فرنود عالم
حضرت عثمانؓ کے دور میں خوارج پیدا ہوگئے۔ خوارج پہ جرائم پیشہ گروہ کا گمان گزرتا ہے۔ یہ تاریخ کے الہامی ذوق کا شاخسانہ ہے۔ معاملہ برعکس تھا۔ تقوی طہارت میں خوارج مثالی تھے۔ زہد واطاعت میں باقی صحابہ سے بہت آگے۔ ان کی تحریک کی بنیاد وہی تھی جو آج ہم بھگت رہے ہیں۔ کہتے تھے کہ عثمانؓ کے دور میں عمرؓ والی بات نہیں۔ اقربا پروری ہے اور ناانصافی۔ اللہ اور اس کے رسول کے رستے سے عثمانؓ نے سرمو انحراف کررکھا ہے۔ حضرت علیؓ کا دور آیا۔ کہنے لگے علیؓ کے دور میں تو عثمانؓوالی بات بھی نہیں۔ معاویہ کا دور آیا۔ لوجی یہ دور تو علیؓ کے دور سے بھی گیا گزرا ہے۔ اندازہ کریں کہ خلفائے راشدین کا دور اپنے وسط میں ہے، اور سوال اٹھ گئے۔ سوال بھی کیا؟ وہی جو آج بھی موجود ہیں۔ اس کمکشِ دہر میں خواج عثمانؓ سے بھڑ گئے۔ مدینے کا محاصرہ ہوگیا۔ املاک پہ قابض ہوگئے۔ خلافت چھوڑنے کا مطالبہ ہوگیا۔ مطالبہ مسترد ہوگیا۔ حضرت عثمانؓ گھر میں محصور ہوگئے۔ چالیس دن بھوکے پیاسے رہے۔ اکتالیسویں دن قتل کردیئے گئے۔ شہر میں ہو کا عالم۔ جنازے میں بمشکل تین سے پانچ لوگ شرکت کر پائے۔ جنازہ گزرا تو پتھراو¿ ہوا۔امیر معاویہؓ حضرت علیؓ سے الجھ گئے۔ الجھے تو الجھتے ہی چلے گئے۔ پینتالیس ہزار انسانوں کا خون اپنے ہاتھوں بہہ گیا۔ حضرت علیؓ کے دور میں تحریک نے زور پکڑا۔ سر عام خلیفہ کے قتل کے اعلانات ہوتے رہے۔ علیؓ فدائی حملے میں قتل کردیئے گئے۔ لاش غائب کر دی گئی۔ حضرت حسنؓ سوا سال میں ہی تھک ہار گئے۔ خلافت حضرت امیر معاویہؓ کو دے گئے۔ حضرت حسنؓ کے گھر پہ شب خون مارا گیا۔ قتل کردیے گئے۔ یزید تخت نشین ہوا۔ مدینہ پہ چڑھائی کردی گئی۔ تین دن مدینے میں کرفیو رہا۔ گلیاں خون میں رنگ گئیں۔ رات اندھیرے دن دیہاڑے لوٹ مار ہوئی۔ حضرت حسینؓ یزید کے درپے ہوگئے۔ کربلا پہنچ گئے۔ بہتر بزرگ خواتین بچے یہاں ذبح ہوگئے۔ خیمے جلا دیئے گئے۔ حضرت حسینؓ کا سر نیزے پہ رکھ کر فتح کا جشن منایا گیا۔ بنو امیہ کی حکمرانی شروع ہوگئی ہے۔ عبداللہ ابن زبیر جیسے پائے کے لوگ سر عام قتل کئے گئے۔ لاش مدینے کے دروازے پہ لٹکا دی گئی۔
منبر و محراب سے ریاست کے حکم پہ حضرت علیؓ کے لئے دشنام انگیز خطبے کہے گئے۔ بادشاہوں کے حرم میں وجود زن سے رنگ بھرنے کی روایت اسی دور کی عنایت ہے۔ غلاموں کی منڈیاں لگیں۔ لونڈیوں کی بولیاں لگیں۔ انسانوں کی تجارت نے ہر تجارت کو مات دیدی۔ بنو امیہ کا سورج علم و ہنر، معیشت ، دفاع ، عیاشی، فحاشی، خون کی ارزانی اور بالآخر بے حسی دیکھتا ہوا بنوعباس کی نیام میں خونم خون غروب ہوگیا۔ بنو عباس نے پہلے جھٹکے میں پانچ لاکھ گردنیں اتاردیں۔ دمشق میں بنو امیہ کا بچہ بچہ خون میں تڑپ گیا۔ خلیفہ دوم منصور نے اپنے بھائی کی گردن مار دی۔ ہارون الرشید نے نیک نامی کمائی۔ بہت صالح انسان تھے اسی لیئے تنقید گوارا نہیں فرماتے تھے۔ مخالفین پہ عرصہ حیات تنگ رکھا۔ جس پہ عالم ہونے کا گمان گزرتا اپنے دربار کا دربان بنا لیتے۔ بہت منصف مزاج تھے۔ اسی لیئے اقتدار دو بیٹوں میں برابر برابر بانٹ دیا۔ دونوں بیٹوں کے لیئے باپ رول ماڈل تھا۔ چنانچہ دونوں اللہ واسطے باہم دست و گریبان رہے۔ برسوں انسان کے خون سے ہاتھ رنگتے رہے۔ امین الرشید مارا گیا۔ مامون الرشید غالب آگیا۔ شک نہیں کہ ہارون الرشید علم دوست تھا۔ مامون الرشید بھی۔ اس کے بعد کے کچھ حکمران بھی۔ امام ابوحنیفہؒ مالکؒ و حنبلؒ اور امام بخاریؒ اسی عہد کی نشانیاں ہیں۔ ابن ہیثم ، فارابی اور بو علی سینا جیسے جید علما اسی زمانے کی یادگار ہیں۔ علم دوستی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ابن حنبل اپنی علمی رائے سے دستبردار ہونے پہ مجبور کئے گئے۔ ابن حنبل قائم رہے۔ نتیجے میں گدھے پہ الٹے بٹھائے گئے۔ منہ کالا کرکے شہر بھر کا چکر لگوایا گیا۔ عباسیوں کے دربار میں یومیہ بنیا دوں پہ کوڑے مارے گئے۔ امام ابوحنیفہ کو پابند سلاسل کیا گیا۔۔ وہیں سے ان جنازہ اٹھا گیا۔ علمائے کرام ومشائخ عظام کی اکثریت نے شاہ کی قبا کو خدا کی رسی سمجھ کر مضبوطی سے تھامے رکھا۔ اسی لیئے ابوحنیفہ جیسوں کو جھٹلادیا۔ شرق و غرب میں ایک ہی افواہ کہ موصوف دین میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔ افواہ سازیاں بڑوں بڑوں کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ امام باقر تک نے کہہ دیا ابو حنیفہ میرے نانا کا دین بگاڑ رہا ہے۔ امام شافعی کوتو خیر خود ساختہ جلاوطنی جھیلنی پڑگئی۔ ابین ہیثم جیسے نابغے عزت بچاتے پھرتے رہے۔
عباسی بنی اسرائیل کی طرح بہتر قبیلوں میں بٹنا شروع ہوگئے۔ فرقہ واریت ساتویں آسمان سے جا لگی۔ کفریہ فتووں کی باقاعدہ صنعتیں اسی دور میں لگیں۔ تہمت کا روحانی آرٹ بھی اسی دورمیں فروغ پایا۔ وہ دیکھیں عراقی اور حبشی لڑ گئے۔ زیادہ نہیں بس پچیس لاکھ انسان ایک دوسرے پہ جان وار گئے۔ منبر و دستار اور تاج وتخت ٹھنڈے پیٹوں زوال کی طرف گامزن ہیں۔ ہلاکو خان کی داڑھ گرم ہوگئی۔ منگول بغداد پہ چڑھ دوڑے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ معتصم باللہ کو معمر قذافی کی طرح ایک غار سے کھینچ کر نکالا گیا۔ گائے کی کھال میں لپیٹ کر ڈنڈوں سے قتل کردیا گیا۔ علمی ذخیرے کو دجلہ و فرات بہا لے گئے۔ دانشکدوں میں ویرانیاں بولنے لگیں۔ مسلمانوں کے سر ہیں اور گھوڑوں کی ٹاپیں۔ بے رحموں کے نیزے ہیں اور علما و مشائخ کے سینے۔ جبہ ودستار نوحہ خواں۔ منبر ومحراب خاموش۔ مدرسے ومکتب گم سم۔ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ خلافت عباسیہ لاکھوں کا خون لے کراور لاکھوں کا خون دیکر تاریخ کے حوالے ہوگئی۔
محمود غزنوی کا دور آگیا۔ سومنات کے بت والے بھائی صاحب۔ موصوف اکثر وبیشتر مسلمانوں سے لڑتے پائے گئے۔ غنائم پہ ہاتھ صاف کیئے اور مجاہد قرار پائے۔ اسلامی تعلیمات کے برعکس سومنات کے مندر پہ حملہ آور رہے اور بت شکن قرار پائے۔ غضب یہ ہوا کہ اس خلافِ شرع اقدام کو علامہ اقبال جیسے حکیم الامت نے سراہا۔ محمود نے ایاز کو ساتھ بٹھایا تو محمود کو خدا کے ساتھ بٹھا دیا۔ علاﺅالدین کو دیکھیں کیا کر رہے ہیں۔ سرکار نے تو ماشاللہ غزنی شہر کو ہی آگ لگا دی۔ سات دن تک جم کر قتل عام کیا۔ بستیاں زمین کے ساتھ بالکل ہموار کر دیں۔ ادھر دیکھیں صلیبی جنگیں شروع ہوگئی ہیں۔ صلاح الدین ایوبی اور لوائین ہارٹ کی سینگیں اڑ گئیں۔ صلاح الدین ایوبی کمال حکمران تھے۔ مدبر اصول پسند ذہین اور چالاک۔ تنہا لشکر کے مقابل نکلے اور فتح یاب ہوئے۔ آپس کی بات ہے کہ میرے پسندیدہ سالار ہیں۔ سادہ طبعیت تھے۔ سادگی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جاتے جاتے اقتدار تین بیٹوں کو دے گئے۔ اس بندر بانٹ سے فساد فی سبیل اللہ کی جو نئی راہیں کھلیں وہ تاریخ ہے۔ آج تو ہیرو لوگ زیر قلم آگئے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی سے طارق بن زیاد آگئے ہیں۔ طارق بن زیاد سے اسپین یاد آرہا ہے۔ وہی طب و سائنس اور صنعت و حرفت میں ترقی کرنے والا اسپین۔ علمی عروج کا زمانہ۔ اب تھے تو آخر کو مسلمان ہی، چنانچہ خلفائے کرام ہسپانوی سانڈ کی طرح ایک دوسرے کو دوڑانے لگے۔ باہم دست وگریبان ہوگئے۔ گریبان کا ایک ایک تارغرناطہ کی گلیوں میں بکھرا ہوا ملا۔ سمیٹنے کیلئے مسیحی فوجیں پہنچیں۔ پچیس لاکھ مسلمان جلا وطن ہوئے۔ بڑی تعداد جان کے خوف سے مشرف بہ مسیحت ہوگئی۔ مسلمانوں کا عروج بال بکھیرے ماتم کرتا ہوا مسجدِ قرطبہ کے منبر و محراب کے پیچھے کہیں فنا ہوگیا۔
ہاتھ روکنا چاہتا ہوں مگر ہیرو پہ ہیرو یاد آتے چلے آرہے ہیں۔ ایک ہیرو تیمور بھی ہیں۔ ہیرو کیوں نہ ہو۔ دہلی و میرٹھ میں لاکھوں ہندوﺅں کا قتل عام جو کیا۔ مزے کی بات سنیں۔ تیمور کے اجداد نے جب بغداد کو ادھیڑا تو ہلاکو خان کو سفاک کا لقب ملا۔ سفاکوں کے اس سلسلے نے اسلام قبول کرنے کے بعد جب سلطنت عثمانیہ کے پانچ ہزار انسان زندہ دفن کئے اور دمشق میں لاکھوں انسانون کا قتل عام کیاتو ہیرو قرار پائے۔ سلطنت عثمانیہ سے یاد آیا ایک سلطان محمد فاتح بھی تو ہوا کرتے تھے۔ درخشندہ ستارہ۔ اس ستارے نے اصول وضع کیا کہ جو برسراقتدار آئے وہ اپنے بھائیوں کو قتل کردے۔ بھائیوں کے قتل سے اورنگزیب عالمگیر یاد آگئے۔ وہی اپنے فتاوی عالمگیری والے۔ والد بزرگوار شاہجہان عالی مقام کو قید میں رکھا۔ عمر بھر بھائیوں سے معرکہ آرائی میں رہے۔ سب بھائیوں کو قتل کر کے سلطنت تین بیٹوں میں بانٹ دی۔ تینوں بیٹے بزرگوں کے نقش قدم پہ رہے۔ لڑتے رہے مرتے رہے۔ بہادر شاہ غالب آگیا۔ باقی دو تلوار کو پیارے ہوگئے۔ اورنگ زیب کی رعایا پروری اور دیانت پہ تو خیر کیا سوال۔ پختہ حاجی پکے نمازی۔ ابن انشا کا جملہ یاد آیا کہ موصوف دین و دنیا دونوں پہ نظر رکھتے تھے۔ عمر بھر نہ کوئی نماز چھوڑی نہ کوئی بھائی چھوڑا۔ ابن انشا کچھ بھی کہیں یہ بات ماننے والی ہے کہ وہ سلیم الطبع واقع ہوئے تھے۔
سلیم الطبع سے یاد آیا کہ سلطنت عثمانیہ میں ایک سلیم اول بھی تو ہوا کرتے تھے۔ وہی جو کئی بھائیوں اور بیٹوں کے قتل کے بعد اقتدار تک پہنچائے گئے۔ ان کے جذبہ جہاد نے انہیں باقاعدہ مسلم ریاستوں کی طرف متوجہ کردیا۔ اقبال نے کہا تھا کہ مصرو وحجاز سے گزر تو موصوف نے پہلے جھٹکے میں مصر و حجاز ہی فتح کر ڈالا۔ خانہ کعبہ پہ جھنڈا گاڑ دیا۔ سلطنت عثمانیہ بفضل الہی کو اب پیار سے خلافت عثمانیہ پکارا جانے لگا۔ سلیم کو جدت کی سوجھی تو شیخ الاسلام کے ایک فتوے نے اس کی جان لے لی۔ پھر سلطان عبدالحمید لوگوں کی تو کیا سناؤں۔ بے حکمتی وبے بصیرتی کا ایک مثالی دور۔ دربار میں حورم سلطانوں، مہرمہ سلطانوں، نگار کالفاو¿ں اور سنبل آغاو¿ں کی چہل پہل۔ دربار سے باہر بے کسوں کی ریل پیل۔ ایک شیخ الاسلام پالا ہوا تھا جو تہجد گزاری کی گواہیاں دیتا ۔ ایک قاضی رکھا ہوا تھا جو شاہ کے فرمان کو صحیفوں سے تائید مہیا کرتا۔ خود پارلیمنٹ بنا کر آئین دیتا اور خود اسی آئین کے خلاف تحریک اٹھوا دیتا۔ خود ہی اپنے خلاف تحریک چلواتا خود ہی کچل دیتا۔
انیسویں صدی گزرگئی، سلطان گزر گئے۔ بیسویں صدی میں دنیا داخل ہوگئی۔ جنگ عظیم شروع ہے۔ اسلام کے وسیع تر مفاد میں خلفائے اسلام جرمنی کے ساتھ ہولیے۔ جیسے کہ عرب اپنے والے اسلام کے مفاد میں انگریزوں کے ساتھ چلے گئے۔ ادھرجرمنی کا باجا بجا تو اِدھر خلیفے کا بھونپو بھی ٹھنڈا پڑگیا۔ انگریز کا ڈنکا پٹ گیا تو عربوں کا شملہ اٹھ گیا۔ ترکوں کے تسلط سے نکل کر عرب برطانیہ کی طرف کھسکتے گئے۔ عثمانی خلافت کی بے راہ روی نے انہیں باہم دست وگریبان کیا۔ خلفا کے سارے تازیانے ٹھنڈے پڑگئے توغیب کے پردوں سے مصطفی کمال پاشا کا ظہور ہوا۔ عرب بھی پورے خلوص آپس میں ایک دوسرے کا گریبان ناپنے لگ گئے۔ گریبان جب ٹھیک سے ادھڑ گئے تو اندر سے آل سعود کا ایک مقدس سلسلہ برآمد ہوا۔ مصطفی کمال زندیق تھا کیونکہ عربی رسم الخط پہ پابندی لگا دی تھی۔ آل سعود ابھی مقدس ہیں کیونکہ خوبصورت ڈیزائن والے قرآن ہمیں انہی کی بدولت میسر ہیں۔ اس گہما گہمی میں اورمارا ماری میں تاریخ بنتی گئی۔ مسلمان تاریخ کی شاہراہ پہ بے فکری کی بکل مارے بیٹھے رہے۔
ان کا خیال تھا کہ تجربات محض تجربات ہوتے ہیں۔ خدا کو دھوکہ اور انسان کو چکمہ دیتے رہے۔ بدلتی دنیا کے بدلتے سوالات پہ کان نہیں دھرا۔ سترہ صدیاں گزر گئیں۔ مسلم علمائے کرام وخلفائے عظام اتنا سا جواب تک نہ دے سکے کہ اقتدار سے کسی کو رخصت کرنے کا طریقہ کیا ہوگا۔رخصتی کا طریقہ کیا بتاتے، آمد کا قرینہ بھی غلاف کعبہ سے ڈھانپ دیا۔ سوال آخر سوال ہے، اٹھتا ہے تو جواب لے کر ہی قرار پاتا ہے۔ پیشوائیت و پاپائیت سچ کا گلا گھونٹتی رہی اور ا±دھر بے حال مغرب کی دانش انگڑائی لینے لگی۔ وہ سوال جس کا جواب خلفا وعلما دینے پہ آمادہ نہ تھے، اس کا جواب اب مغربی دانش کدوں سے آنے لگا۔ کچھ جوابات خود مسلمانوں کی صفوں سے بھی آئے، مگر عوامی تائید کا فرق باقی رہا۔ مسلمان رعایا مورخ سے مورخ شیخ الاسلام سے شیخ الاسلام قاضی القضاة سے اور قاضی القضاة ظلِ سبحانی سے چمٹے رہے۔ مغرب کی عوام نے البتہ اہل فکر و نظر کی مان کر پیشوائیت کا بت مسمار کر دیا۔ ہم آج بھی پوج رہے ہیں۔ نئی دنیا نے ایک نئے عمرانی معاہدے کا تقاضا کیا تھا۔ ہم نہ دے سکے، تو مغرب بھی نہ دیتا؟