Baam-e-Jahan

اگر معیشت کی شرح نمو اتنی اچھی ہے، تو اس کا اثر عام افراد کی جیب پر کیوں نہیں پڑ رہا؟

محمد صہیب بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام


پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ منصوبہ بندی اسد عمر کی جانب سے گذشتہ روز معیشت کی مجموعی پیداوار میں شرح نمو کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ سال 2020-21 میں یہ پانچ اعشاریہ تین سات فیصد سے بڑھی ہے۔

وزیرِ منصوبہ بندی اسد عمر کی جانب سے ایک ٹویٹ میں بتایا گیا کہ سال 2020-21 میں پاکستان کی معیشت کی مجموعی پیداوار میں شرح نمو پانچ اعشاریہ تین سات فیصد رہی جو گذشتہ 14 برسوں کے دوران دوسری سب سے زیادہ شرح ہے۔

ادھر وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے بتایا گیا کہ ‘تین برس میں پانچ اعشاریہ تین سات فیصد کی جی ڈی پی گروتھ جس کے باعث روزگار، فی کس آمدن میں خاطرخواہ اضافہ ہوا، پر میں اپنی حکومت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔’

یہ دوسری مرتبہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے سال 2020/21 میں معیشت کی شرح نمو کو تبدیل کیا گیا ہے۔ پہلے سنہ 2020 کے سالانہ بجٹ میں اس کا ہدف 2.3 فیصد پر رکھا گیا تھا، جس کے بعد اسے 3.9 فیصد کر دیا گیا تھا۔

بی بی سی کے نامہ نگار شجاع ملک سے بات کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے بتایا کہ یہ ریوائزڈ نمبر کنسولیڈیٹڈ اور حقیقی اعداد و شمار پر مبنی ہوتا ہے جبکہ اکانامک سروے آف پاکستان جب آتا ہے تو عام طور پر مالی سال کے مارچ تک کے اعداد و شمار پر مبنی ہوتا ہے۔

‘میں اس کی آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ ایل ایس ایم جب آیا تھا مارچ میں تو سات فیصد رپورٹ کیا گیا مگر جون میں کل سال کے اعداد و شمار ملا کر یہ 15 فیصد تک پہنچ گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس سے پچھلے سال کورونا کی وجہ سے نمبر کافی کم تھا تو اپریل، مئی اور جون میں (گذشتہ سال کے مقابلے میں) کافی زیادہ شرح سامنے آگئی۔‘

اپنی ٹوئیٹ میں اسد عمر نے بھی شرح نمو کے ریوائزڈ نمبر میں اتنے بڑے اضافے کے بارے میں کہا تھا کہ یہ اپریل سے جون کے درمیان تیز صنعتی ترقی کی وجہ سے آیا ہے۔

گذشتہ سال کے اعداد و شمار کو مکمل طور پر جمع کرنے کے بعد شرح نمو 5.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے مگر حکومت نے معاشی اعداد و شمار کے حوالے سے ایک اور اہم اقدام اٹھایا ہے۔

حکومت کی جانب سے معیشت کی ‘ری بیسنگ’ کی گئی ہے جس کی منظوری نیشنل اکاؤنٹس کیمٹی کے اجلاس میں دی گئی۔ اس حوالے نیشنل اکاؤنٹس کیمٹی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق نئی بیس لائن کے بعد پاکستان کی مجموعی معاشی پیداوار کا حجم 346.76 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ جبکہ فی کس سالانہ آمدن 1666 ڈالر ہو گئی ہے۔

‘ری بیسنگ’ کا مطلب یہ ہے کہ معیشت کی شرح نمو کی جانچ کے لیے ریفرنس کے طور پر استعمال ہونے والا سال 2005/06 سے تبدیل کر کے 2015/16 کر دیا گیا ہے۔

اعلامیے کے مطابق اگر ری بیسنگ کے بعد حساب لگایا جائے تو 2020-21 میں شرحِ نمو 5.57 فیصد ہو جاتی ہے۔

تاہم مجموعی پیداوار کی اچھی شرح نمو اور بہتر فی کس آمدن کے اعداد و شمار کے باوجود کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں عام عوام کی جیب پر اس کا اثر دیکھنے میں نہیں آ رہا۔

اس حوالے سے معاشی ماہرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ معیشت کی شرح نمو میں اضافے کا فائدہ عام آدمی کو کیوں نہیں ہو رہا، اور بڑھتی مہنگائی کا اس میں کیا کردار ہے؟

پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں مہنگائی کی سالانہ شرح میں 12.3 فیصد اضافہ ہوا۔ دسمبر 2021 میں مہنگائی کی شرح اس سے پچھلے سال اسی ماہ کے مقابلے میں 12.3 فیصد بڑھی۔

پاکستان کے اقتصادی سروے رپورٹ میں بیروزگاری کی شرح کے اعداد و شمار نہیں دیے گئے تاہم یہ ضرور کہا گیا ہے کہ ملک میں بیروزگاری بڑھی ہے۔ جبکہ عالمی بینک کے پاس موجود جون 2020 تک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 4.65 فیصد ہے۔

’عام افراد کے لیے جی ڈی پی کا یہ نمبر اتنے معنی نہیں رکھتا‘
مجموعی پیداوار یا جی ڈی پی دراصل وہ اشیا یا سروسز ہیں جو ایک ملک میں ایک سال میں مارکیٹ ایکٹویٹی کی وجہ سے پیدا کی جاتی ہیں۔

امریکہ کے فرینکلن اور مارشل کالج میں معاشیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر دانش خان کا کہنا ہے کہ ’جی ڈی پی ویسے بھی معیشت کی نمو کو جانچنے یا پرکھنے کا ایسا اشاریہ ہے جس میں بہت ساری کمیاں موجود ہیں۔‘

’مثال کے طور پر، عدم مساوات کو جی ڈی پی میں نہیں نظر آتی، یہ عین ممکن ہے کہ دولت اور آمدنی کی ناہمواری معیشت میں موجود ہو لیکن وہ جی ڈی پی میں نہیں دکھائی جائے گی۔‘

اس حوالے سے معیشت کے ماہرین بارہا بحث بھی کر چکے ہیں، اور اس بارے میں چانچ کے نئے طریقے جیسے ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس یا او ای سی ڈی انڈیکس وغیرہ متعارف کروا چکے ہیں۔

ان کے مطابق ’اگر معیشت کی شرح نمو میں اضافے کی بات کی جائے تو عمومی طور پر یہ وسیع تر تناظر میں دو وجوہات کی بنا پر بڑھتا ہے، یا تو سرمایہ داروں کے منافع کی شرح میں اضافہ ہو رہا، یا پھر جو تنخواہ دار طبقہ ہے اس کی آمدن میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

’اب یہ دونوں عمل اگر پاکستان کی معیشت کے حساب سے دیکھیں، تو منافع بڑھنے کا ریٹ تنخواہیں بڑھنے سے زیادہ نظر آتا ہے جس کے نتیجے میں معیشت میں ترقی کے فوائد امیر اور سرمایہ دار طبقے کو جاتے ہیں اور یہ عام لوگوں تک نہیں پہنچتے۔ یہی وجہ ہے کہ عام افراد کے لیے جی ڈی پی کا یہ نمبر اتنا معنی نہیں رکھتا۔‘

یونیورسٹی آف پینسلوینیا سے ڈیولپمنٹ اکنامکس میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے والی ڈاکٹر عاسمہ حیدر آج کل آئی بی اے یونیورسٹی میں سوشل سائنسز اینڈ اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کی ڈین کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر عاسمہ بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ جی ڈی پی کا تعین کیسے کیا جاتا ہے دراصل یہ بہت اہم ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’معیشت کی شرح نمو کا ایک بڑا حصہ پبلک سیکٹر کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری دکھاتا ہے جن میں روڈ بنانا، ڈیم بنانا وغیرہ شامل ہوتے ہیں، اس میں صرف اشیا اور سروسز کی پیداوار ہی شامل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں اضافے کا خاطر خواہ اثر عام آدمی پر نہیں پڑتا۔‘
جی ڈی پی کی جانچ کے لیے ایک ‘بیس ایئر’ یعنی ایک ریفرنس بنانے کے لیے کوئی ایک سال رکھا جاتا ہے جیسے گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں سال 2005/06 کو ریفرنس بنایا گیا تھا۔ گذشتہ روز اسے تبدیل کرے یعنی ‘ری بیس’ کر کے 2015/16 کر دیا گیا ہے۔

یعنی پہلے جتنے بھی معاشی اشاریے لیے جاتے تھے ان میں قیمتوں کا بیس ایئر سال 2005/06 تھا۔

ڈاکٹر عاسمہ کے مطابق کہ ‘معیشت کو 10 سے 15 سال بعد ری بیس کرنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا کیونکہ آپ نئے اندازے لگانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ سال 2015/16 کو بیس ایئر رکھنا ایک برا آپشن نہیں ہے کیونکہ یہ ایک خاصا مستحکم سال تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ری بیسنگ اس لیے بھی اہم ہوتی ہے کیونکہ مارکیٹ میں نئے سیکٹر داخل ہوتے ہیں اور کچھ سیکٹرز کی تعریف وقت کے ساتھ تبدیل ہو جاتی ہے۔‘

ڈاکٹر دانش کے مطابق یہ ایک عام روٹین ہے جو دنیا کے ہر ملک میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’عام طور پر ہر پانچ سال سے دس سال بعد ہوتی ہے اور اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ کے معاشی اشاریے خاص طور پر قیمتوں کے انڈیکس اپ ڈیٹ ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن اسے آپ اعداد و شمار کی رپورٹنگ کے لیے کی گئی پریکٹس قرار دیں گے، یعنی اس سے گراؤنڈ پر کوئی تبدیلی نہیں آئی، صرف رپورٹنگ میں تبدیلی ہوئی ہے۔‘

’پاکستان کی معاشی صورتحال خاصی گھمبیر ہے، اور اس ری بیسنگ کے باعث اگر حکومت جشن منا رہی ہے، تو اس میں جشن منانے کی کوئی بات نہیں ہے۔‘

ڈاکٹر عاصم سجاد قائداعظم یونیورسٹی میں اسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور وہاں پولیٹیکل اکانومی پڑھاتے ہیں۔ وہ بائیں بازو کی جماعت عوامی ورکرز پارٹی سے بھی منسلک ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘ہمارے تجربے کے مطابق تو یہ اعداد و شمار کا ہیر پھیر ہے اور کچھ نہیں۔’

‘مالدار طبقے کے لیے تو معیشت اچھی جا رہی ہے، لیکن عام آدمی کے لیے اس کے اثرات وہی رہیں گے جو ہیں۔’مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے کے ساتھ شرح نمو میں بھی اضافہ کیوں؟
ڈاکٹر دانش کے مطابق جب معیشت کی شرح نمو زیادہ ہوتی ہے تو اس سے مہنگائی میں اضافہ ضرور دیکھنے میں آتا ہے۔ عام طور پر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب شرح نمو زیادہ ہوتی ہے تو لوگوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے، اور جب ایسا ہوتا ہے تو ان کی قوتِ خرید بھی بڑھتی ہے اور جب یہ ہوتا ہے، تو اشیا اور سروسز کی ڈیمانڈ بھی بڑھتی ہے اور جب ڈیمانڈ سپلائی کے اعتبار سے زیادہ ہو، تو قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسے ڈیمانڈ پُل انفلیشن، یعنی ڈیمانڈ بڑھنے کے باعث مہنگائی میں اضافہ کہا جاتا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور لوگوں کی آمدن میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ اس لیے میرے نزدیک موجودہ مہنگائی کو ’ڈیمانڈ پل انفلیشن‘ کی بجائے ’کاسٹ پش انفلیشن‘ کہنا بہتر ہو گا یعنی بزنس قیمتیں بڑھا رہے ہیں، جو ممکنہ طور ان کی جانب سے بنائی گئی اشیا کی پیداوار استعمال ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر عاسمہ کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی ایک وجہ لاک ڈاؤن کا خاتمہ اور معیشت کے مکمل طور پر دوبارہ کھلنے کے بعد کھپت میں اضافہ بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اشیا خوردونوش کے علاوہ دیگر اشیا بھی شامل ہیں اور پروڈکشن سیکٹر فی الحال سست کام کر رہا ہے اس لیے ڈیمانڈ میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔‘

ڈاکٹر دانش کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان کی معیشت ’اوور ہیٹنگ‘ کا شکار ہو رہی ہے اس لیے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا امریکہ یا دیگر معیشتوں میں تو دیکھنے میں آتا ہے کہ شرح نمو اتنی زیادہ ہو گئی ہے، روزگار کے مواقع زیادہ ہیں اور قوتِ خرید بڑھ گئی جس سے مہنگائی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور پیداواری صلاحیت اسے پورا نہیں کر پا رہی۔‘
اس حوالے سے ٹرکل ڈاؤن اکانومی کی اصطلاح کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی مالدار طبقے کو مراعات فراہم کرنا اور اس طرح آپ معیشت کی شرح نمو میں اضافہ لا سکتے ہیں اور وہ جو مال بنائیں گے اس کا ایک حصہ نچلے طبقے تک آئے گا، اور روزگار کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔

ڈاکٹر عاصم سجاد کہتے ہیں کہ معاشی پالیسی عام طور پر سرمایہ داروں کی طرف داری کرتی ہے، یا وہ لوگ جو پہلے سے ہی نسباتاً مالدار ہیں ان کے لیے تو سب اچھا ہے، وہ نسباتاً اقلیت ہے باقی معیشت میں روزگار کی فراہمیں اور صحت اور تعلیم کے لیے گارنٹیاں تو موجود ہیں نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ٹرکل ڈاؤن اکانومی کے حوالے سے ایوب خان کے زمانے میں پہلی بار بات کی گئی تھی، لیکن 60 سال سے انتظار کر رہے ہیں کہ کچھ ٹرکل ڈاؤن کرے اور اس کی چند ایک مثالیں بھی ملتی ہیں لیکن اکثریت کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

’پچھلے ایک سال کے تو اعداد و شمار خاصے واضح ہیں کہ مہنگائی بہت زیادہ ہے، اور یہ سب بیروزگاری میں اضافے کے ساتھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ تو جب آپ کی پالیسیاں امیروں کو فائدہ دینے کے لیے ہوں گی، تو ان کے اثرات ہمیں اب دکھائی دے رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر دانش کہتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی کی وجہ جہاں کرنسی کی قدر میں کمی اور مقامی طور پر پیداواری صلاحیت محدود ہونا ہیں، وہیں اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں وسائل کی تقسیم ہو رہی ہے، یعنی غریب کی جیب سے پیسا امیر کے پاس جا رہاہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’امریکہ میں اگر مہنگائی بڑھتی ہے تو تنخواہ میں اضافہ بھی دیکھنے میں آتا ہے لیکن پاکستان میں یہ بہت محدود پیمانے پر کیا جاتا ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں