Baam-e-Jahan

کس کو مرنا ہے اور کس کو بچنا ہے؟


تحریر۔ اسرارالدین اسرار


دنیا کے کٸ ممالک نے اس وقت لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تھا جب کورونا بہت تیزی سے ان کی ایک بڑی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔ ان کے ہاں لاک ڈاؤن کے مقاصد یہ تھے کہ کویڈ۔١٩ کے پھیلاؤکو روکا جاسکے اور اس دوران سامنے آنے والے  صورتحال سے مہارت سے نمٹا جاۓ. نیز آٸندہ آنے والے اس قسم کے وباء کے لۓ پہلے سے بہتر حکمت عملی اور تیاری کی جا سکے۔ یہ حکمت عملی کٸ ممالک میں کامیاب رہی جس کی وجہ سے کویڈ۔١٩ سے شدید متاثرہ ممالک میں اس وبا ٕ کے متاثرین کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوچکی ہے۔ چین جیسے مما لک جہاں صوتحال انتہاٸی تشویش ناک تھی انہوں نے بلاآخر کامیابی کے ساتھ مکمل طور پر اس وبا ٕ پر قابو پالیا ہے۔ اسی طرح اٹلی اور سپین وغیرہ میں بھی صورتحال معمول پر آنا شروع ہوگٸ ہے۔

ہمارے یہاں ہمیشہ کی طرح سارا معاملہ الٹا رہا۔ لاک ڈاؤن کرتے وقت یہاں کے پالیسی سازوں  کو نہ تو صورتحال اور انے والے خطرات کا ادراک تھا اور نہ ان کے آگے واضح اہداف تھے۔ بلکہ وہ محض دنیا کی نقل اتار رہے تھے۔ ان کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس لاک ڈاؤن سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ابتدا میں آگاہی کی کمی کی وجہ سے عوام کی اکثریت بھی کورونا کی تباہی سے نا آشنا تھی اور حکومت کے لۓ بھی یہ محض ایک کھیل تماشا سے زیادہ کچھ نہیں لگتا تھا۔ پھر ہماری زمین ہر قسم کی سازشی نظریات کے لۓ ویسے بھی زرخیز ہے اس لۓ اس وباء کو امریکہ اور چین کی حیاتیاتی جنگ قرار دیے کر خود کو محفوظ تصور کیا۔ اس لۓ جب لاک ڈاّؤن کا فیصلہ کیا گیا تو اس کا مطلب عوام کے لۓ چھٹیاں کرکے گھر بھیٹنا یا گھوم پھرنا تھا اور حکومت کے لۓ محض وقت گزار ی تھا۔ کٸ جگہوں پر لوگ سنجیدہ نظر آرہے تھے وہاں حکومت سنجیدہ نہیں تھی اور کٸی جگہوں پر حکومت سنجیدہ نظر آرہی تھی مگروہاں لوگ سنجیدہ نہیں تھے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں لاک ڈاؤن بر وقت کیا گیا تھا مگر تصور یہ کیا گیا کہ شاید لاک ڈاؤن میں کرونا خود بخود ختم ہوجاۓ گا۔ یوں ارباب اختیار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے اور ان کی خواہشات کے برعکس کورونا پھیلتا گیا اور مریضوں کی تعداد میں اب بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ کورونا تو کہیں پر بھی خود سے ختم نہیں ہوا ہے بلکہ بہترین حکمت عملی کے ذریعے اس پر قابو پایا جاتا رہا ہے۔

ہمارے ہاں صوبے اور وفاق اب بھی ایک پیج پر نہیں ہیں۔ غیر دانشمندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب لوگ اور حکومت دونوں لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی بحران کا شکار ہیں۔ حکومت اور عوام اب لاک ڈاؤن کو توڈنے یا کھولنے کے لۓ بے تاب ہیں۔ جس کا عندیہ وزیر اعظم نے حالیہ دنوں اپنے ایک بیان میں بھی دے دیا ہے۔ لگتا ہے کہ اب ایسے وقت میں لاک ڈاؤن کو نرم کیا جاۓ گا جب کورونا کے پھیلنے کا امکان پہلے سے کٸ گنا زیادہ بڑھ گیا ہے۔

اس حکمت عملی پر ہنسا جاۓ یا رویا جاۓ کہ سرکار کو لاک ڈاؤن کب کرنا تھا اس کا بھی اندازہ نہیں ہوسکا ۔ اس لۓ لاک ڈاؤن کے مطلوبہ نتاٸج آنے کی بجاۓ آۓ روز نۓ متاثرین سامنے آتے رہے اور اس غیر یقینی صوتحالسے اب سب اکتا چکے ہیں۔ اب کورونا سے متعلق حکومت کا ابتداٸی جوش بھی ٹھنڈا پڑ چکا ہے اور توجہ کویڈ۔١٩ سے ہٹ کر کسی اور طرف لگ چکی ہے۔ یہی صورتحال رہی تو کوٸی معجزہ ہی بچا سکتا ہے ورنہ صورتحال بگڑنے میں دیر نہیں لگے گی۔ آنے والے وقتوں میں ڈاکٹروں کی بات درست ثابت ہوگی۔ تب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاۓ گا کہ کس کس کو بچانا ہے اور کس کس کو مرتے ہوۓ تماشا دیکھنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے