Baam-e-Jahan

پاکستان کے 75 سالہ قومی ادبی تشخص کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔ چئیرمین اکادمی ادبیات

academy of letters

ویب ڈیسک


پاکستان کے 75سالہ قومی ادبی تشخص کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے عظیم تخلیق کاروں نے شاندار ادب تخلیق کیا ہے جس میں نہ صرف پورے پاکستان کا عکس نظر آتا ہے بلکہ سماج کی بھر پور طریقے سے ترجمانی بھی ہوئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر یوسف خشک، چیئرمین اکادمی نے اکادمی ادبیات پاکستان اور نمل یونیورسٹی کے اشتراک سے ”پاکستانی زبانوں کی لسانی و ادبی تحقیق کے 75سال“ کے موضوع پر منعقدہ آن لائن دوروزہ قومی کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں ابتدائی کلمات ادا کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد سفیر اعوان،پروریکٹر اکیڈمکس، نمل یونیورسٹی مہمان اعزا زتھے۔ پروفیسر ڈاکٹر مجاہدہ بٹ، عبد الرﺅف، پروفیسر ڈاکٹر سعید خاور بھٹہ نے پنجابی زبان اور قمر زمان نے ہندکو زبان کے حوالے سے مقالات پیش کیے۔ ڈاکٹر صوفیہ لودھی نے اختتامی کلمات پیش کےے۔ نظامت عبد الرﺅف نے کی۔ ڈاکٹر یوسف خشک نے کہاکہ ہمارے ان ادبی اکابرین کی ادبی خدمات کو نئی نسل سے متعارف کرانے کی ضرورت ہے اسی طرح پاکستان بھر میں بولی جانے والی زبانوں کے ادب کو قومی دھارے میں لا کر تراجم کے ذریعے عالمی سطح پر روشناس کرانا ہے اس سلسلے میں اکادمی قومی ادبی تاریخ مرتب کر رہی ہے اور اسے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیجیٹلائز کرے گی۔

انہوں نے کہاکہ نمل کے شعبہ پاکستانی زبانیں اور اکادمی کے اشتراک سے پاکستانی زبانوں کی ادبی و لسانی تحقیق کا کام ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ڈاکٹر محمد سفیر اعوان،پروریکٹر اکیڈمکس، نمل یونیورسٹی نے کہا کہ زبانوں کے فروغ اور ترقی و ترویج کے حوالے سے نمل یونیورسٹی اور اکادمی ادبیات پاکستان کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کی وابستگی سے انکار ممکن نہیں ۔ زبان و ادب اور کلچر کا معیشت سے گہر ا تعلق ہے۔ ترقی یافتہ ممالک مضبوط کلچر کی وجہ سے دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ہمیں پاکستانی زبانوں کے ادب کو بین الاقوامی سطح پر لانا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ انتہا پسندی اور لاقانونیت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پاکستانی زبان و ادب اور کلچر کو فروغ دیں تب ہی ہم دنیا میں ایک باوقار ملک بن سکتے ہیں۔ڈاکٹر صوفیہ لودھی نے کہا کہ پاکستان کے خطوں میں مختلف زبانیں اور کلچر موجود ہیں اور ہرزبان کا ادب نہایت زرخیز ہے۔ ہمیں ان تمام زبانوں کے ادب کی ہمہ گیریت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے اجتماعی طاقت سمجھنا چاہےے۔ ان زبانوں کے ادب کو منظر عام پر لانا چاہےے۔ ڈاکٹر صوفیہ لودھی نے کہا کہ ہمیں بچوں کو مادری زبان کی طرف راغب کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر حبیب نوازخان، صدر شعبہ پاکستانی زبانیں، نمل یونیورسٹی نے کہا کہ آج کے دوروزہ سیمینار میں 9 پاکستانی زبانوں کے ادب کے حوالے سے ہمارے محققین مقالے پڑھیں گے۔انہوں نے تمام شرکاءکو خوش آمدید کہا۔ پروفیسر ڈاکٹر سعید خاور بھٹا نے اپنے کلیدی خطبے میں کہاکہ زبانیں صرف اظہار کا ذریعہ نہیں ہوتیں بلکہ خطے میں رہنے والے لوگوں کے جینے ، مرنے ، سوچنے کے انداز، خواہشات اور نئے تجربات کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ تمام زبانیں اس دھرتی کا ورثہ ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ڈا کٹر مجاہد ہ بٹ نے پنجابی زبان و ادب کا مختلف ادوار میں تفصیلی جائز ہ پیش کیااور اس بات پر زور دیا کہ علاقائی زبانوں میں مطالعہ کی تلاش سے ہم اس کی آواز بین الاقوامی سطح پر پہنچا سکیں گے۔ اس کے لیے ہمیں طریقہ ہائے تحقیق یا ریسرچ آف میتھاڈالوجی کو اپنایا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کالج فار ویمن نے پراجیکٹ ایچ ای سی کے تحت 7ہزار الفاظ کا ٹرائل لینگوئج ڈکشنری ترتیب دی جس میں پنجابی قصہ جات سے الفاظ اردو ، انگریزی اور پنجا بی میں پیش کے گئے ہیں۔ قمر زمان نے کہا کہ ہندکو زبان، کشمیر، اٹک، کوہاٹ اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بولی جاتی ہے۔ ہندکو شاعری میں چاربیتہ ، حرفی اور ماہیے کی زیادہ اہمیت ہے اور اس پر تحقیقی کام بھی ہوا ہے ۔ حیدر زمان، سکندر شاہ ، نظام دین اور سائیں احمد علی کا ہندکوزبان کے فروغ کے حوالے سے کلیدی کردار رہا ہے ۔ سلطان سکون نے ہندکو لغت مرتب کی۔ گندھار ا ادبی بورڈ کا ہندکو کے فروغ اور ترویج کے حوالے سے مثالی کرداررہا ہے۔ غلام دین ، ظہور احمد اعوان، مختار نیر ، بشیر سوز، سید ماجد شاہ اور خاطر غزنوی کی ہندکو زبان و ادب کے حوالے سے خدمات قابل تحسین ہیں۔ عبد الرﺅف نے کہاکہ ناول سے پہلے قصے کہانیوں کا رواج تھا۔ قیام پاکستان کے بعد تمام موضوعات پر کھل کر ناول لکھے گئے۔ جسونت کنول ، راجندر پال، امرتا پریتم، سرجیت سنگھ سیٹھی نے اپنے اپنے اسلوب اور مختلف موضوعات پر ناول لکھے۔ آخر میں ڈاکٹر حبیب نوازخان، صدر شعبہ پاکستانی زبانیں، نمل یونیورسٹی نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں