آمنہ مفتی
‘جی فار غریدہ ‘شروع ہوا تو حالات حاضرہ کا ایک باضابطہ سا پروگرام نظر آیا جس میں بڑے مضبوط دلائل کے ساتھ بہت پر مغز گفتگو شروع ہوئی۔
گفتگو کا دور چلا کیا اور پھر یک بیک ساری ریل پٹڑی سمیٹ اکھڑتی چلی گئی اور لگا کہ بات چیت ٹیلی ویژن کی حساس سکرین کی بجائے بے تکلف دوستوں کی ایک محفل میں ہو رہی ہے اور کچھ اس قسم کی گفتگو سنائی دی جسے مہذب لوگ خواتین کے سامنے کرنے سے اجتناب ہی برتتے ہیں مگر خیر یہ گفتگو ہو گئی۔
’جی فار غریدہ‘ ایک ایسا پروگرام ہے جسے میرے خیال میں اتنی مقبولیت حاصل نہیں کہ چند سیکنڈز پر محیط اس ذو معنی گفتگو کو اس وقت زیادہ لوگوں نے سنا ہو۔
مگر اس پروگرام کے بعد جو ہاو ہو مچی اور جس طرح محسن بیگ صاحب کی گرفتاری اور ان کی مزاحمت سامنے آئی اور اس کے بعد مراد سعید صاحب کی پریس کانفرنس سننے کو ملی، سب نے مل کے ’جی فار غریدہ‘ کو ایک ’ہاوس ہولڈ‘ نام بنا دیا۔
سیاست ایک ایسا کھیل ہے کہ اس کے صرف تین اصول ہیں ،تحمل، تحمل اور تحمل۔ دکھ اس بات پر ہے کہ موجودہ قیادت کو اس تحمل کی ’ت‘ کی بھی خبر نہیں۔
ریحام خان صاحبہ کی جس کتاب کا حوالہ دینے سے یہ سارا بکھیڑا مچا وہ کتاب بھی شاید معدودے چند افراد نے پڑھی ہو گی لیکن اس سارے طوفان کے بعد یقینا یہ کتاب بھی وقت کی گرد سے نکل کر دوبارہ لوگوں کی توجہ کے دائرے میں آ گئی۔
صحافیوں سے تحریک انصاف کے وزیروں کی ناراضی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یہ سب صحافیوں سے یکساں نالاں ہیں اور موقع ملنے پر ’گھسن مکی‘ سے بھی کام نکالتے ہیں ورنہ سوشل میڈیا پر گالم گلوچ اور مخالف ٹرینڈ چلانا تو معمول کی بات ہے۔
خیر وہ بادشاہ ہیں ان کی مرضی، صحافی کون ہوتے ہیں مشورہ دینے یا کسی بھی بات کے بیچ بولنے والے۔لیکن صحافیوں کی مثال اس کچھوے کی سی ہے جسے تالاب سوکھنے پر مرغابیاں ایک لکڑی سے لٹکا کے دوسرے تالاب کی طرف لے جا رہی تھیں اور کچھوے کو اپنا منہ اس لکڑی کو پکڑے رکھنے کے لیے کچھ دیر بند رکھنا تھا۔
حکایت کے مطابق نہ وہ کچھوا بولنے سے باز آیا اور روایت کے مطابق صحافی بھی خاموش نہیں رہ سکتے چاہے انھیں نادان کہیں، بکاؤ کہیں یا کوئی بھی اچھا سا لفظ (جو منتخب کرنے میں ہمیں ملکہ حاصل ہے) کہہ کر ان کا منہ بند کرانے کی کوشش کریں۔
ریحام خان صاحبہ کی اس کتاب کو شائع ہوئے بھی تین برس سے زیادہ کی مدت گزر چکی ہے اور اس عرصے میں مخالفین پر الزام تراشی اور گالم گلوچ کے نئے سے نئے انداز متعارف کرائے گئے ہیں۔
وہی انداز گفتگو جس پر محترم وفاقی وزیر سخت برہم ہیں، بلاول کے لیے اپنایا جاتا ہے، خواتین سیاستدانوں، سول سوسائٹی کے اراکین اور صحافیوں پر رکیک حملے کیے جاتے ہیں اور اس کے بعد یہ سوچا جاتا ہے کہ یہ روایات ان تک آتے آتے تبدیل ہو جائیں گی۔
ایسا نہیں ہوتا۔ چند روز قبل بھی محترم وزیر اعظم نے اپوزیشن کے لیڈروں کو رنگ برنگے ناموں سے پکارا۔ ایسے نام گلی محلوں میں لونڈے لپاڑے اور شہدے لفنگے دہرائیں تب بھی اچھے نہیں لگتے کجا ایک محترم عہدے پر بیٹھا شخص یہ زبان استعمال کرے۔
جو ہوا، برا ہوا۔ انگریزی محاورے کے مصداق دو غلط مل کر ایک درست نہیں بناتے لیکن بازاری زبان کو سیاست کی زبان بنانے اور ذومعنی گفتگو کی روایت کو مضبوط کرنے کے بعد اس ’جیک این دی بین سٹاک‘ کی بیل سے ہمیشہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی نہیں ملے گی۔ ایک دن دیو بھی اترے گا۔
مراد سعید صاحب کا ریحام خان صاحبہ کی کتاب کا حوالہ دینے پر ناراض ہونا بجا ہو گا لیکن ایک بات اب بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ جس کتاب کا حوالہ دینے پر وہ اتنے برافروختہ ہوئے اس کتاب کے خلاف پچھلے تین برس میں انھوں نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ خیر ہو گی کوئی مصلحت۔
اب ایسا ہے کہ صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے اور گرفتار کرنے کی بجائے ان کی سنجیدہ آرا پر کان بھی دھرنے چاہیں۔
’جی فار غریدہ‘ میں اس مبینہ طور پر قابل اعتراض گفتگو کے علاوہ جو بات کی گئی وہ واقعی غور طلب ہے۔ جن خواتین و حضرات نے وہ پروگرام نہیں دیکھا، دیکھ لیجیے۔ ایک ٹکڑا نکال کر باقی بہت پر مغز گفتگو ہے۔