محمد حنیف بشکریہ ہم سب
اسلام آباد کی ایک حسین لیکن سازشوں اور سرگوشیوں سے بھری شام عمران خان کو احساس ہوا کہ حالانکہ انہیں چاہنے والے کپتان کپتان کہتے ہیں لیکن اب ان کی ترقی ہو چکی ہے، وہ جنرل بن چکے ہیں، چار ستاروں والے جنرل، جن کو جب کوئی آئین، قانون پسند نہیں آتا تو وہ اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔
جنرل مشرف اور اس سے پہلے جنرل ضیا آئین کو کاغذ کا ٹکڑا اور کبھی چیتھڑا کہہ چکے ہیں اور انھوں نے آئین کے ساتھ سلوک بھی ایسا ہی کیا تھا۔
عمران خان نے عدم اعتماد کے بعد اپنی صفوں کی گنتی کی، اپنے روٹھے ہوئے ارکان کو لعن طعن کی لیکن جب لگا کہ گنتی کی جنگ نہیں جیت پائیں گے تو وہی کیا جو ہمارے جنرل حضرات کرتے آئے ہیں۔ کرکٹ کے استعاروں میں بات کرنے والے کہتے ہیں کہ وہ اس لونڈے کی طرح ہیں جو گلی میں میچ ہارتا دیکھ کر یا وکٹیں چرا کر بھاگ جاتا ہے یا اپنی باری لے کر یہ کہتا ہوا بیٹ لے کر گھر چلا جاتا ہے کہ امی بلا رہی ہیں۔
عمران خان نے ایسا کچھ نہیں کیا، انہوں نے وہی کیا ہے جو ضیا اور مشرف جیسے جی دار جنرل ان سے پہلے کر چکے ہیں۔ ایسی ایک شام کو جب ذرا غصہ آیا آئین کی چیتھڑے کیے، ردی کی ٹوکری میں پھینکا اور پھر ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا کہ کر لو کیا کرنا ہے؟ عدالت جاؤ گے اور اس کے بعد مجید امجد والا:
رہ گیا گونجتا خلاؤں میں
وقت کا ایک قہقہ تنہا
ہمارے عمران مخالف تجزیہ نگار خان صاحب کی سیاست، اخلاقیات یا اقتدار کی بھوک کے بارے میں جتنی سینہ کوبی چاہے کر لیں، آخری لمحے تک کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ یہ کر گزریں گے۔ ہماری سیاسی تاریخ ہی ایسی ہے کہ ہم فوجی طالع آزماؤں سے کچھ بھی توقع کر سکتے ہیں، یعنی وہ بھٹو کو پھانسی چڑھا سکتے ہیں، بغیر کسی کو بتائے اپنے ہوائی اڈے دوسرے ملک کو دے سکتے ہیں۔
لیکن سویلین حکمرانوں سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ذرا بچ کر چلیں گے، آئین کے ساتھ کھینچا تانی کر لیں گے لیکن توڑیں گے نہیں۔ مخالفین کو جیلوں میں ڈلوائیں گے لیکن پھانسی کے تختے پر نہیں لٹکائیں گے۔ کیوں کہ اپنی عدالتوں کا بھی ڈر، عوام کے پاس واپس جانے کا بھی خیال اور سب سے بڑھ کر یہ خوف بھی کہ فوج میں بیٹھے بڑے بھائی پتہ نہیں کیا سوچیں گے۔
عمران خان نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلا کُو کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتے ، بلکہ عمران خان عمران خان سے بھی نہیں ڈرتے۔
اگر عمران خان نے اپنے آپ کو کپتان سے جنرل کے عہدے پر ترقی دے لی ہے تو اصلی تے وڈے جنرل کیا سوچتے ہوں گے؟
ہمارے فوجی جنرلوں کو سویلین وزیراعظم کبھی بھی اچھے نہیں لگے۔ دل پر پتھر رکھ کر سلیوٹ کر دیتے ہیں لیکن اندر سے یہی سمجھتے ہیں کہ یہ سب یا تو کرپٹ ہیں یا مغرور اور یہ ملک تو کوئی کرنل بھی چلا سکتا ہے۔ ان کی نظر میں بھٹو بہت بڑبولا تھا، بے نظیر عورت تھی، نواز شریف لوہار کا بیٹا تھا، باقی رہے جونیجو، گیلانی، شاہد خاقان عباسی یہ تو طاقتور سیاستدانوں کے کمی کمین تھے۔
عمران خان کی شکل میں ان کو ایک آئیڈیل امیدوار مل گیا۔ ہمارے فوج کی اعلیٰ قیادت کو ہمیشہ سے ایک گورا کمپلیکس رہا ہے کہ خاص طور پر امریکی اور یورپی گورے ہم سے کام بھی لیتے ہیں اور پھر ہمیں ذلیل بھی کرتے ہیں۔
کبھی اسلحہ دیتے ہیں کبھی روک لیتے ہیں، کبھی اپنا بھائی بنا لیتے ہیں پھر دہشت گردوں کا ساتھی ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ گورے ان کے ساتھ وہی کرتے آئے ہیں جو عمران خان جوانی سے گورے اور گوریوں کے ساتھ کرتا آیا ہے۔ ایک ایسا وزیراعظم جو کسی کمانڈو میجر جتنا فٹ ہو، فلم سٹارز کی طرح حسین ہو، اور گوروں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بتا سکتا ہو کہ میں تمہیں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔
عمران خان ان کی توقعات پر پورا اترے اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ تم مجھے مروانا چاہتے ہوں۔ اب عسکری قیادت یا تو ان کی اس حرکت پر عش عش کر اٹھی ہو گی یا نظریں چرا رہی ہو گی۔
سازشی ذہنوں والے یہ بھی کہتے ہیں کہ دونوں طرح کی قیادت موجود ہے۔ بلکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو نظریں بھی چرا رہے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس خود ساختہ کپتان سے جنرل بنے عمران خان نے وہ کر دکھایا جو اصلی جنرل بھی کبھی نہ کر سکے۔
عمران خان نے ساری اپوزیشن کو اسمبلی سے فارغ کر کے سپریم کورٹ بھیج دیا ہے جو اکتائے ہوئے روزے داروں کی طرح جمائیاں لے رہی ہے اور ردی کی ٹوکری سے آئین کی چیتھڑے اٹھا کر دیکھ رہی ہے کہ کون سے صفحے کو کس صفحے کے ساتھ جوڑ کر پڑھا جائے۔
کارروائی کے پہلے ہی دن ایک جج صاحب نے فرمایا کہ ہم پر اعتبار نہیں ہے تو ہم گھر چلے جاتے ہیں (رمضان کے مہینے میں کونسا ملازم شام کے چار بجے یہ نہیں کہتا)۔ اپوزیشن کے وکیل نے کہا ہمیں اعتبار ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ کھوکھر نے اس میں اضافہ کیا کہ ہمیں پورا اعتبار ہے لیکن آج چار اپریل ہے۔