Baam-e-Jahan

آخری قہقہہ کس کا؟

عاصمہ شیرازی


کیا خوف کا شکار شخص کبھی یہ کہے گا کہ وہ خوفزدہ ہے؟ نہیں بلکہ وہ اور اونچی آوازیں لگائے گا، چلائے گا تاکہ اُس کے اندر کا خوف دب جائے۔

ہاری ہوئی جنگ کے سپاہی اپنی ناکامی کی ذمہ داری کبھی دشمن توپوں اور کبھی دشمن کی پیش قدمی کی حکمت عملی پر عائد کرتے ہیں۔ جب شکست کا خوف پہلے حملہ کرنے پر مجبور کر دے تو دشمن کو آدھی نفسیاتی کامیابی حاصل ہو جاتی ہے اور اگر حریف اپنے تمام تیر ایک دم آزما لے تو ترکش جلد خالی ہو جاتا ہے۔

کچھ یہی حال تبدیلی کے ان ساڑھے تین سالوں میں احتساب کے اُس بیانیے کا ہوا ہے جس کی پنیری 22 برسوں میں تیار ہوئی مگر پذیرائی اُسی وقت حاصل ہوئی جب محکمۂ زراعت نے مناسب آب و ہوا اور کھاد کا بندوبست کیا۔

بہرحال عظیم مملکت کے واحد صادق اور امین رہنما کو عوام کے 70 برسوں کے خوابوں کا محور بنا کر یوں پیش کیا گیا کہ گویا یہ مسیحا قوم کے ہر زخم پر مرہم رکھے گا۔ کوئی نہ جانتا تھا کہ محض تین برسوں میں 22 سالہ ’جدوجہد‘ کی کہانی میں یہ موڑ بھی آئے گا جو کپتان کے اس وقت سامنے ہے۔

احتساب کے بیانیے کا بھاؤ بھی بہت اور چاؤ بھی بہت۔ میڈیا کی آنکھوں کے تارے راج دلارے جناب کپتان کے ہر موضوع پر بیانات اور فصیحانہ انقلابی نظریات نے میڈیا کے ساتھ ساتھ دانشوروں کو بھی کسی حد تک سحر زدہ کر رکھا تھا۔

طالبان سے محبت کی پینگوں اور اپنی واحد صوبائی حکومت خیبر پختونخوا میں اُنھیں دفاتر قائم کر کے دینے سے لے کر نوجوانوں کے روشن مستقبل کی امیدوں تک۔۔۔ متضاد خوابوں کی وہ دکان سجائی گئی جہاں قیمت محض آنکھیں تھیں۔

خوابوں کے اس سفر میں نوجوان ہمسفر تھے اور کچھ ابھی بھی ہوں گے مگر تعبیریں چھن جانے کا خوف اور اندیشے اُس سے کہیں زیادہ ہیں۔

احتساب کا بیانیہ چور، ڈاکو اور لٹیروں کی صداؤں میں تراشا گیا، ہر کسی کو ایک ہی ترازو میں تولا گیا تاکہ سیاست دانوں اور سیاسی نظام سے نفرت کا انتقام نظام سے لیا جائے۔ احتساب کا بیانیہ، کبھی چین کی طرح پھانسی گھاٹ پر لٹکتے بدعنوانوں، کبھی ایران کے خونی انقلاب، کبھی سعودی عرب کے بدعنوانی کے خلاف سفاکانہ نظام اور کبھی ملائیشیا اور ترکی کی مثالوں کو کارآمد بنا کر پیش کیا گیا۔

نہیں آزمایا گیا تو صرف انصاف، آئین اور جمہوریت کا نظام۔
گذشتہ ساڑھے تین برسوں کے سینکڑوں شب و روز میں صرف وعدے گنے جائیں تو گنتی بھول جائیں مگر وزیراعظم اور اُن کی کابینہ ہر روز جس نئے جذبے کے ساتھ عوام کے سامنے آتے ہیں اُن کے اعتماد کی بہرحال داد تو بنتی ہے۔

احتساب کا بیانیہ جس طرح پایہ ناکامی تک پہنچا ہے اُس پر فقط آہ ہی بھری جا سکتی ہے۔ شکوہ کس سے کیا جائے کہ جن کے سر لانے کا الزام ہے وہ بھی اب دھمکیوں کی زد میں ہیں۔ خوف کے ماحول میں خوف ہی کو ہتھیار بنایا گیا ہے اور اعصاب کی یہ جنگ بہر حال ہر شے داؤ پر لگانے والا ہی جیتتا ہے۔

کپتان کھیل کے اس حصے میں اعصاب کا داؤ آزما رہا ہے جبکہ کھیل کے اس گُر سے انھیں لانے والے بھی واقف نہیں۔ ابھی گذشتہ خطاب میں وزیراعظم نے جس اعتماد سے ’اگر مجھے نکالا‘ کے نتائج سے آگاہ کیا اُسے ہلکا مت لیں۔ آخری قہقہہ کس کا ہو گا یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے