جھلس جائیں گےجو انہوں نے ببھڑکائی ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس واقعہ میں ملوث قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کرتیں۔
اے ڈبلیو پی کے رہنماؤں نے کہا کہ پاکستان میں دیرپا تبدیلی صرف نظام حکمرانی ، تعلیم اور سرمایہ دارانہ معیشت میں وسیع سماجی، اقتصادی اور ثقافتی تبدیلی سے ہی ممکن ہوگی۔
اس کے علاوہ دیگر شخصیات اور اداروں نے بھی اس اندوہناک واقعے کی مذمت کی جن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ایچ آر سی پی شامل ہیں۔معروف سماجی رہنما جبران ناصر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر سوال اٹھایا کہ جب تک انتہا پسند عناصر کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوگی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تادیبی کاروائی کیوں کریں گے۔ عمار علی جان کا کہنا تھا کہ ہمیں ہجوم کو اپنی مرضی معاشرے پر غالب کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔