اسرارالدین اسرار
دو ممالک کے درمیان متنازعہ علاقوں کا معاملہ ہمیشہ سیاسی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم بعض دفعہ ایسے دیرینہ مسئلوں کے حل کے لئے قانونی و تاریخی دستاویزات یا معاہدوں کا حوالہ ضرور دیا جاتا ہے مگر ایسے مسئلوں کا حل حالات حاضرہ کے تناظر میں ٹیبل ٹاک، خفیہ یا اعلانیہ سازباز، ریفرنڈم اور سیاسی طور پر لو دو کے علاوہ ممکن نہیں ہے۔ کشمیر یا گلگت بلتستان کا مسئلہ تاریخ یا قانون سے زیادہ دور حاضر کی بین القوامی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ اس لئے اس علاقہ کے مسئلے کو موجودہ بین الاقوامی سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھنا زیادہ ضروری ہے۔
وفاق پاکستان نے اس خطہ کو کشمیر کے حوالے سے اپنے روایتی موقف اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں آج تک موجودہ حیثیت میں رکھا تھا لیکن بدلتے ہوئے عالمی حالات کے پیش نظر وفاق چاہتا ہے کہ اب گلگت بلتستان کو موجودہ حیثیت میں رکھنا زیادہ سودمند نہیں اس لئے اس کی ہئیت میں ایسی تبدیلی لانے کی ضروت ہے جس سے گلگت بلتستان وفاق پاکستان سے جڑا رہ سکے۔ جس کے لئے جی بی کو عبوری صوبہ بنانے کے منصوبے پر کام چل رہا ہے۔
پاکستان چار وجوہات کی بنیاد پر اس علاقہ کو عبوری طور پر اپنے آئین کا حصہ بنانا چاہتا ہے ۔ پہلا یہ کہ جی بی پاکستان کے سٹریٙیجکٹ معاملات میں کشمیر سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ اہمیت اس علاقہ کی جغرافیائی خدو خال کی وجہ ہے۔ گلگت بلتستان دنیا کی چار ایٹمی طاقتوں سے بیک وقت زمینی رابطہ کا وسیلہ ہے۔ دوسرا گلگت بلتستان کے لوگ طویل عرصے سے سیاسی محرومیوں کا شکار ہونے کی وجہ سے یہاں سے اٹھنے والی معمولی آوازوں کی باز گشت عالمی فورمز میں سنائے دیتی ہے۔ تیسرا یہ کہ گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وے ہونے کی وجہ سے اس بڑے پراجیکٹ کو عملی جامعہ پہننانے میں اس علاقہ کی متنازعہ حیثیت آڈے آتی ہے جو کہ چین اور پاکستان کی دوستی میں خلل کا باعث بن رہی ہے۔ چوتھا یہ کہ بھارت کی طرف سے اپنے زیر انتظام کشمیر کو اپنے آئین میں ضم کرنے کے بعد گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت سے متعلق زور و شور سے مہم چلا رہا ہے اور بھارت اس علاقہ کو اپنا حصہ ثابت کرنے کی بھرپور کوششیں بھی کر رہا ہے۔
وفاق پاکستان گلگت بلتستان کویکسر اور مستقل اپنا حصہ اس لئے نہیں بنا سکتا کیونکہ اس سے کشمیر کے اوپر پاکستان کا اپنا نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط بیانیہ متاثر ہونے کے علاوہ کشمیر بنے کا پاکستان کا نعرہ چکنا چور ہونے کا خدیشہ ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پاکستان کے دیگر کئ اہم ریاستی و عالمی معاملات ہیں جو محض کشمیر کے نام سے جڑے ہیں لہذا بیک جنبش پاکستان ان تمام طلسماتی تصورات کو ملیامٹ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ پاکستان اس لئے بسیار غورو خوص کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ کوئی ایسا انتظام کیا جائے جس سے مسلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو نقصان بھی نہ پہنچے اور مذکورہ چار مسائل کا ازالہ بھی ہوسکے۔
اس گھمبیر صورتحال میں پاکستان کے پاس گلگت بلتستان کو اپنا عبوری صوبہ بنانے کے علاوہ باقی کوئی آپشن باقی نہیں رہتا ہے۔ جس کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے چھ سالوں سے ہوم ورک کیا جاتا رہا ہے۔ اب یہ آخری مرحلے میں داخل ہونے کے بعد مقامی، ملکی و غیر ملکی میڈیا اور اہم حلقوں میں زیر بحث ہے. بظاہر سیاسی جماعتیں اور آذاد کشمیر کی قیادت اس بات پر راضی ہوگئ ہیں کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنایا جائے مگر بھارت کے زیر انتظام کشمیری قیادت ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی قوم پرست جماعتیں اور پاکستان کی کچھ مذہبی سیاسی جماعتیں عبوری صوبے کی تجویز پر راضی نہیں ہیں۔ اس لئے وفاقی حکومت اس وقت گلگت بلتستان کے مسلہ پر شدید تذبذب کا شکار ہے۔ مگر اسٹیبلشمنٹ نے طے کیا ہے کہ جو بھی ہوگلگت بلتستان کو عبوری صحیح مگر آئین کا لازمی حصہ بناناہے۔ تاکہ اگلے مرحلے میں اس عمل کو مزید تقویت دی جاسکے۔ مستقبل میں کمشیر کی قربانی تو دی جاسکتی ہے لیکن گلگت بلتستان کو ہاتھ سے جانے دینے کے لئے اسٹیبلشمنٹ تیار نہیں ہے۔
اسٹیبلشمنٹ اس مقصد کے لئے پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کو رام کرنے کے لئے موجودہ وفاقی حکومت کی قربانی دینے کے لئے بھی تیار ہے کیونکہ گلگت بلتستان اس وقت پاکستان کے لئے سب سے اہم ترین علاقہ ہے جس کو بہر طور وفاق کے ساتھ زیادہ سے زیادہ جوڑ کے رکھنا پاکستان کی بہت بڑی مجبوری بن چکی ہے۔ وفاق کے پاس گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر سے ضم کرنے یا آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دینے جیسے آپشنز بھی موجود ہیں لیکن وہ یہ خطرہ مولنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ گلگت بلتستان کو وفاق سے الگ شناخت کی طرف لے جایا جائے جو کہ موجودہ وقت میں یہاں کی قوم پرست جماعتوں کا بنیادی مطالبہ بھی ہے۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ وفاق گلگت بلتستان کی ہیت تبدیل کرنے کے حوالے سے بہت بڑا رسک لینے کے لئے بھی تیار نہیں ہے اس لئے آئین پاکستان کے آرٹیکل ون کے ساتھ چھیڑنے کی بجائے آئین پاکستان میں آرٹیکل ٢۵٨اے کا اضافہ اور آئین پاکستان کے دیگر ١١ آرٹیکلز میں ترامیم یا اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ یہ ساری محض وہ ترامیم کی جارہی ہیں جن کی مدد سے گلگت بلتستان کو عبوری طور پر قومی دھارے میں شامل کیا جاسکا اور مختلف عالمی فورمز اور مخالف قوتوں کی طرف سے مسلہ کشمیر اور گلگت بلتستان سے متعلق اٹھنے والے سوالات کے جوابات بھی بآسانی دئیے جاسکیں۔ اس لئے لفظ عبوری پر اکتفا کیا جارہا ہے اور ان ترامیم میں بارہا یہ باور کرایا جارہا ہے کہ گلگت بلتستان مسلہ کشمیر کا حصہ ہے اور یہ تمام تر انتظامات وقتی و عارضی ہیں جس سے مسلہ کشمیر متاثر نہیں ہوگا۔
اس وقت یہ تمام ترامیم تفصیلاً زیر غور ہیں مگر مسلہ یہ درپیش ہے کہ لفظ عبوری کی گلگت بلتستان میں کئ حلقوں کی طرف سے مخالفت کی وجہ سے معملات تعطل کا شکار ہوریے ہیں۔ گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی حکومت بضد ہے کہ جی بی کو عبوری صوبہ بنایا جائے کیونکہ اس کا وعدہ پی ٹی آئی نے گذشتہ انتخابات کے دوران لوگوں سے کر رکھا ہے مگر جی بی کی موجودہ حکومت کو یہ بات کھائی جارہی ہے کہ عبوری صوبہ بننے کے بعد وفاق کے ساتھ یہاں انتخابات منعقد ہونے کی صورت میں ان کی پانچ سالہ مدت کے دو سال کم ہوجائینگے۔ مجوزہ ترامیم اور عبوری صوبے کے منصوبے پر بتدریج عملدرآمد کے سلسلے میں تجاویز مرتب کرنے کے لئے جی بی حکومت نے درجن بھر وزراء اور مقامی بیورکریٹس پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی ہے۔ ادھر جی بی کی اپوزیشن جماعتوں پی پی پی اور ن لیگ نے محض اس لئے عبوری صوبے کی تجاویز کی حمایت کی حامی بھر لی ہے تاکہ مستقبل میں ان کی مقامی قیادت قومی اسمبلی و سنیٹ میں نشستیں سنھبالنے کے موقع سے فائدہ اٹھانے کے علاوہ قومی سطح کی سیاست میں شامل ہوسکیں۔ وفاق پرست جماعتوں کو اس بات سے سروکار نہیں ہے کہ گلگت بلتستان کی شناخت برقرار رہتی ہے یا نہیں۔ ان کے خیال میں یہ مسلہ صرف قوم پرستوں کا ہے۔ لیکن اب صرف قوم پرست ہی نہیں یہاں کا ایک قابل ذکر پڑھا لکھا طبقہ سوشل میڈیا میں عبوری صوبے کے خلاف زور و شور سے کمپئن چلارہا ہے۔ ایسی صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
(نوٹ۔ آئین پاکستان کے کن کن آٹیکلز میں ترامیم تجویز کی گئ ہیں اور ان کی شکل و صورت کیا ہوگی وہ تفصیلات اگلے کالم میں قارئین کی نذر کی جائینگی)