نور شمس الدین
اُنیسویں صدی کے آغاز میں برطانوی راج ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد سے ہندوستان میں پنجے گاڑ چکا تھا۔ دوسری طرف زار روس وسطی ایشیاء کے جنوب میں اپنی سلطنت کو وسعت دینے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ روس کے اِن عزائم کو دیکھتے ہوئے برطانیہ کو ہمیشہ سے اس بات کا خدشہ تھا کہ کہیں روس افغانستان یا ہندوستان کے شمال مغرب میں موجود چھوٹی چھوٹی آزاد ریاستوں کو تاراج کرتا ہوا ہندوستان پر حملہ نہ کرے۔ بالکل اسی طرح کے خدشات انگریزوں کے متعلق روس کو بھی تھے۔ اِن خدشات نے برطانیہ اور روس کے درمیان چقلش پیدا کی ۔ گو کہ اس دوران کبھی بھی اِن دو عالمی طاقتوں کے بیچ فوجی تصادم نہیں ہوا تاہم سیاسی اور سفارتی محاذ ہمیشہ گرم رہا اور دونوں طاقتیں اپنے بیچ موجود ممالک خصوصاً افغانستان ، اور ایران اور وسطی ایشیاء سے متصل آزاد ریاستوں مثلاً کشمیر، گلگت، ہنزہ اور چترال کو اپنے مخالف کے تصرف سے بچا کر اپنے کیمپ میں شامل کرنے کیلئے کوشاں رہیں۔ تقریباً ایک صدی پر پھیلی اس محاذ آرائی کو تاریخ میں گریٹ گیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔
نور شمس الدین کے مزید کالم پڑھیے؛
مہاراجہ کشمیر، جارج ہیورڈ اور میر ولی
شمال مشرقی حملہ آور، ریشن کے قیدی اور کڑاک کے مفرور فوجی
گریٹ گیم کے دوران ہندوکش، قراقرم، ہمالیہ اور پامیر کے پہاڑی راستوں کی کھوج اور ان کے ذریعے جاسوسی کرنے کا سلسلہ اٹھارویں صدی سے شروع ہوچکا تھا۔انگریز سرکار کے کارندے ان پہاڑی راستوں کا استعمال بظاہر کاروبار اور سیاحت کے لئے کررہے تھے مگر ان کا اصل ہدف وہاں کی ریاستوں کی جاسوسی، ان ریاستوں پر روسی اثرورسوخ کا تجزیہ اور اُن دروں اور گزرگاہوں کی تلاش تھا جن کے بارے میں انگریز اب تک بے خبر تھے مگر جنہیں روس اِ ن آزاد ریاستوں یا پھر براہِ راست برطانوی ہند پر ممکنہ حملے کیلئے استعمال کرسکتا تھا۔ اس مشکل ترین کام میں فرنگی اہلکاروں کو اس وقت حیرت کا شکار ہونا پڑتا جب ان دشوار گزار پہاڑوں کے بیچ نئے علاقوں کی دریافت کے ساتھ وہاں ان کو روس کے قدموں کے نشان پہلے سے موجود ملا کرتے تھے ۔ انیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ دونوں بڑی طاقتوں کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ کسی بھی طاقت کی جانب سے ممکنہ مہم جوئی کی راہ میں شمال مغرب کے پہاڑ ہی حائل ہوسکتے ہیں چاہے وہ جنگ شروع کرنے کا معاملہ ہو یا حملہ آوروں کوروکنے کا مسئلہ۔ فرنگی سرکار کے لئے تشویشناک حالات اس وقت پیدا ہوگئے جب وسطی ایشیاء میں تاشقند، سمرقند اور بخارا پر قبضہ کرنے کے بعد روسی حکام پامیر کے دامن میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد سوائے چترال، گلگت یا ہنزہ جیسی کمزور ریاستوں کے روس کی راہ میں حائل کوئی بڑی رُکاؤٹ موجود نہ تھی اور جب چاہے اِن ریاستوں کو روندھتے ہوئے براہِ راست ہندوستان پر حملہ آور ہوسکتے تھے۔اگرچہ 1846 کے بعد کشمیر اپنے خارجہ معاملات فرنگی سرکار کے مطابق چلارہا تھا تاہم کشمیر کے راستے ہندوستان پر حملے کا خوف اور ریاستِ ہنزہ کی وادیِ شمشال میں خفیہ جاسوسی راستوں کی موجودگی انگریزوں کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتے تھے۔ 1865 میں روسیوں کے پامیر کے پار تک پہنچنے کی خبر کے ساتھ فرنگی سرکار نے حفاظتی انتظامات تیز تر کردیے۔ 1877 کے بعد انگریزوں نے گلگت کے معاملات میں براہ راست مداخلت شروع کردی ۔ وہ نہیں چاہتے تھے وسطی ایشیاء سے متصل کوئی بھی علاقہ روسیوں کے زیرِ اثر چلا جائے۔ اُنیسویں صدی کے آخری عشرے کے ابتدائی سالوں میں گلگت ، ہنزہ اور غذر کا پورا علاقہ انگریزوں کے زیر نگیں آگیا۔
دوسری طرف افغانستان بھی گریٹ گیم کے دوران روسیوں اور انگریزوں کے بیچ اس چپقلش کا میدان رہا۔ انگریزوں نے افغانستان میں کئی بار براہ راست بار مداخلت کی تاکہ اسے اپنے کنٹرول میں لاسکےمگر حالات اس وقت تک قابو میں نہ آسکے جب تک 1880 میں امیرعبدالرحمان برسر اقتدار نہ آئے۔ عبدالرحمان کو اپنے خارجہ امور ہندوستان کی انگریز سرکار کے مطابق چلانے کے بدلےمیں اچھی خاصی مدد مل جاتی تھی۔ افعانستان اور انگریزوں کی تعلقات کا عروج ڈیورنڈ لائن کی صور ت میں سامنے آیا جس کے بعد دونوں ریاستیں نہ صرف ایک دوسرے کے حدود سے واقف ہوگئے بلکہ حد بندی کی وجہ سے کسی بھی قسم کا اختلاف پیدا ہونے کی گنجائش تقریبا ًختم ہوگئی ۔ اگرچہ اس واقعے سے آس پاس کی شاہی ریاستیں خوش نہیں تھیں مگر چترال شاید وہ واحد ریاست تھی جو نہ صرف ڈیورنڈ لائن کی حمایت کرتا تھا بلکہ اس مرحلے کے دوران انگریزوں کی ہر ممکن مدد بھی کی اور نتیجتاً انگریزوں اور چترالی ریاست کے تعلقات بہتر ہوگئے۔ اینڈرسن کے مطابق موتمر ڈیورنڈ اور روبرٹسن کا 1888 ء میں مہتِر چترال امان الملک کی دعوت پر چترال آنا چترال اور انگریزوں کے درمیان بہتر تعلقات کا نقطہ عروج تھا ۔
حالات شاید ایسے ہی رہتے اگر چترال کے مہتر امان الملک کے انتقال کے بعد جانشینی کی خونریز کہانی شروع نہ ہوجاتی۔
مہتر امان الملک 1856 میں اس وقت اقتدار میں آئے تھے جب پامیر کے پہاڑوں میں فرنگی اور روسی گریٹ گیم کھیلنے میں مصروف تھے۔ انگریزوں کاآہستہ آہستہ شمالی علاقہ جات پر قبضے اور افعانستان کا انگریزی عملداری میں جانے کے بعد مہترِ چترال فرنگیوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ چترال اور افغانستان کے تعلقات عموماً کشیدہ رہتے تھے۔ امان الملک انگریزوں سے تعلقات قائم کرکے انہیں اس اس بات پر قائل کرنے کی کوشش میں تھے کہ چترال سے کوئی باغی افعانستان اور خصوصاً بدخشان کے علاقوں میں پناہ لے سکے اور نہ وہاں سے تختِ چترال کا کوئی سر پھیرا دعویدار نمودار ہو کر چترال کیلئے مشکلات پیدا کرے جو کہ ماضی میں عموما ً ہوتا آیا تھا۔ مختصراً یہ کہ انگریزوں اور امان الملک کے گٹھ جوڑ اور افعانستان پر فرنگی دباؤ نے نے امان الملک کو لمبے عرصے تک پُرامن طریقے سے چترال کے سیاہ وسفید کا مالک بنائے رکھا۔
امان الملک انگریزوں سے تعلقات قائم کرکے انہیں اس اس بات پر قائل کرنے کی کوشش میں تھے کہ چترال سے کوئی باغی افعانستان اور خصوصاً بدخشان کے علاقوں میں پناہ لے سکے اور نہ وہاں سے تختِ چترال کا کوئی سر پھیرا دعویدار نمودار ہو کر چترال کیلئے مشکلات پیدا کرے جو کہ ماضی میں عموما ً ہوتا آیا تھا۔
۳۰ اگست 1892 کو امان الملک کا انتقال ہوتا ہے۔ اس وقت گلگت کا پولیٹکل ایجنٹ میجر جارج اسکاٹ رابرٹسن تھا ۔امان الملک کا بڑا بیٹا نظام الملک اُس وقت یاسین میں تھا جب تختِ چترال پر امان الملک کا چھوٹا بیٹا افضل الملک اقتدار پر قابض ہوگیا۔ ان حالات کا فائدہ اُٹھا کر امان الملک کے بھائی شیر افضل جو افعانستان میں ملک بدر تھے اور انگریز سرکار کی ہدایت کے مطابق امیرِافعانستان انہیں چترال پر حملے سے روکنے کے پاپند تھے ،نے کسی کی پرواہ کیے بغیر چترال پر دھاوا ا بول دیا۔ شیر افضل افضل الملک کو قتل کرکے 8 نومبر 1892 کو تخت چترال پر قابض ہوگئے۔ ان حالات کی خبر نظام الملک کو ہوئی تو وہ انگریزوں کی اشیر باد سے چترال کی طرف روانہ ہوا۔ شیر افضل واپس افغانستان بھاگ گیا اور 3 دسمبر 1892 کو نظام الملک چترال کے حکمران بنے۔
اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نظام الملک نے افغانستان سے کسی بھی متوقع حملے کو انگریزوں کے زریعے روکنے کی حکمت ِ عملی اپنا لی یا۔ بلکہ دو قدم آگے نکل کر انگریزوں کو چترال میں اپنا سفیر تعینات کرنے کی بھی دعوت دی۔
اسی دعوت پر گلگت کے پولیٹکل ایجنٹ میجر رابرٹسن ایک مرتبہ پھر چترال پہنچے اور مئی 1893 میں کیپٹن ینگسبینڈ کو چترال میں پولیٹکل افسر تعینات کرکے خود واپس گلگت چلے گئے۔ اسی سال ماہِ ستمبر میں ینگسبنڈ کو چترال سے مستوج بھیج کر ان کی جگہ ایک اور افسر بی ای ایم گورڈن کو ذمہ داریاں دی گئیں۔
نظام الملک کو انگریزوں کی حمایت تو حاصل تھی مگر ان کے اپنے چند بااثر رفقاء شیر افضل سے رابطے میں تھے جس کی وجہ سے نظام الملک کی مشکلات بڑھتی جارہی تھیں ۔ اور شاید یہی وجہ تھی کہ یکم جنوری 1895 کو نظام الملک اپنے ہی بھائی امیر الملک کے ہاتھوں قتل ہوئے اور اسی وقت جندول کے حکمران عمرا خان نے چترال پر چڑھائی کا فیصلہ بھی کیا۔ جندول موجودہ دیر اور باجوڑ کے علاقوں پر مشتمل چترال کے جنوب میں واقع پختون ریاست تھی۔ انگریز نہیں چاہتے تھے کہ چترال میں کسی قسم کی خانہ جنگی یا بدامنی ہو جس کا فائدہ روس اُٹھا کر اپنا پسندیدہ حکمران چترال کیلئے منتخب کرے۔ گریٹ گیم کے اس نازک موڑ پر ایک غیر مستحکم چترال انگریزوں کے مفادات کے خلاف تھا۔گلگت کے پولیٹیکل ایجنٹ میجر رابرٹسن نے گلگت سے عمرا خان کو ایسی کوئی حرکت نہ کرنے کی تنبیہ کرکے خط لکھا مگر تیر کماں سے نکل چکا تھا ۔ نتیجتاً جنوب سے عمرا خان چترال کی طرف روانہ ہوئے تو تو شمال سے میجر رابرٹسن بھی مقابلے کیلئے روانہ ہوئے ۔ چترال کی زبانی روایات کے مطابق عمرا خان، شیر افضل اور مہتر امیر الملک ایک ہی مقصد کیلئے تگ و دو کر رہے تھے اور وہ تھا شیر افضل کے پہنچنے پر عنانِ اقتدار ان کے حوالے کرنا۔
رابرٹسن ان حالات کی وجہ سے گلگت سے یکم فروری کو چترال پہنچتے ہیں اور ۹ فروری کو پتہ چلتا ہے کہ شیر افضل اور عمرا خان نے مل کر چترال کے جنوبی قصبے دروش میں واقع قلعہ ِپر قبضہ کیا ہے۔ میجر رابرٹسن چترال کی تخت سے امیرالملک کو ہٹا کر امان الملک کے چھوٹے فرزند شجاع الملک کو مہترِ چترال قرار دے دیتا ہے جس کی عمر اُس وقت صرف 12 سال تھی۔ اس دوران شیر افضل اور عمرا خان کی فوجوں کو چترال شہر پہنچنے سے روکنے کیلئے گہریت کے مقام پر اُن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے مگر وہاں سے ناکامی کے بعد 3 مارچ کو چترال شہر میں فرنگیوں اور شیر افضل و عمرا خان کی فوجوں کے درمیان شدید جنگ چھڑ جاتی ہے۔ بہرحال 3 مارچ کی جنگ انگریزوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ۔ انگریزی فوج میں شامل کشمیری اور گورکھا سپاہیوں کو بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا اور شام تک میدانِ جنگ سے ان کے پاؤں اُکھڑ گئے۔ ایک فرنگی افسر جون بیرڈ زخمی ہوکر اگلے دن وفات پاتے ہیں جبکہ دوسرا افسر والٹر کیمبل زخمی ہوتا ہے۔
میدانِ جنگ سے بھاگ کر انگریزی فوج قلعہِ چترال کے اندر محصور ہوتی ہے جو تاریخ میں "محاصرہ ِچترال” کے نام سے مشہور ہے۔ انگریز حکام اور نومنتخب مہتر ِچترال شجاع الملک 3 مارچ سے 18 اپریل تک قلعے میں محصور رہتے ہیں۔ جبکہ باہر شیر افضل اور عمرا خان کے سپاہی دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ مستوج سے مدد کے لیے آنے والے دو انگریزوں (ایڈورڈ اور فولر) کو شیر افضل کے حامی ریشن کے مقام پر پولو میچ کھیلنے کے بہانے دعوت دے کر پکڑ کر قید کرتے ہیں جبکہ انہیں چھڑانے کے لیے آنے والے کیپٹن روز اور اُن کے 43 سپاہی کوراغ اور زئیت کے درمیان ایک تنگ گھاٹی "کڑاک” میں دشمن کے ہاتھوں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
قلعے میں محصور فرنگیوں سمیت 550 کے قریب سکھ اور گورکھا فوجیوں کی نظر بندی اور اردگرد فرنگیوں پر بے تحاشا حملوں کی خبر پہنچتے ہی انگریزی سرکار حرکت میں آجاتی ہے اور ۲۲ مارچ کو یعنی محاصرے کے ۱۸/۱۹ دن بعد گلگت میں موجود انگریزی فوج کے سربراہ لیفٹنٹ کرنل جیمز کیلی فوج لے کر براستہِ شندور چترال کی طرف روانہ ہوتا ہے۔
سال کے اس حصے میں 12 ہزار فٹ سے زیادہ اونچے اور برف سے ڈھکے دشوار گزار شندور پاس کو پار کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ چترال کا جغرافیہ فوجی نقل و حمل کیلئے نہایت غیر موزوں ہے۔ ساتھ اجنبی علاقہ اور مقامی آبادی کی ممکنہ مخاصمت کا خطرہ اس مہم کو اور بھی مُشکل بنا دیتا تھا۔ یہ کتاب مذکورہ مہم میں کرنل کیلی کی ریلیف فو ج کے اسٹاف افسر لیفٹننٹ ڈبلیو جی ایل بینین نے اس مہم پر اپنی یاداشتوں پر مبنی ایک کتاب "وِتھ کیلی ٹو چترال” بھی لکھی جو 1896 میں لندن سے شائع ہوئی۔ چترال کی تاریخ کا یہ باب اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے چترال کے بعد کے سیاسی اور انتظامی حیثیت پر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔
چترال کی تاریخ کا یہ باب اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے چترال کے بعد کے سیاسی اور انتظامی حیثیت پر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔
انگریزوں اور روسیوں کے بیچ گریٹ گیم کا اختتام اُنیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں ہوا جب دونوں طاقتوں نے مل کر ایک دوسرے کی سرحدوں سے دور رہنے کے معاہدے کیے اور ساتھ مل کر جرمنی جیسے اُبھرتی ہوئی طاقت کے مقابلے کیلئے کوششوں میں مصروف ہوئے مگر اس کی وجہ سے ہائی ایشیا کی کئی ریاستوں کا سیاسی، جغرافیائی اور انتظامی خدوخال ہمیشہ کیلئے مکمل طور پر بدل گئے۔