Baam-e-Jahan

پاکستان اپنے بہترین دماغ کیوں کھو دیتا ہے

محمد حارث

دو ہفتے قبل پاکستان کے واحد عالمی شہرت یافتہ ریاضی دان نے ملک چھوڑ دیا۔ اُس کا واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، کیونکہ ملک میں حقیقی ریاضی دان نہ ہونے کے برابر ہیں (ان کی تعداد آدھے درجن یا اُس سے کم ہوگی)۔ اس لئے یہ ملک کے لئے بڑا نقصان ہے۔ لیکن کون اس کی پروا کرتا ہے؟ بوٹ کی سیاست میں مشغول، پُرتعیش اشیا کی بڑی تعداد میں درآمد میں مصروف، آخرت کے سفر کی تیاری کے بُخار میں مبتلا، ہمارا زوال پذیر کلچر ریاضی یا فزکس سے لاتعلّق ہے۔

مگر زندہ اور متحرّک معاشروں میں، چاہے وہ نئے ہوں یا پُرانے، ریاضی دانوں اور theoretical physicists کو انتہائی مختلف نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ ہزارہا سال قبل فیساغورث اور افلاطون پنت قائدین تھے جنہوں نے جیومیٹری میں وہ حیرت انگیز چیزیں دیکھی تھیں جن سے کائنات کے اسرار کھولے جا سکتے تھے۔ وہ اپنے شاگردوں سے درست تعریف (definition) اور واضح طور پر بیان کردہ مفروضات اور منطقی طور پر حاصل کیے جانے والے ثبوت کا مطالبہ کرتے تھے۔ ان عناصر نے مل کر ریاضی کو سائنس کی ملکہ اور اور فزکس کی ماں بنایا۔ سپیس کرافٹ اور انٹرنیٹ سے لے کر فارماسوٹیکل اور چیونگم اپنے وجود کے لئے اس سخت ذہنی تربیت کی مقروض ہے۔

مندرجہ ذیل کہانی اُن تمام افراد کے لئے ہے جو یہ سوچتے ہیں کہ کیوں پاکستان جدید دنیا سے پیچھے رہ گیا ہے، کیوں پاکستانی یونیورسٹیاں مسلسل بہترین اور ذہین افراد کو کھو رہی ہیں، اور کیوں پاکستان میں حقیقی طور پر سیکھنے اور تحقیق کا کلچر نہیں ہے۔ ویسے تو یہ ایک فرد کی کہانی ہے لیکن ایسی کئی اور لوگوں کی کہانیاں موجود ہیں جو پاکستان واپس آئے لیکن پھر ہار مان لی۔

1994-95 کے آس پاس مجھے ایک ہاتھ سے لکھا ہوا خط موصول ہوا جس میں لکھنے والے نے لکھا تھا کہ وہ theoretical Physics پڑھنے میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ اُس پر کسی عامر اقبال کے دستخط تھے۔ میں نے جواب میں آنے کے لئے کہا۔ کُچھ ہفتوں بعد ایک بلند قامت نوجوان جس کی عمر 19 سال کے لگ بھگ تھی قائدِ اعظم یونیورسٹی میں میرے دفتر میں داخل ہوا۔ میں اُس وقت ایک مضمون کوانٹم فیلڈ تھیوری ( Quantum Field Theory) پڑھا رہا تھا جس کو سمجھنے کے لئے برسوں کی ریاضی کی تیّاری درکار تھی۔ وہ لڑکا ذہین لگتا تھا لیکن میں نے کہا کہ شائد وہ میرا کورس نہ کر سکے۔ میں غلط تھا۔ اُس نے نہ صرف انتہائی سرعت کے ساتھ خود سے پڑھائی کرتے ہوئے کورس کے لئے درکار ریاضی کی استعداد حاصل کی بلکہ بلیک بورڈ پر میری کی جانے والی کبھی کبھار کی غلطیوں کی بھی نشاندہی کرنے لگا۔

(اُس کی پڑھائی سے) خوش ہوکر (میں نے) MIT میں پی ایچ ڈی کی تجویز دی۔ اگرچہ اس (ادارے) کے تمام ڈیپارٹمنٹ انتہائی مسابقتی ہیں، MIT کے ریاضی اور theoretical Physics کے ڈیپارٹمنٹ خوفناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ سو فیصد GRE کے سکور، اور بہترین گریڈز کے حامل بیرونِ ملک سے آئے ہوئے طلبہ کو داخلہ لینا اور برقرار رکھنا دشوار ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے MIT کی فیکلٹی میں کچھ ایسے لوگ تھے جن کے ساتھ میں نے اپنی تحقیق کے سلسلے میں اشتراک کیا تھا یا جو میری پی ایچ ڈی کی کمیٹی پر تھے۔ شروع کی کچھ رکاوٹوں کے بعد سارے کام بنتے چلے گئے اور عامر اپنے راستے پر گامزن ہوا۔

باقی سب ایک تاریخ ہے۔ اُس کی پی ایچ ڈی کی ریسرچ اور شاندار مقالوں کے سلسلے نے عامر کو تعلیمی حلقوں میں اعلیٰ مقام عطا کیا۔ MIT کے پروفیسر جیفری گولڈ سٹون جن کی وجہ شہرت گولڈن بوسن یا Higgs Boson یا God Particle جنہیں گولڈ سٹون بوسن سے derive کیا گیا تھا اور جو الفاظ کے استعمال کے سلسلے میں محتاط رہنے میں مشہور ہیں لیکن بیس سال قبل جب ان سے سامنا ہوا تو اُنہوں نے عامر کو MIT بھیجنے پر میرا شکریہ ادا کیا۔ اگلے مرحلے میں Steven Weinberg جنہوں نے 1979 میں نوبل پرائز ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ شیئر کیا تھا اور شیلڈن گلاشو (Glashow) نے عامر کو post-doctoral تحقیق کے سلسلے میں یونیورسٹی آف ٹیکساس (آسٹن) مدعو کیا۔

نوجوان آدمی پھل پھول رہا تھا۔ پاکستان سے امریکہ کے مختصر دوروں پر آ کر وہ دنیا کے شاندار ریاضی دانوں (Okounkov, Yau, etc) اور مشہور ماہرینِ طبعیات (Vafa, Zwiebach, etc) کے ساتھ مل کر مقالے تحریر کر رہا تھا۔ اعلیٰ سائنسی طبقہ ہی سمجھ سکتا ہے کہ یہ کیا معنی رکھتا ہے۔ عامر اقبال ابھی بھی وہ واحد پاکستانی ہے جسے ریاضی اور فزکس کے مُشترکہ سوالات کے حل کے لئے بلائے جانے والے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں شرکت کے لئے مدعو کیا جاتا تھا۔

لیکن ان تمام چیزوں کا اُس کے ساتھ پاکستان میں کام کرنے والوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ LUMS میں چھ سال (2009-2015) کی تدریس کا اختتام جبری استعفے اور کی صورت میں نکلا۔ اُس کے کچھ کولیگز (جو حاسد اور دانشورانہ بونے تھے) اُس کے تعلیمی رتبے سے خوفزدہ تھے اور اُنہوں نے اُس کے خلاف سازش کی۔ LUMS نے کبھی اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ اُسے کیوں برطرف کیا گیا۔

ایک اور دور عبدالسلام سکول فار میتھمیٹیکل سائنسز میں تھا جو پانچ سال تک جاری رہا اور اُس کا اختتام بھی اچھا نہ تھا۔ اُس کو ریگولر اپائنٹمنٹ دینے کی بجائے سالانہ معاہدے پر رکھا گیا جس میں کوئی بھی اپنے سے اوپر موجود فرد کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ عامر کے لئے اس طرح کی صورتحال ناقابلِ قبول تھی۔

لیکن یہ اُس کی طرف سے ایک سکینڈل کو ایکسپوز کرنا تھا جس نے سب ختم کر دیا۔ قارئین اس کے لئے میرے ڈان میں لکھے گئے آرٹیکل کو دیکھ سکتے ہیں جو بتاتا ہے کہ کس طرح کم سے کم 60 کروڑ روپے AS-SMS میں جعلی تنخواہوں کی مد میں ادا کیے گئے۔ میں نے اپنا وہ آرٹیکل ان الفاظ سے شروع کیا تھا ’’ذیل میں ایسے بہت سے لوگوں کے نام ہیں جن کو کسی بھی ملک میں جیل ہو جاتی اگر وہاں قانون کی عملداری ہوتی۔ بہت سے ایسے چاہے وہ اس میں ملوّث تھے یا اُنہوں نے اس میں غفلت برتی اُن کو شرمندہ کروایا جاتا، ملامت کروائی جاتی، یا اُنہیں اپنے عہدے سے ہٹا دیا جاتا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ پاکستان میں کچھ بھی نہیں ہوگا مجھے یہ کہانی ضرور بتانی چاہیے‘‘۔

کہانی بتائی گئی اور واقعی کچھ نہیں ہوا۔ بس عامر کے معاہدے کی تجدید نہیں کی گئی۔ سنا گیا کہ HEC نے جعلسازی کی تحقیقات شروع کی ہے۔ لیکن کمیٹیاں اس لئے بنائی گئیں تاکہ جرم پر پردہ ڈالا جا سکے نہ کہ مجرموں کو پکڑا جائے۔

بہرحال سچ سامنے آ کر رہا۔ ڈان میں میرے آرٹیکل کے چھپنے کے بعد اس پر بی بی سی نے کام کیا۔ اس کے محنتی تحقیق کاروں نے بہت سے دس سال قبل کے گھوسٹ یوروپین ریاضی دانوں کا پتہ لگایا اور ساتھ ہی ساتھ AS-SMS کے سابق ڈائریکٹر کا بھی جو لوٹی ہوئی رقم کے ساتھ بھاگ نکلے (جس کے وہ انکاری ہیں)۔ بی بی سی کی یہ رپورٹ بی بی سی کی ویب سائٹ پر دیکھی جاسکتی ہے) عامر کی 456 صفحات کی رپورٹ کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ رپورٹ اب سے قبل AS-SMS کی ویب سائٹ پر دیکھی جاسکتی تھی لیکن پچھلے مہینے اُس کو اُس کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا جو یقیناً اس میں ملوّث افراد کو بچانے کے لئے کیا گیا ہوگا۔

پاکستانی جامعات، ساری کی ساری سیاسی گند اور سازش کا گڑھ ہیں۔ ایک ایسے نظام میں جہاں اقدار زوال پذیر ہوں، اور منتخب کرنے کا بے تُکا معیار ہو وہاں وہ نالائق جو ہر جگہ ناکام ہو جاتے ہیں، یونیورسٹی کے پروفیسرز بن جاتے ہیں۔ اگر پاکستان بیرونِ ملک مقیم بہترین اور ذہین دماغوں کو واپس اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے تو وہ جلد ہی واپس چلے جائیں گے۔ جب تک ہماری یونیورسٹی میں قانون کا احترام، میرٹ پر عملدرآمد، اور شفّافیت کو یقینی نہیں بنایا جاتا، کچھ نہیں بدلے گا۔ ایسا ہونا مُستقبل قریب میں مشکل نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا یہ مضمون روزنامہ ڈان میں یکم فروری کو شائع ہوا جسے محمد عبدالحارث نے نیا دور کے لئے اردو میں ترجمہ کیا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے