اسرار الدین اسرار
انسانی احساسات و جذبات اور صنفی حساسیت کو ملحوظ خاطر رکھنے والی زبان کے استعمال کے حوالے سے ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر شدید پسماندگی کا شکار ہے۔ ہمارے معاشرے میں عام گفتگو میں گالم گلوچ، غیر اخلاقی اور نامناسب مثالوں کے علاوہ روایتی اور فرسودہ مفروضوں پر مبنی اقوال، الفاظ اور ضرب الامثال کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے جو کہ سائنسی اور علمی لحاظ سے متروک شدہ ہونے کے علاوہ انسانوں کے دل دکھانے اور خاص طور سے بچوں پر گہرے اور منفی نفسیاتی اثرات ڈالنے کے باعث بھی بنتے ہیں۔
کوئی معاشرہ کتنا مہذب ہے اس کو جانچنے کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ اس معاشرے کے لوگ سماجی زندگی یا عام گفتگو یا ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے وقت کس قدر مہذب زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ دنیا کی جن اقوام میں زبان میں مٹھاس اور گفتگو میں اخلاق کا عنصر نمایاں ہو وہاں مقامی افراد کے علاوہ اجنبی لوگ بھی خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ دنیا کی ایسی اقوام میں فن لینڈ، جاپان، کینیڈا وغیرہ شامل ہیں. بعض اقوام ایسی ہیں جہاں گفتگو میں نفرت، غصہ اور تشدد جیسے جذبات نمایاں ہوتے ہیں۔ شدت پسندی اور دہشت گردی کی پہلی سیڑھی گنوار، نامناسب، غیر شائستہ اور بد تمیز زبان کا کثرت سے استعمال ہے۔
ہمارا معاشرہ بھی ان معاشروں میں شمار ہوتا ہے جہاں لوگ شائشتہ اور مہذب زبان کے استعمال کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ نامناسب اور غیر شائستہ زبان کو فروغ دینے میں سیاسی جماعتوں کے راہنماوں، سیاسی کارکنوں، اساتذہ، میڈیا، لکھاری، علماء سمیت معاشرہ کے ہر طبقہ کا پورا کردار ہوتا ہے۔ اخلاقی پستی کا آغاز عموما غلط زبان کے استعمال سے ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں لڑائی جھگڑوں کے علاوہ عام گفتگو میں بھی گالم گلوچ ، بہتان طرازی ، غلط القابات اور بگڑے ہوئے ناموں سے ایک دوسرے کو پکارنا ایک عام روایت سمجھی جاتی ہے۔ بازاروں میں مرد جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ گھروں میں استعمال کرنے کے قابل نہیں ہوتی مگر اکثر لوگ گھروں میں بھی ایک دوسرے کو گالیاں دینے سے اجتناب نہیں کرتے۔ ماں باپ عموما بچوں کو سیکھانے کے چکر میں سختی کرتے اور بددعائیں یا گالیاں دیتے ہیں جس کا انتہائی منفی اثربچوں کی شخصیت پر پڑتا ہے اور وہ انسانوں سے نفرت اور شدت پسندی سیکھنے لگتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں غیر مہذب اور منفی زبان کا استعمال اس کثرت سے کیا گیا ہے کہ اب اس کی باضابطہ اصطلاحیں وجود میں آئی ہیں۔ جیسے شینا میں کگونئے پوژ یعنی بیوہ کا بیٹا، مالئے بوژ یعنی ماں کا بیٹا جو کہ ایک طرح گالی کے طور پر کہا جاتا ہے، ہیٹی یعنی آزاد عورت، نوم نوٹو یعنی لا وارث، چئے موشا یعنی ہیجڑا۔
بچوں کے لئے کھنوطورو، ڈیرو بنو، چکراٹو، بجوٹو، تھوتھرو وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح دیگر مقامی زبانوں میں بھی منفی اور غیر شائستہ الفاظ اور اصطلاحیں کثرت سے پائی جاتی ہیں جن کا استعمال گھروں، سکولوں اور سماجی زندگی میں یکساں کیا جاتا ہے۔
شینا میں خصوصی افراد کے لئے چانٹو، چھیو، کھوڈو ، ٹیرو، ہاگوئی چراپو وغیرہ تو کثرت سے استعمال ہونے والے الفاظ ہیں۔ اسی طرح ایسے غلیظ القابات سے بھی ایک دوسرے کو یاد کیا جاتا ہے جن کا ذکر ان سطوروں میں کرنا ممکن نہیں ہے۔ سکولوں میں بچے ایک دوسرے کے لئے وہی الفاظ یا القابات استعمال کرتے ہیں جو وہ گھروں میں سیکھتے ہیں۔ اسی طرح اساتذہ بھی بچوں کو طعنہ دیتے ہوئے نالائق، کم عقل، سست ، بیوقوف، گندہ وغیرہ جیسے منفی الفاظ کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا میں اگر کوئی پوسٹ پسند نہ آجائے یا کسی مخالف سیاسی نظریے کی بات آجائے تو بجائے دلیل سے مخالفت کرنے کے گالیوں کا استعمال اس کثرت سے کیا جاتا ہے کہ انسان سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔
کسی خاتوں کی بغیر دوپٹے کی تصویر یا ویڈیو وائرل ہوجائے تو قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ خود کو پارسا ثابت کرنے کے لئے شدید ترین اور بد ترین غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے جس سے اس غلاظت کا اندازہ ہوجاتا ہے جو عام لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں پائی جاتی ہے۔
مذہبی اختلافات کی روشنی میں گالیوں کا بے دریغ اور کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ اگر اصلاح ہی مقصود ہے تو وہ تو با اخلاق و مہذب الفاظ اور شائستہ زبان کے ساتھ دلیل سے ہی ممکن ہے ورنہ گالیوں سے تو اصلاح کی بجائے ضد پیدا ہوجاتی جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ فرد وہی حرکت بار بار کرنے لگتا ہے جس سے اس کو روکنا مقصود ہوتا ہے۔ یہاں چونکہ اصلاح مقصود نہیں ہوتا اور نہ ہی اپنا جائز مدعا بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہاں تو بس نفرت کا اظہار کرنا ہوتا ہے جس کے لئے گالم گلوچ اور بد تہذیب زبان استعمال کی جاتی ہے۔
امریکہ کا مشہور سیاہ فام راہنماء مارٹن لوتھر کنگ کی تقریر ” آئی ہیو آ ڈریم” تاریخ کی بہترین تقریروں میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اس میں گالم گلوچ اور نفرت نہیں بلکہ ایک بہترین پیغام ہے۔ اسی طرح دنیا کے کئ نامور اور تاریخ ساز راہنماوں نے اپنی گفتگو اور تقریروں میں کھبی گالم گلوچ نہیں بلکہ دلیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی راہنماوں کی تقریریں سن کر کان میں روئی ڈالنے کو دل کرتا ہے۔
سیاسی لوگ تو اپنی جگہ دین کی خدمت پر معمور علماء جو خود کو انبیاء کے وارث قرار دیتے اور نیکی اور اچھائی کی تبیلغ اپنا فرض سمجھتے ہیں وہ بھی اکثر جوش خطابت میں گالم گلوچ اور دوسروں کے لئے غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
فیض آباد دھرنے میں مرحوم خادم حسین رضوی کی مشہور گالیاں میڈیا کی مدد سے قوم کے تمام بچوں کو قومی ترانہ کی طرح یاد ہوگئیں تھیں۔
پھر میڈیا میں ہونے والے ٹاک شوز اور جلسہ جلوسوں میں ایسی زبان کا استعمال ایک عام سے بات تصور ہوتی ہے جس میں غیر مناسب الفاظ اور القابات سے مخالفین کو یاد کیا جاتا ہے۔ ملکی سطح پر بعض بد دماغ دانشور بھی شدید گالیوں کو اصلاح کا اصل ذریعہ سمجھتے ہیں اور ان کے چاہنے والے بھی ایسی گفتگو سے محظوظ ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر معاشرہ بد تہزہبی کا شکار ہے۔ تیزی سے فروغ پانے والی یہ بد تہذیب اور انسانی احساسات سے عاری زبان اب معاشرے میں پوری طرح سرایت کر گئ ہے۔ اب یہ زبان کم و بیش سرکاری زبان بھی بن گئ ہے جو کہ سرکاری دفتروں میں بلا سوچے سمجھے استعمال کی جاتی ہے۔ لوگ دن میں کئ بار کسی نہ کسی کے بد تہذیب الفاظ کے نشتر سہتے اور ذہنی کرب کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔
عام طور پر انسان کسی طرح ایسی زبان سہہ لیتا ہے مگر جب وہ داد رسی کے لئے سرکاری دفاتر، تھانوں یا انصاف دلانے والے اداروں کے سامنے جاکر ایسی زبان سنتا ہے تو اس کے دکھ اور تکلیف میں کئ گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔
تھانوں میں اپنی شکایات لے کر جانے والے سائلین اور خصوصا خواتین کی طرف سے یہ شکایات اکثر موصول ہوتی ہیں کہ پولیس اہلکاروں کی طرف سے درست زبان استعمال نہیں کی جاتی ہے۔ مثلا خواتین کو ناقص العقل یا ذہنی مریض وغیرہ کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی داد رسی کسی وجہ سے ممکن نہیں بھی ہے تو پولیس اہلکاروں کی طرف سے سائلین کے ساتھ ہمدردی اور انسان دوستی اور صنفی حساسیت پر مبنی زبان کا استعمال کرلینا چاہئے۔
گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران ہم نے ایسی کئ شکایات سن لی ہیں جن میں سائلین کے ساتھ سرکاری و غیر سرکاری دفتروں میں ناروا سلوک کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو اس طرح کی شکایات سن لے اور لوگوں کو ذہنی تکلیف دینے والے سرکاری و غیر سرکاری لوگوں کی سرزنش کرے اور ان کو سزا دے۔
غیر مہذب زبان اور گالم گلوچ کا کثرت سے استعمال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معاشرہ دلیل اور علم کی روشنی سے محروم ہورہا ہے۔ معاشرے کی اندرونی غلاظت زبان کی شکل میں باہر آجاتی ہے۔ کتب بینی اور علم دوستی سے دلیل کی روایت کو تقویت ملتی ہے اور زبان میں وسعت آنے کے ساتھ اس میں تہذیب کا پہلو نمایاں ہوجاتا ہے۔ گالم گلوچ بہادری کی نہیں بلکہ جہالت اور ذ ہنی پستی اور غلاظت کی علامت ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں اس صورتحال سے نکلنے کے لئے درست زبان کے استعمال کی مشقوں کے لئے ایک قومی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ نصاب میں اس ضمن میں خصوصی اسباق شامل کرنے کے علاوہ تمام تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کو روزانہ کی بنیاد پر مہذب اور انسان دوست زبان کے استعمال کی تربیت اور پریکٹس کرانے کی ضرورت ہے۔ تمام سرکاری دفاتر اور تھانوں میں پلیز، تھینک یو اور سوری جیسے الفاظ کے استعمال کی مشقیں کرانے کے علاوہ سرکاری اہلکاروں کو سائلین کے لئے اپنی کرسی سے کھڑے ہونے، ادب اور احترام سمیت ہمدردانہ الفاظ کے استعمال کی مشقیں کرانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کے اقدامات کے ذریعہ قومی اور صوبائی سطح پر شائستہ اور مہذب زبان کے استعمال کے فروغ کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ جس سے لوگوں میں احترام انسانیت کے جذبات پیدا ہونے کے علاوہ شدت پسندی میں واضح کمی آسکتی ہے۔ ورنہ بد اخلاقی کا یہ طوفان یوں ہی تباہی پھیرتا رہے گا۔