اسرار الدین اسرار
گلگت بلتستان میں شدید سردی سے بچنے کے لئے جہاں لکڑی، کوئلہ اور مٹی کے تیل کا استعمال ہوتا ہے وہاں ایل پی جی سلنڈر کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ گذشتہ ایک مہنے میں ایل پی جی سلینڈر لیکیج اور پھٹنے کی وجہ سے کئ واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں کئ قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں اور کئ افراد شدید جھلس گئے اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ کچھ دن قبل گلگت شہر میں ایک نوجوان خاتون ٹیجر ایسے ہی ایک واقع میں جان سے چلی گئ جبکہ گلگت کے ایک مقامی ہوٹل میں گیس سلینڈر کے لیکیج کی وجہ سے ضلع استور سے تعلق رکھنے والی ایک فیملی جس میں میاں بیوی اور ایک معصوم بچی شامل تھی سب کے سب لقمہ اجل بن گئے۔ اس واقع کے بعد حسب معمول پولیس نے گیس سیلنڈر فروخت کرنے والے کئ افراد کو گرفتار کیا ۔ انتظامیہ نے ایک ہدایت نامہ جاری کیا اور بری الذمہ ہوگئ۔
دنیا بھر میں بجلی کو ہیٹنگ کے لئے محفوظ اور بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے مگر گلگت بلتستان میں دریاوں اور نالوں کے پانی سے پچاس ہزار میگاواٹ سستی پن بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہونے کے باوجود یہاں ستر سالوں میں کھبی بھی بجلی کی کمی پوری نہیں ہوسکی ہے۔ اس وقت بھی گلگت بلتستان کی کل ضرورت پانچ سو میگاواٹ سے ذیادہ بجلی نہیں ہے مگر گذشتہ اور موجودہ حکومتیں اس حوالے سے مکمل ناکام رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شدید سردی سے بچنے کے لئے لوگ جنگلوں کی بے دریغ کٹائی کرکے لکڑی جلاتے یا مضر صحت ذرائع یعنی ایل پی جی ، کوئلہ یا مٹی کے تیل اور پلاسٹک وغیرہ جلانے کی مدد سے ہیٹنگ کا انتظام کرتے ہیں۔ جو کہ ماحولیاتی آلودگی کے علاوہ انسانی صحت کے لئے بہت ذیادہ نقصاندہ ہیں۔
ہیٹنگ کے مذکورہ تمام ذرائع میں سب سے ذیادہ ایل پی جی سیلنڈر جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ اگر اس سے جان نہ بھی جائے پھر بھی اس کے سامنے مسلسل بیٹھنے رہنے سے انسان کی ذہنی صحت پر انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ دو سال قبل ایک سیاح جوڑا بھی مقامی ہوٹل میں گیس لیکیج کی وجہ سے جاں بحق ہوا تھا۔
گلگت بلتستان میں ہر سال سردیوں کے موسم میں ایل پی جی گیس کی لیکیج کی وجہ سے درجنوں جانیں ضائع ہوتی ہیں مگر حکومت اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے۔ ایل پی جی سلینڈر بیچنے والوں کا کہنا ہے کہ ایل پی جی سیلنڈر مارکیٹ میں دو طرح کے آتے ہیں۔ ایک معیاری سلنڈر ہوتے ہیں جو قدرے مہنگے ہوتے ہیں جن کے لیکیج کا خدیشہ کم ہوتا ہے جبکہ دوسرا غیر معیاری سلینڈر ہوتے ہیں جن کا لیکیج کا خدیشہ اسی فیصد ہوتا ہے۔ ایک گیس سلنڈر ڈیلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے ایک غیر معیاری سلنڈرز سے لدے ٹرک کی گلگت میں داخل ہونے کی اطلاع مقامی انتظامیہ کو دی تھی مگر اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور وہ ٹرک سیدھا غذر لے جایا گیا۔
ہمارے ہاں غیر معیاری سلنڈرز کو روکنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ رشوت لے کر ایسے سلنڈرز کو گلگت بلتستان میں داخل کرانے یا بیچنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ حکومت چاہے تو اس سلسلے کو روک سکتی ہے۔
گلگت بلتستان کی حکومت کو چاہئے کہ وہ مزید جانیں ضائع ہونے سے قبل اس سلسلے کو روکنے کا سبیل کرے۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔
١۔ تمام غیر معیاری ایل پی جی سلنڈرز کا جی بی میں داخلہ بند کیا جائے۔
٢۔ جو غیر معیاری سلنڈرز مارکیٹ میں موجود ہیں ان کو فوری ضبط کیا جائے۔
٣۔ گیس سلنڈرز فروخت کرنے والوں کو رجسٹرڈ کر کے ان کی سخت نگرانی کی جائے اور روزانہ کی بنیاد پر معیار چیک کیا جائے۔
۴۔ معیاری سلنڈرز کے اوپر خصوصی نشان لگایا جائے۔
۵۔ ہر گیس سلنڈر کے اوپر احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایت نامہ چسپاں کیا جائے۔ جس میں بیڈ روم یا کیچن یا بند گھر کے اندر سلنڈر رکھنے کے نقصانات بتا ئے جاسکتے ہیں۔
۵۔ سونے کے کمروں اور ہوٹل رومز میں ایل پی جی سلنڈرز کی ہٹینگ پر پابندی لگائی جائے۔
٦۔ پلاسٹک اور ٹائر جلانے پر پابندی عائد کی جائے۔
٧۔ بجلی کی پیداوار پر توجہ دی جائے تاکہ لوگ ہیٹنگ کے لئے اس محفوظ ذریعہ کا استعمال کر سکیں۔
٨۔ آج تک گیس سلنڈرز کی لیکیج سے نقصان اٹھانے والے خاندانوں کو مالی معاوضہ ادا کیا جائے۔