عزیز علی داد
گلگت کی ایک وادی کا لطیفہ مشہور ہے۔ ہوا یوں کہ رات کو چاند کی روشنی میں گاوں کے مرکزی راستےپر ایک بندہ کوئی چیز ڈھونڈ رہا تھا۔ ایک راہگیر نے دیکھا تو پوچھا کیا ڈھونڈ رہے ہوں۔ وہ بندہ بولا گھر میں سوئی گم گئی ہے اس کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ راہگیر نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا "سوئی گھر میں گم گئی ہے تو یہاں راستے میں کیوں ڈھونڈ رہے ہو؟” وہ بندہ غصے میں بولا "تم میں عقل نہیں ہے اس لیے یہ سوال کررہے ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ گھر میں روشنی نہیں ہے ،جبکہ باہر روشنی ہے۔ اس لیے یہاں ڈھونڈ رہا ہوں۔
گلگت بلتستان والو اب میں جو سوال کرنے جارہا ہوں اس پر مجھے بھی بے وقوف کہا جائیگا۔ سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے متعلق ایک بیان کے بعد ایک جنگ چھڑ گئی ہے۔ اب سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اورسپریم اپیلٹ کورٹ کے چیف جج ایک دوسرے کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں۔ سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار سے اس کی جو گفتگو جو ہوئی تھی وہ گلگت بلتستان میں ہوئی تھی جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے ماتحت نہیں ہے۔ اس کہ یہ معنی یہ ہوئے کہ اگر آپ نے قانون سے بچنا ہے تو آپ سچا یا جھوٹا بیان دینے یا جھوٹی بات چیت کے ٹور پر اصلی ٹورسٹ بن کر یہاں آئیں اور جھوٹی گفتگو کریں یابیان داغ دیں۔ اس طرح آپ قانون سے بھی بچیں گے اور معزز و معتبر بھی ٹھریں گے۔
یوں لگتا ہے گلگت بلتستان اب پاکستانی جھوٹ کا گودام بنتا جارہا ہے۔ ویسے بھی نیٹکو کی ٹرانسپورٹ کمپنی خسارے میں جارہی ہے اور سبسڈی گندم کے کوٹے کی کمی کی وجہ سے گودام خالی پڑے ہیں۔ لہذا مشورہ یہ ہے کہ جنوب سے ٹرکوں میں جھوٹ لوڈ کرکے گلگت بلتستان لایا جائے اور خالی گوداموں میں رکھ کر کرایہ چارج کیا جائے۔ اس طرح سے آمدنی کا ایک ذریعہ بھی پیدا ہوگا اور پاکستان کا جھوٹ بھی کم ہوگا۔
مگر اس کا ایک معاشرتی نقصان ہوگا۔ وہ یہ کے جھوٹ چونکہ چوہوں کو پسند نہیں ہے۔ اس لیے وہ جھوٹ کو منہ بھی نہیں لگائیں گے۔ چونکہ گلگت بلتستان کے لوگ پچھلے کچھ دھائیوں سے سبسڈی کی گندم اور سیاسی و انتظامی جھوٹ کھانے کے عادی ہوچکے ہیں، اس لیے وہ گوداموں سے گندم کی طرح جھوٹ کو بھی کھا لینگے۔ زیادہ سے زیادہ اعتراض یہ ہوگا کہ جھوٹ معیاری نہیں ہے۔ اس شکایت کے ازالے کے لیے ایک آرڈر جاری کیا جائیگا اور پھر یہاں کے لوگ ایک عشرہ جھوٹی عشرت میں گزرینگے۔ ان سب چیزوں کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ گلگت بلتستان جھوٹ کا ایک گودام ہے اور یہاں کہ لوگ وہ چوہے ہیں جو اس گودام سے تھوڑا جھوٹ لے کر عیش، عشرت اور طاقت کی جھوٹی زندگی گزار رہے ہیں۔ استاد غلام عباس نسیم کا شینا میں ایک شعر ہے
نی کم سریٹیئے کولے
کھے جگے بلن تھولے۔
اس شعر کو تبدیل یہ کہا جا سکتا ہے
نی کم سر یٹیئے کولے
کھے بیگن لائی چوٹیلے۔