فاروق سلہریا
اعجاز احمد بارے میں نے پہلے پہل ریلوے کے پرانے ساتھیوں سے سنا۔ بابائے محنت کش مرزا ابراہیم، سیف الرحمن، یوسف بلوچ اور دیگر ترقی پسند ٹریڈ یونینسٹ جب ایسے دانشوروں اور پروفسیروں کا ذکر کرتے جنہوں نے پاکستان کی مزدور تحریک کے لئے کام کیا تو اعجاز احمد کا نام ضرور لیا جاتا۔
پھر لاہور پریس کلب اور اخبار کی نوکری شروع کی تو پرانے ترقی پسند صحافیوں کی زبانی اعجاز احمد کا نام سنا۔ فیروز احمد، اقبال احمد، طارق علی، حمزہ علوی اور اعجاز احمد کا ذکر اکثر ایک ساتھ ہی سننے کو ملتا۔ پرانے کامریڈ اور سینئر صحافی ہمیں بتاتے کے یہ مہان دانشور پاکستان میں ہی نہیں، عالمی سطح پر بڑے نام ہیں۔
نوے کی دہائی میں اقبال احمد کا کالم ڈان میں شائع ہوتا تھا۔ اسے بصد شوق پڑھنے لگے۔ حمزہ علوی کی کتابیں بھی اردو میں ترجمہ ہو کر ترقی پسند کتاب گھروں میں ملنے لگیں۔ طارق علی کو پڑھا تو ان کی تحریروں میں بھی کبھی کبھار اعجاز احمد کا ذکر ملتا۔ ان کی تحریروں سے تعارف تب حاصل ہوا (کہ پاکستان میں ان کا ملنا ہی مشکل تھا) جب میں نے لندن میں پڑھائی شروع کی۔
ایک دن لائبریری میں ان کی شہرہ آفاق کتاب ’اِن تھیوری: نیشنز، کلاسز، لٹریچر‘ پر نظر پڑی۔ سارے کام چھوڑ کر اس کتاب کو پڑھ ڈالا۔ بلاشبہ سب سے پہلے ایڈورڈ سعید پر باب کا مطالعہ کیا۔ ایڈورڈ سعید کی انتہائی معروف کتاب ’اورنٹیل ازم‘ دنیا بھر کی جامعات میں (اور اکیڈیمک حلقوں سے باہر بھی) ایک اہم ترین کتاب تصور کی جاتی ہے۔ کیا بھی جانا چاہئے۔ اس کتاب میں البتہ جس طرح ایڈورڈ سعید نے کارل مارکس کو بھی اورنٹیل اسٹ قرار دے ڈالاہے، اس پر کافی لے دے ہوئی۔ ایڈورڈ سعید کے اس الزام کا جو بھر پور جواب اعجاز احمد نے دیا، وہ بذات خود اتنا ہی اہم بن چکا ہے جتنی کہ ’اورنٹیل ازم‘۔
انہی دنوں کچھ دوستوں نے ’وئیو پوائنٹ‘ کو آن لائن شروع کیا تھا۔ میں بھی اس ٹیم کا حصہ تھا۔ ایک دن مجھے کہیں سے اعجاز احمد کی ای میل مل گئی۔ تھوڑی دیر ہچکچاہٹ کے بعد دل میں فیض احمد فیض یہ شعر پڑھتے ہوئے:
بڑ ا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تیرے نام پر آئیں گے غمگسار چلے
اعجاز احمد کو ای میل پر انٹرویو کے لئے درخواست بھیج دی۔ مجھے امید تھی کہ مظہر علی خان کے نام سے وابستہ ’وئیو پوائنٹ‘ کی درخواست پر وہ ایک دفعہ غور ضرور کریں گے۔ ان کا فوراً ہی جواب آ گیا۔ انہوں نے پہلی ای میل میں وئیو پوائنٹ (آن لائن) بارے کچھ سوال پوچھے۔ کچھ ہماری ٹیم بارے جاننا چاہا۔ قصہ مختصر، یہ ان سے پہلا رابطہ تھا۔
ان دنوں میں ’دی نیوز‘ میں ادارتی صفحات پر کالم بھی لکھتا تھا۔ میرا ایک کالم ’فیض آن اقبال‘ ان کی نظر سے گزرا تو اعجاز احمد کی ای میل آئی۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ فیض صاحب کے جن مضامین کا میں نے حوالہ دیا ہے، وہ کہاں دستیاب ہیں۔ ان کی نظر سے فیض صاحب کی یہ تحاریر نہیں گزری تھیں۔ علامہ اقبال پر فیض احمد فیض کے ان مضامین کو پڑھنے کے لئے بہت پر جوش تھے۔ میں نے انہیں شیما مجید کی تدوین کی ہوئی مندرجہ ذیل کتاب بارے بتایا جس میں فیض صاحب کے منتخب مضامین شامل ہیں:
Faiz
میں نے ان سے وعدہ کیا کہ جب دلی آؤں گا تو یہ کتاب لیتا آؤں گا۔ ان دنوں میں اپنی پی ایچ ڈی کی تحقیق کے سلسلے میں ہندوستان جانے کا منصوبہ بھی بنا رہا تھا۔
2013ء کا پہلا نصف دلی میں گزرا۔ میں نے دلی پہنچتے ہی اعجاز صاحب سے رابطہ کیا۔ انہوں نے اپنا موبائل نمبر بھیج دیا اور تاکید کی کہ آئندہ ایس ایم ایس پر رابطہ کرنا۔ ان سے پہلی ملاقات تو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ہوئی۔ وہ طلبہ یونین کی دعوت پر لیکچر دینے آئے تھے۔ اگر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی بائیں بازو کا گڑھ ہے تو اس میں حیرت کیسی کہ ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ مذہبی جنونیت پر ان کا لیکچر پر مغز تو تھا ہی، ان کا یہ جملہ مجھے آج بھی یاد ہے:
’The BJP is programmatically communal while the Congress is pragmatically communal.‘
اس جملے پر خوب تالیاں بجیں اور طلبہ کھلکھلا کر ہنسے۔ اس سیمینار کے بعد ان سے مختصر سی ملاقات ہوئی۔ حال احوال پوچھنے کے بعد بولے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ڈنر پر ملتے ہیں، صرف میں اور آپ، وہاں پر بات ہو گی۔
چند روز بعد انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ان سے یادگار ملاقات ہوئی۔ ان دنوں عوامی ورکرز پارٹی قائم ہوئی تھی۔ اس کے بارے میں پوچھا۔ پاکستانی لیفٹ بارے پوچھا۔ مشرف دور میں ان کا پاکستان کا چکر بھی لگا تھا۔ کچھ اس کا ذکر کیا۔ افغانستان کی صورت حال بارے بہت سے سوال پوچھے۔ انہیں معلوم تھا کہ میں افغانستان جاتا رہتا ہوں۔ کہنے لگے میں بھی جانا چاہتا ہوں لیکن معلوم نہیں (امن و عامہ کی صورت حال کے پیش نظر)جانا چاہئے یا نہیں۔ میرا مشورہ تھا کہ آپ کو ضرور جانا چاہئے اور افغان کامریڈز آپ کا بھر پور خیال رکھیں گے۔
ذاتی باتیں کرنے سے بالکل پرہیز کرتے تھے۔ میں نے بھی جرات نہیں کہ کہ پوچھوں پاکستان کی یاد ستاتی ہے یا نہیں؟ ہاں جب کسی بات پر میں نے کہا کہ میں کبھی کبھار نظم بھی لکھتا ہوں تو بولے کہ وہ خود بھی شاعری کرتے ہیں مگر صرف اپنے لئے، کبھی کہیں نہ شائع کی ہے نہ کرنے کا ارادہ ہے۔
میرا کمنٹ تھا: ”انہیں شائع نہ کرنا تو بہت زیادتی ہو گی۔ کم سے کم مجھے کچھ نظمیں ہی ای میل کر دیجئے، صرف خود ہی پڑھوں گا“۔
ان کا مسکراتے ہوئے جواب تھا: نہیں، اتنی اچھی نہیں ہیں۔
ملاقات میں طارق علی، عابد حسن منٹو صاحب اور مرزا ابراہیم اور کچھ پرانے بائیں بازو کے ساتھیوں کا ذکر بھی کیا۔ کچھ کا میں نے نام بھی نہیں سن رکھا تھا۔
ان دنوں ہندوستان میں الیکشن کی تیاریاں تھیں۔ وہ بی جے پی کی ممکنہ جیت بارے فکر مند تھے۔ مجھ سے میری رائے مانگی۔ میرا ہنستے ہوئے جواب تھا: ”میرے خیال سے من موہن جی اگر کہیں سے جیت سکتے ہیں تو وہ جہلم اور چکوال کا حلقہ ہو سکتا ہے۔ وہاں لوگ ان پر بہت فخر کرتے ہیں“۔ قہقہہ لگا کر ہنسے۔
یہ شاندار اور یادگار ملاقات تین چار گھنٹے جاری رہی۔ ڈنر کے بعد ہم انڈیا سنٹر سے باہر نکلے تو ایک رکشے میں گھر روانہ ہو گئے۔
اس ڈنر کے بعد بھی کئی تقریبات میں ان سے ملاقات رہی۔ شائد ہی کوئی ایسا ہفتہ ہوتا جس میں دوستوں کی طرف سے، ایک آدھ بار خود اعجاز صاحب کی طرف سے، پیغام موصول ہوا کہ فلاں جگہ سیمینار ہے اور اعجاز صاحب گفتگو کریں گے۔
ہندوستان سے واپسی پر ان سے ای میل پر رابطہ رہا۔ بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد ان کا دلی میں رہنا مشکل ہوتا گیا۔ بادل نخواستہ وہ امریکہ چلے آئے۔ ان کی صحت گرتی جا رہی تھی اور مصروفیت بڑھتی جا رہی تھی اس لئے میں بھی انہیں بہت کم ہی ای میل کرتا۔
ہاں ان تمام سالوں میں جب بھی ان کی کوئی تحریر فرنٹ لائن، منتھلی ریویو یا سوشلسٹ رجسٹر پر شائع ہوتی تو سارے کام چھوڑ کر ضرور پڑھتا۔ ان کی یہ تحریریں میری ہی نہیں، نئی اور آنے والی نسل کی بھی رہنمائی کرتی رہیں گی۔ ان سے ملاقاتیں بلاشبہ اہم تھیں اور باعث اعزاز ہیں مگر ان سے ملاقات کا بہترین ذریعہ ان کی لافانی تحریریں ہیں جو مارکسزم، انقلاب اور محنت کش طبقے سے کمٹ منٹ کا ان مٹ نشان ہیں۔
اعجاز صاحب! یاد گار ڈنر کا شکریہ۔ افسوس آپ پاکستان نہیں آ سکے اور میں آپ کو اپنے پسندیدہ ریستوران میں وہ ڈنر نہیں دے سکاجس کی دعوت آپ نے اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ قبول کی تھی۔