امداد قاضی
پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران ایک آئینی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ جب کہ اس سے پہلے ہی ملک گہرے معاشی بحران سے دوچار ہے ۔ ان بحرانوں سے سماج اور سیاست پر جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ دیر پا رہیں گے . پاکستان کے جدید نوآبادیاتی شکنجے میں جکڑے ہونے کی وجہ سے یہ بحران پیدا ہوتے ہیں . ملٹری اور سول بیوروکریسی جدید نوآبادیاتی نظام کی محافظ اور کنٹرول کرنے والی قوت ہیں . ملک کے ہر شعبے میں ان کی جتنی زیادہ مداخلت ہوتی ہے اتنا ہی وہ شعبہ تنزلی کی طرف چلا جاتا ہے . 20 سال سے عمران کی لیڈرشپ کو ایجنسیوں کے بَل بوتے پر بنانے کی کوشش کی گئی ۔ عبدالستار ایدھی نے جب لندن میں جا کر بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ "مجھے گُل حمید (اس وقت کے آئی ایس ائی کے چیف ) نے کہا ہے کہ تمہیں صدر اور عمران خان کو وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں ۔ میں نے انکار کر دیا۔ جس پر انہوں نے مجھے اغواء کی دھمکی دی جس وجہ سے میں نے بھاگ کر یہاں پناہ لی ہے”۔
20 ، 25 سال سے جو کام ہو رہا تھا اس کو انجام تک پہچانے کےلیے شرمناک دھاندلی کے ذریعے انجام تک پہنچایا گیا ۔ اس کٹ پتلی نے جو ملک کا حشر کیا اور جس بے رحمی سے چلایا وہ اپنی مثال آپ ہے . یہ بات واضح ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیاں ملک کی دفاعی ، خارجہ اور معاشی پالیسی کو اپنے ہاتھ میں رکھتی آئی ہیں ۔ انکے مفادات کے لیئے انہیں اس کی ضرورت رہتی ہے ۔ انہوں نے معاشی پالیسی IMF کے حوالے کر دی اور IMF کے نمائندے کو اسٹیٹ بینک کا گورنر بنا کر ملکی معیشت اسکی تحویل میں دے دی ۔ جبکہ دفاع اور خارجہ پالیسی کو اپنے پاس رکھا . پارٹی کی طرف سے 22 مارچ کو جاری کیئے گئے بیان میں واضح الفاظ میں کہا گیا کہ "ملکی سیاست میں جو بحران نظر آ رہا ہے اسے عالمی پس منظر میں دیکھنا چاہیئے ۔ یہ مغربی اور مشرقی سامراجی بلاکوں کے طفیلی جنرلوں کے تضادات کا نتیجہ ہے . وہ جنرلز سامراج کے مہرے ہیں جبکہ انکے مہرے حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں موجود حکمران طبقات کی پارٹیوں کے لیڈرز ہیں”.
آج بحران اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ ریاست انارکی کی طرف جا رہی ہے. سپریم کورٹ نے مداخلت کی ہے جو کہ اسے کرنی چاہیئے ۔ کیونکہ پاکستانی ریاست کے باقی ستون ہل اور ٹکرا رہے ہیں . ان میں باہمی اعتماد نہیں رہا تو ایک ستون سپریم کورٹ ہی رہے جاتی ہے جو اسے حل کرنے کی کوشش کرے ۔ لیکن یہ بحران جتنا گہرا ہو گا اتنا ہی عوام کا فائدہ ہے ۔ محنت کش عوام ، کسانوں اور درمیانے طبقے کے لوگوں کو ملکر بائیں بازو کی پارٹیوں کے پلیٹ فارم پر اپنے مفادات کے لیئے جدوجہد کو تیز کرنا چاہیئے . ان حکمران پارٹیوں اور گروہوں سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا.
یہ سمجھنا چاہیئے کہ بحران جتنا شدید ہوگا اتنی ہمارے لیے آسانی پیدا ہوگی ۔ اگر یہ قوتیں اس بحران سے نکل بھی جائیں تو وہ مستقل حل نہیں ہوگا ۔ اگلے مرحلے میں دوسرے بحران سے دوچار ہوں گے ۔
عوام دوست قوتوں ، محنت کشوں کے نمائندوں ، عام عوام کے نمائندوں کو اقتدار سے دور رکھنے ، انکو قوت پکڑنے سے روکنے کے لیئے مذہب ، مسلک ، لسانی اور قومیتی تضادات کو ابھاریں گے . عوام کو سمجھنا چاہیئے کہ ان تضادات کے نتیجے میں انکے معاشی، سماجی مسائل حل نہیں ہوں گے ۔
ہمیں اس کے خلاف جدوجہد کرنا ہو گی ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ بحران حکمران طبقات کی ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ سول بیورو کریسی ہو ، ملٹری بیوروکریسی یا یہ نام نہاد جمہوری پارٹیاں ہوں اس بحران کو حل نہیں کر سکتیں ۔ اس کا واحد حل اس ملک کے اندر سامراجی و ملکی استحصالی قوتوں سے نجات میں ہے ۔ استحصال سے پاک ایک سیاسی ، سماجی معاشی نظام قائم کرنے میں ہے جو سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ممکن نہیں۔