اردو ترجمہ ساجد علی
سقراط کا یہ بصیرت افروز قول سقراط کے اپنے زمانے کی بہ نسبت موجودہ زمانے کے زیادہ مناسب حال ہے کہ ” میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا اور اتنی سی بات کا عرفان بھی بہت مشکل سے ہوا ہے۔ “ ہمارے پاس بہت عمدہ جواز موجود ہے کہ ہم اس بصیرت افروز قول سے رواداری کے دفاع میں وہ اخلاقی نتائج اخذ کریں جو اراسمس، مونتیں، والٹیئر اور بعد ازاں لیسنگ نے مستنبط کیے تھے۔ لیکن اس قول کے دیگر مضمرات بھی ہیں۔
ہرعقلی مباحثے کی بنیاد بالخصوص وہ مباحث جن کا مقصد صداقت کی تلاش ہو جن اصولوں پر استوار ہوتی ہے وہ اصلاً اخلاقی اصول ہیں۔ میں ایسے تین اصول بیان کرنا پسند کروں گا
۔ خطاواری کا اصول: ممکن ہے کہ میں غلطی پر ہوں، شاید آپ صحیح ہوں۔ اس بات کا بھی امکا ن ہے کہ ہم دونوں ہی غلط ہوں۔
۔ عقلی مباحثہ کا اصول: ہم ممکنہ حد تک غیر جانبداری سے کسی نظریہ کی حمایت یا مخالفت میں پیش کیے جانے والے دلائل کا موازنہ کرنے کی سعی کریں گے: زیر بحث نظریے کومتعین اور قابل تنقید ہونا چاہیے۔
۔ صداقت سے قربت کا اصول: کسی بھی بحث کے دوران میں اگر ذاتی حملوں سے اجتناب کیا جائے تو ہمارے لیے صداقت کے قریب تر پہنچنا ممکن ہو گا۔ حتی کہ ہم ان معاملات کو بھی بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں ہم کسی اتفاق رائے پر نہ پہنچ پائیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ یہ تینوں اصول علمیاتی بھی ہیں اور اخلاقی بھی۔ کیونکہ ان میں دوسری باتوں کے علاوہ رواداری کا اصول بھی مضمر ہے: اگر میں آپ سے کچھ سیکھنے کی توقع رکھتا ہوں اور صداقت کے مفاد میں کچھ جاننا چاہتا ہوں، تومجھے نہ صرف آپ کے ساتھ روادار ہونا پڑے گا بلکہ اصولی طور پر آپ کو اپنا ہمسر بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔ بنی نوع انسان کی بالقوة وحدت اور مساوات کا اصول، معاملات پر عقلی مباحثے کے لیے ہماری آمادگی کی اولین شرط ہے۔ یہ اصول بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کہ ہم بحث سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ خواہ اس کا نتیجہ اتفاق رائے کی صورت نہ نکلے۔ مباحثہ سے ہمیں یہ مدد مل سکتی ہے کہ ہماری کچھ غلطیاں ہم پر عیاں ہوجاتی ہیں۔
لہٰذا اخلاقی اصول سائنس کی بنیاد بنتے ہیں۔ صداقت کے تصور کو اساسی انضباطی اصول کی حیثیت سے ایک اخلاقی اصول قرار دیا جا سکتا ہے- وہ اصول جو تحقیق میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔
فکری دیانت اور (انسانی ) خطاواری کی مانند صداقت کی تلاش اور صداقت سے قریب تر ہونے کا تصور بھی اخلاقی اصول ہیں جو خود انتقادی کے رویہ اور رواداری کواپنانے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔
یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ہمارے لیے اخلاقیات کے دائرے میں بھی سیکھنے کی گنجائش موجود ہے۔
میں اپنی بات کی وضاحت دانش وروں کے لیے اخلاقیات کی ایک مثال سے کروں گا خصوصاً دانش ورانہ پیشوں کی اخلاقیات سے : سائنس دانوں، ڈاکٹر وں، وکیلوں، انجینئروں، اور ماہرین تعمیرات کے لیے، سول ملازمین اور سب سے بڑھ کر سیاست دانوں کے لیے اخلاقیات۔
میں جدید پیشہ ورانہ اخلاقیات کے کچھ اصول آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ایسے اصول جو رواداری اور فکری دیانت کے تصورات سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے میں قدیم پیشہ ورانہ اخلاقیات کے امتیازی خصائص کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں ( جو شاید کسی حد تک اس کا مضحکہ انگیز خاکہ ہے ) تاکہ میری پیش کردہ جدید پیشہ ورانہ اخلاقیات کے ساتھ اس کا تقابل کیا جا سکے۔
جدید اور قدیم پیشہ ورانہ اخلاقیات یقینی طورپر صداقت، عقلیت اور فکری ذمے داری کے تصورات پر مبنی ہیں لیکن قدیم اخلاقیات شخصی اور یقینی علم کے تصورات پر اور نتیجتاً اتھارٹی کے تصورات پر مبنی ہے۔ جبکہ جدید اخلاقیات کی بنیاد معروضی اور غیر یقینی علم کے تصورات پر استوار ہوتی ہے۔ یہ فرق انداز فکر میں ایک بنیادی تبدیلی کا پتہ دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں صداقت، عقلیت، فکری دیانت اور ذمے داری کے تصورات کے وظائف بھی بدل جاتے ہیں۔
قدیم آئیڈیل یہ تھا کہ ہمیں صداقت یعنی یقینی صداقت کا حامل ہونا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو اسے منطقی برہان کے ذریعہ ثابت بھی کر سکتے ہوں۔
بہت سے لوگ اس آدرش کو آج بھی بہت عزیز رکھتے ہیں، اس آدرش کے مطابق حکمت کسی ایک شخص کے پاس ہوتی ہے؛ بلاشبہ یہاں حکمت کا سقراطی نہیں بلکہ افلاطونی مفہوم مراد ہے۔ ایسا حکیم جو اتھارٹی کا درجہ رکھتا ہو؛ ایسا عالم وفاضل فلسفی جس کے پاس اختیار واقتدار ہو: فلسفی حکمران۔
قدیم اخلاقیات کا دانش وروں کو یہ حکم ہے : اپنے آپ کو مقام سند پر فائز کرو! اپنے شعبے میں ہرچیز کا علم حاصل کرو۔
اگر آپ کو ایک دفعہ سند تسلیم کر لیا جائے تو آپ کے رفقائے کار آپ کے استناد کا تحفظ کریں گے؛ اور یقینا آپ کو بھی اپنے رفقائے کار کے استناد کا تحفظ کرنا پڑے گا۔
میں جس قدیم اخلاقیات کا ذکر کر رہا ہوں اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ غلطیوں کے ارتکاب کی بالکل اجازت نہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غلطی کوکبھی تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے اس امر پر زور دینے کی ضرورت نہیں کہ یہ اخلاقیات عدم رواداری پر مبنی ہے۔ مزید براں یہ ہمیشہ ہی فکری بددیانتی کی مرتکب ہوتی رہی ہے (خصوصا ًطب اور سیاست میں)۔ اتھارٹی کے تحفظ کی خاطر غلطیوں کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔
میری اس تجویز کا یہی سبب ہے کہ ہمیں ایک نئی پیشہ ورانہ اخلاقیات کی ضرورت ہے، بالخصوص سائنس دانوں کے لیے، لیکن صرف انھی کے لیے نہیں۔ میری رائے میں اس اخلاقیات کو مندرجہ ذیل بارہ اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے اور انھی پر میں اپنے لیکچر کا اختتام کروں گا۔
۔ ہمارا معروضی، قیاسی علم ان حدوں سے بہت آگے پھیلتا جا رہا ہے جن پر کسی فرد واحد کے لیے عبور حاصل کرنا ممکن ہو۔ چنانچہ کسی بھی فرد کو سند تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات بہت ہی اختصاصی مہارت کے متقاضی مضامین کے بارے میں بھی درست ہے۔
۔ تمام تر غلطیوں سے احتراز ناممکن ہے، یہاں تک کہ ان غلطیوں سے بھی جن سے بچنا ممکن ہوتا ہے۔ سبھی سائنس دان غلطیوں کے پیہم مرتکب ہوتے ہیں۔ اس پرانے تصور پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ چونکہ انسان غلطیوں سے بچ سکتا ہے اس لیے اس پر فرض عاید ہوتا ہے کہ وہ ان سے احتراز کرے: یہ تصور بذات خود غلطی پر مبنی ہے۔
۔ یقینا ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جہاں کہیں ممکن ہو غلطیوں سے بچا جائے۔ لیکن غلطی سے بچنے کے لیے سب سے پہلے اس امر سے خبردار ہونا چاہیے کہ یہ کام کتنا مشکل ہے اور کوئی بھی شخص اس میں مکمل طورپر کا میاب نہیں ہو سکتا۔ وجدان سے رہنمائی حاصل کرنے والے اور بہترین تخلیقی اذہان کے مالک سائنس دان بھی اس میں مکمل طورپر کا میاب نہیں ہوسکتے: وجدان بھی ہمیں گمراہ کرسکتا ہے۔
۔ وہ نظریات جن کے حق میں بہت سے تائید ی شواہد موجود ہوں ان میں بھی غلطیاں پنہاں ہو سکتی ہیں۔ سائنس دان کا یہ کا ر منصبی ہے کہ ان غلطیوں کو تلاش کیا جائے۔ یہ امر بذات خود ایک اہم انکشاف ہو سکتا ہے کہ تائیدی شواہد کے حامل کسی نظریے میں یا اب تک کا میابی سے استعمال ہونے والی تکنیک میں غلطی پائی جاتی ہے۔
۔ چنانچہ غلطیوں کی بابت ہمیں اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے عملی اخلاقیات کی اصلاح کا آغاز ہونا چاہیے۔ کیونکہ پرانی پیشہ ورانہ اخلاقیات کا رویہ غلطیوں کی پردہ پوشی کرنے کا ہے، انھیں نمایاں نہیں ہونے دینا چاہیے اور جس قدر جلد ممکن ہو انہیں فراموش کر دینا چاہیے۔
۔ نئی اخلاقیات کا اساسی اصول یہ ہے کہ غلطیوں سے بچنے کی خا طر غلطیوں سے سیکھنا چاہیے۔ چنانچہ غلطیوں کی پردہ پوشی کرنا فکری اعتبار سے سب سے بڑا گناہ ہے۔
۔ ہمیں ہر لحظہ اپنی غلطیوں کو پکڑنے پر آمادہ رہنا چاہیے۔ جب ہم غلطی کے بارے میں آگاہ ہو جائیں تو پھر ہمیں اسے بھلانا نہیں چاہیے۔ ان کا تفصیلی تجزیہ کرکے ہمیں معاملات کی تہہ تک پہنچنا چاہیے۔
8۔ چنانچہ خود انتقادی کا رویہ اور ذاتی دیانت کو برقرار رکھنا ایک فرض کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
۔ چونکہ ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہے اس لیے جب دوسرے ہماری غلطیوں کی جانب ہماری توجہ مبذول کراتے ہیں تو ہمیں ان کے اعتراضات کو تسلیم کرنے بلکہ تشکر وامتنان کے ساتھ تسلیم کرنے کا عمل بھی سیکھنا چاہیے۔ دوسری طرف جب ہم دوسروں کو ان کی غلطیوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں توہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے ہم خود بھی ایسی غلطیوں کے مرتکب ہوچکے ہیں۔ اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عظیم ترین سائنس دانوں نے بھی غلطیاں کی ہیں۔ میں ہرگز یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ہماری غلطیاں بالعموم قابل معافی ہوتی ہیں: لیکن ہمیں کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم بطور انسان ہر بار غلطی کے ارتکا ب سے بچنا ناممکن ہے۔
۔ ہمارا ذہن اس باب میں بالکل واضح ہونا چاہیے کہ غلطیوں کی دریافت اور درستگی کے لیے ہمیں دوسروں کی ضرورت پڑتی ہے (جیسا کہ انھیں ہماری )؛ خصوصاً ان لوگوں کی جو مختلف ماحول میں مختلف خیالات کے ساتھ پلے بڑھے ہوں۔ یہ بات بھی رواداری کا باعث بنتی ہے۔
۔ ہمیں یہ بھی سیکھنا چاہیے کہ خود تنقیدی بہترین تنقید ہے؛ لیکن دوسروں کی تنقید بھی ناگزیر ہے۔ یہ تقریباً اتنی ہی کار آمد ہوتی ہے جتنی کہ خود تنقیدی۔
۔ عقلی تنقید کو معین اور صریح ہونا چاہیے۔ اس میں واضح وجوہ کا بیان کیا جانا ضروری ہے کہ کوئی بیان یا مفروضہ کیوں غلط دکھائی دیتا ہے یا یہ کہ بعض مخصوص دلائل کیوں درست نہیں ہیں۔ معروضی صداقت سے قریب تر ہونے کا تصور اس کا رہنما اصول ہے۔ اس اعتبار سے اس کا غیر شخصی ہونا لازمی ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ ان نکا ت پر تجاویز کی حیثیت سے غور کریں۔ ان کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ اخلاقیات کے میدان میں بھی ایسی تجاویز پیش کی جاسکتی ہیں جن پر بحث کرنا اور اس کے نتیجے میں انھیں بہتر بناناممکن ہو سکتا ہے۔
(کارل پوپر کے لیکچر رواداری اور فکری ذمہ داری کے آخری تین سیکشنز کا ترجمہ)