بشکریہ بی بی سی اردو
دسویں صدی عیسوی یا اسلامی کیلینڈر کی چوتھی صدی میں بغداد ایک اہمیت کا حامل شہر تھا۔ یہ عظیم الشان عباسی سلطنت کا دارالخلافہ تھا اور اس کی آبادی قرونِ وسطیٰ کے کسی بھی یورپی شہر سے زیادہ تھی۔ اس نے اسلامی سلطنت کے کونے کونے سے علما کو اپنی جانب متوجہ کیا جس میں صرف مسلمان نہیں بلکہ مسیحی اور یہودی بھی شامل تھے۔
سترہویں صدی کے پیرس کی طرح بغداد میں بھی سیلون کلچر پھل پھول رہا تھا جہاں یہ دانشور ایک دوسرے سے ملاقات کر کے بحث کر سکتے، اور شاعری، عربی زبان اور فلسفے میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کر سکتے۔
اس طرح کی نشستوں میں یا پھر مہتممِ مدرسہ کے گھر کھانے پر کوئی عالم اپنی گفتگو میں افلاطون یا ارسطو کے نظریات کا حوالہ دے کر اپنے علم کا اظہار کیا کرتا۔
اسی طرح شہر کے مضافات میں کسی شان و شوکت سے بھرپور محفل میں شاید قدیم یونانی مفکر ایمبدوکلیس (ایمپیڈوکلز) کے بارے میں باتیں ہوا کرتی ہوں گی۔
عباسی معاشرے کو اگر ایک رنگ برنگی چادر تصور کیا جائے تو فلسفہ اس میں صرف ایک دھاگہ تھا جس نے اسلامی دنیا میں اپنی جگہ یونان سے بنائی۔ اس کی بنیاد ایک صدی پر محیط وہ ‘ترجمہ تحریک’ بنی جس میں ریاضی دان اقلیدس (یوکلڈ) کی کتاب ‘عناصر’ سے لے کر گیلِن کی طبی کتابوں اور یہاں تک کہ ارسطو کی تحریروں کو عربی میں منتقل کیا گیا۔
یہاں تک کہ عربی لفظ ‘فلسفہ’ بھی اس کے یونانی الاصل ہونے کی جانب عکاسی کرتا ہے کیونکہ یہ یونانی زبان کے لفظ فلاسفیہ کی عربی صورت ہے۔
لیکن سبھی لوگ اس سے خوش نہیں تھے۔ کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ یونانی ثقافت کو یوں درآمد کرنا غیر ضروری اور یہاں تک کہ نقصاندہ تک تھا۔ ان لوگوں کے نزدیک یہ قرآن اور عربی زبان کے عمیق مطالعے کا نعم البدل تو بالکل بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
اسی سیریز کے مزید مضامین پڑھیے
سنہرا اسلامی دور: امام بخاری اور ان کی علمیت پسندی
جب یورپ کھالوں پر لکھتا تھا تو مسلمان دانشور کاغذ استعمال کرتے تھے
خلیفہ ہارون الرشید کی زندگی کی کہانی: کتنی حقیقت، کتنا افسانہ؟
قرون وسطیٰ کی فارسی شاعرائیں جنھوں نے محبت کو ایک نئی زبان دی
ریاضی دان محمد ابن موسیٰ الخوارزمی، جن کے کام کو ’خطرناک‘ اور ’جادو‘ گردانا گیا
الکندی: ’سمندروں اور بادلوں کا علم رکھنے والے‘ عرب کے پہلے فلسفی
ان لوگوں کے نزدیک فلسفے کو ضرورت سے زیادہ اہم بنا کر پیش کیا جاتا اور یہ کہ اس کا تعلق مسیحیوں سے بہت زیادہ تھا جنھوں نے اسے عربی میں منتقل کرنے کا زیادہ تر کام کیا تھا۔
یہ نکتہ نظر الصرافی نامی ایک گرامر کے ماہر کا تھا اور انھوں نے اسے ایک مسیحی منطق دان کے سامنے ایک بحث کے دوران رکھا تھا۔
مسیحی فلسفی و منطق دان ابو بشر متا نے اپنی بحث کا آغاز اس نکتے سے کیا کہ صحیح و غلط اور اچھے و برے کے درمیان تمیز کرنے کے لیے منطقِ ارسطو نہایت ضروری ہے۔
الصرافی کو یہ سن کر بہت غصہ آیا اور ان کی اس بحث کے بارے میں بعد میں لکھی گئی ایک تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے مسیحی مخالف کے خلاف پے در پے کئی دلائل پیش کیے اور انھیں بحث میں ہرا دیا۔
منطق آپ کو صحیح و غلط اور اچھے و برے کے درمیان تمیز کرنا سکھا سکتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ آس سے آپ عوامی مکالمہ بھی جیت سکیں۔ فلسفہ اس بحث کے موقع پر جیت تو نہیں سکا لیکن صرافی کی امیدوں کے برعکس اس پر اسلامی معاشرے میں پابندی بھی نہیں لگنے والی تھی۔
اور اس کی ایک بڑی وجہ خود متا اور ان کا قائم کردہ گروہ تھا جسے بعد میں مکتبہ بغداد کے نام سے جانا جانے لگا۔
جب یونانی تصورات کی بات کی جائے تو یہ لوگ اپنے کام میں ماہر تھے۔ یہ لوگ محفلوں میں صرف ارسطو کے حوالے نہیں دیا کرتے، بلکہ انھوں نے اس کا ترجمہ کرنے کا کام مکمل کیا اور بعد میں ارسطو کی ان عربی کتابوں کی شرحیں بھی لکھیں۔
ان لوگوں میں سے زیادہ تر متا کی طرح مسیحی تھے لیکن ایک کو چھوڑ کر، جن کا نام الفارابی تھا۔
جب بعد میں ان سے بھی بڑے فلسفی ابنِ سینا نے اس گروہ کے بارے میں بات کی تو انھوں نے صرف الفارابی کی تعریف کی جبکہ ان کے مسیحی ساتھیوں کی کامیابیوں کو غیر اہم اور فضول قرار دیا۔
اس لیے نہیں کیونکہ وہ مسیحی تھے، بلکہ اس لیے کیونکہ وہ منطقِ ارسطو اور فلسفے کے دیگر شعبوں کے بارے میں ان کی مہارت سے متاثر نہیں ہوئے تھے۔
جہاں تک فارابی کی بات ہے تو ان کا سپین (اندلس) میں بھی بہت عزت و احترام کیا جاتا تھا۔ اندلس کے عظیم یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون (میمونیڈیز) اپنے شاگردوں کو فارابی کا کام ایک ‘نفیس پھول’ قرار دے کر پڑھنے کی تلقین کرتا۔ اس کے علاوہ مسلم دنیا میں منطقِ ارسطو کے سب سے بڑے ماہروں میں سے ایک اندلس کے ابنِ رُشد بھی فارابی سے بہت متاثر ہوئے۔ بعد میں ابنِ رشد کے لکھی گئی شرحوں کو قرونِ وسطیٰ کے مسیحی فلاسفہ بشمول تھامس اکوئیناس نے بہت اہمیت دی۔ ان شرحوں میں ابنِ رشد مکتبہ بغداد کے فلسفہ پراجیکٹ کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
تو آخر یہ شخص فارابی کون تھے؟ بدقسمتی سے ہم ان کی زندگی کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ ان کے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وسطی ایشیا کے دو علاقوں فاراب یا فریاب میں سے کسی ایک جگہ سے تعلق رکھتے تھے۔
انھوں نے مکتبہ بغداد میں مسیحیوں کے ساتھ تعلیم حاصل کی اور وہاں تدریس میں بھی مشغول رہے، جس کے بعد وہ مصر اور شام کے سفر پر نکل گئے، جہاں انھوں نے دسویں صدی عیسوی کے وسط میں دمشق میں وفات پائی۔
ان کی تحریروں سے مکتبہ بغداد کے مقصد کی عکاسی ہوتی ہے۔ انھوں نے ارسطو کی شرحیں لکھیں۔ مکتبہ بغداد کے بانی ابوبشر متا منطقِ ارسطو کی اہمیت کے بہت قائل تھے۔
مگر لگتا ہے کہ فارابی اپنے ساتھیوں سے زیادہ پرعزم تھے۔ وہ صرف ارسطو کے کام پر روشنی ڈالنا یا فلسفیانہ تصورات سے مذہب کی خدمت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے، بلکہ وہ چاہتے تھے کہ فلسفے کی تمام شاخوں کو ایک منظم نظریے کی صورت میں یکجا کر دیا جائے۔
اس نظریے نے خدا اور اس کی بنائی گئی کائنات میں انسان کے مقام پر روشنی ڈالی، یہ نظریہ علم، خاص طور پر پیغمبرِ اسلام پر اترنے والی وحی میں موجود علم کی حقیقت سمجھاتا، یہ نظریہ اس علم کی مدد سے ممکن ہونے والے مثالی سیاسی نظام کا تصور بھی اخذ کرتا اور یہ سب کام منطقِ ارسطو کی ٹھوس بنیادوں پر قائم تھا۔
یہ بھی پڑھیے
شیشہ گری کا فن، جسے اسلامی دور میں عروج ملا
ڈارون سے ہزار برس قبل ’نظریۂ ارتقا‘ پیش کرنے والا مسلمان مفکر
عمران خان کی تجویز کردہ کتاب ’لوسٹ اسلامک ہسٹری‘ میں کیا ہے؟
آپ فارابی کے تصورات سے متفق ہوں یا نہ ہوں لیکن آپ ان کے عزم پر تنقید نہیں کر سکتے۔
ہر چیز کے بارے میں فارابی کے منظم وژن کی بنیاد میں کائنات اور ایک مثالی سیاسی معاشرے کے درمیان موازنہ نظر آتا ہے۔ دونوں میں ایک ہی حکمران ہے۔ کائنات میں وہ حکمران خدا ہے۔
قدیم اجماع کی پیروی کرتے ہوئے فارابی کا بھی یہی تصور تھا کہ کائنات ایک دوسرے میں مدغم متعدد شفاف کُرّہوں کی حامل ہے جو مسلسل زمین کے گرد دائروں کی صورت میں گھوم رہے ہیں۔
شیشے کی گیندوں سے بنے ایک ایسے کرّے کا تصور کریں جن میں تمام گیندیں ایک دوسرے کے اندر ہوں اور ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو۔ ان کُرّوں میں انسان کو دکھائی دینے والے ستارے اور سیارے جڑے ہوئے ہیں اور ان کی حرکت سے ہم روز رات کو یہ اجرامِ فلکی دیکھ سکتے ہیں۔
فارابی ایک مرتبہ پھر ارسطو کی پیروی کرتے ہوئے یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ غیر مجسم ذہین مخلوق، آپ چاہیں تو انھیں فرشتوں کا نام دے دیں، ان کائناتی حرکات کے لیے ذمہ دار ہیں۔
اور اس پورے نظام کو چلانے والا خدا ہے جو اس کا خالق بھی ہے، تاہم ان کے نزدیک یہ سب ہمیشہ سے موجود تھا نہ کہ ماضی میں کسی ایک مخصوص لمحے پر اس نے جنم لیا۔
یہاں پر فارابی اپنے سے پہلے آنے والے سب سے اہم مسلم فلسفی الکندی سے اختلاف کرتے ہیں۔ الکندی کی دلیل یہ تھی کہ کائنات بیک وقت خلق کی گئی اور ہمیشہ سے موجود نہیں ہو سکتی۔
کائنات کی ہمیشہ سے موجودگی کے خلاف الکندی کا نظریہ مرکزی دھارے کے فلاسفہ میں مقبول تھا اور صرف ارسطو کے سخت گیر پیروکار مثلاً فارابی، ابنِ سینا اور ابنِ رشد ہی ہمیشہ سے قائم کائنات کے حق میں دلیل دیتے تھے۔
فارابی کے نزدیک اس پورے کائناتی نظام میں خدا کے بعد سب سے اہم عنصر کم ترین درجے پر موجود آسمانی شعور ہیں جنھیں فرشتے کہا جاتا ہے۔
فارابی کے فلسفے میں ان کے ذمے کئی کام ہیں جن میں زمین پر پودوں، جانوروں اور انسانوں کی پیدائش شامل ہے۔ اس کے علاوہ ان کا انسانی علم میں بھی کردار ہے۔ جیسے ہم روشنی کے بغیر نہیں دیکھ سکتے، اس طرح اس شعور کے بغیر ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔
اور بالکل جس طرح کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں سوچنے میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔
فارابی کا خیال ہے کہ ایک کامل فلسفی وہ سب کچھ سمجھ سکتا ہے جس کا علم آسمانی شعور کے اندر موجود ہے۔ وہ یہ تو دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ خود اس مقام پر پہنچ چکے ہیں لیکن وہ یہ دلیل ضرور دیتے ہیں کہ اصولی طور پر ایسا ہونا ممکن ہے۔
چنانچہ یہ واضح ہے کہ فارابی کے نزدیک ایسے لوگ ضرور رہے ہیں کیونکہ یہی وہ فہم اور علم ہے جو کسی پیغمبر کے پاس موجود ہوتا ہے۔
ظاہر ہے کہ وہ سب سے پہلے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں اس بات کے قائل ہیں اور ان کے علاوہ اسلامی کتب میں مذکور دیگر سچے پیغمبران کے بارے میں بھی، جن میں حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک شامل ہیں۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ پیغمبر تھے اور ظاہر ہے کہ وہ ان کو خدا کا روپ نہیں مانتے۔
لیکن اس کے باوجود فارابی کبھی بھی واضح طور پر یہ سب کچھ نہیں کہتے، بلکہ وہ دانستہ طور پر پیغمبر کا تصور ایک مجرد انداز میں پیش کرتے ہیں اور پیغمبرِ اسلام یا کسی دوسرے پیغمبر کا نام نہیں لیتے۔
وہ پیغمبر کے بارے میں یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک کامل فلسفی کا علم ہوگا اور وہ عوام کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے، چنانچہ فارابی کے نزدیک ایک مثالی حکمران بیک وقت ایک فلسفی اور ایک پیغمبر ہوگا۔
اگر آپ کو افلاطون کے تصورات یاد ہیں تو آپ کو یاد ہوگا کہ ایک فلسفی بادشاہ کا تصور فارابی کا اپنا تصور نہیں ہے اور واقعتاً فارابی یہاں پر افلاطون کی کتاب ‘ری پبلک’ پر انحصار کر رہے ہیں حالانکہ بظاہر اس وقت تک اس کتاب کا مکمل عربی ترجمہ موجود نہیں تھا۔
تو پیغمبر کے پاس ایسا کیا ہوتا ہے جو ایک کامل فلسفی کے پاس نہیں ہوتا اور ایسا کیوں ہے کہ وہ کسی رعایا پر اتنے مؤثر انداز میں حکمرانی کر سکتے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ دوستانہ آسمانی شعور یا فرشتوں کی مدد سے پیغمبر وہ طاقتور اور پراثر علامتیں پیدا کر سکتے ہیں جو ان کے علم کو عام آدمی کے ذہنوں تک منتقل کر سکتی ہیں۔
عام شہری فلسفیانہ بحث کو اتنی آسانی سے نہیں سمجھتے سکتے اور نہ ان کی پیروی کرتے ہیں، اس لیے اگر ان لوگوں کو صحیح چیز ماننے اور صحیح چیز پر عمل کرنے کے لیے قائل کرنا ہے تو پیغمبر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ٹھوس اور واضح انداز میں ان کے لیے کشش کا سامان پیدا کریں۔
اس لیے منطقِ ارسطو سے یہ دلیل دینے کے بجائے کہ ہمیشہ سے موجود کائنات کو پیدا کرنے والی کوئی ذات ہے، پیغمبر شاید خدا کو ایک ایسے بادشاہ کے طور پر پیش کریں جو ایک تخت پر ہے۔
اخلاقیات کے تصورات پر بحث کرنے کے بجائے پیغمبر شاید لوگوں کو سیدھی راہ پر چلنے کی ترغیب دینے کے لیے اگلی دنیا میں موجود سخت گیر سزاؤں کی خوفناک تفصیلات بیان کریں۔
فارابی کے نزدیک حقیقت کو اس طرح علامتی طور پر پیش کرنا ہی مذہب ہے۔
ہوسکتا ہے کہ یہ نظریات آپ کو مذہب اور وحی کا انتہائی حقیقت پسند یہاں تک کہ ہتک آمیز تصور معلوم ہوں۔
تو کیا مذہب درحقیقت فلسفے کی عامیانہ شکل ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔
فارابی کے نزدیک وحی صرف سائنسی حقیقت کو رنگا رنگ زبان میں بیان کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ ہر پیغمبر حقیقت کو اپنے عوام کے مطابق ڈھال کر پیش کرتا ہے، اسی لیے ہر قوم کے پاس اپنا پیغمبر اور اپنی وحی ہے۔
چونکہ پیغمبر کے پاس یہ علم ہوتا ہے کہ کائناتی حقیقت کا کسی مخصوص صورتحال سے کیا تعلق بنتا ہے، اس لیے وہ روز مرّہ کی بنیادوں پر اپنے لوگوں کے لیے درست فیصلے لے سکتے ہیں۔
یہ ایسے کسی فلسفی کے لیے ناممکن ہوگا جس کے پاس مکمل کائناتی سائنسی علم تو موجود ہے لیکن جس کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں کہ وہ اس علم کا انفرادی معاملات پر اطلاق کر سکیں۔
اپنے معاشرے کی فلاح کے لیے فلسفی پیغمبر حکمران اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ ان کے جانے کے بعد ان کی تعلیمات کو جاری رکھنے کے لیے زبردست کوشش کرنی چاہیے۔
مذہبی قانون کا ایک پورا شعبہ اس کام پر مامور ہونا چاہیے کہ پیغمبر کی اصل تعلیمات سے نئی صورتحال کے بارے میں کیسے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے جو کہ ان کی اپنی زندگی میں سامنے نہیں آئی تھیں۔
مذہبی قانون کے بارے میں نام لیے بغیر فارابی کے یہ تصورات واضح کرتے ہیں کہ بھلے ہی وہ اسلام کا نام واضح طور پر نہیں لیتے لیکن ان کے تصورات اسلامی معاشرے کے بارے میں ہی ہیں۔
ان کے پورے فلسفے کو درحقیقت یونانی روایات کے ذریعے ایک ایسا نظام تیار کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس سے اسلامی عقائد سمجھنے میں مدد مل سکے۔
اس لحاظ سے فارابی اپنے سے پہلے آنے والے الکندی، اپنے بعد آنے والے ابنِ سینا، اور سنہری دور اور اس کے بعد آنے والے متعدد مسلمان مفکرین کی ہی طرح تھے۔
یہاں تک کہ سولہویں صدی تک میں فارس کی صفوی سلطنت میں ملا صدرہ جیسے لوگ اپنے مذہب اور اُن یونانی کتابوں کے درمیان ہم آہنگی تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے جن کا یونانی زبان سے عربی میں ترجمہ الکندی اور فارابی کے دور میں ہوا تھا۔
فارابی اور ان کے مکتبہ بغداد کے ساتھیوں نے ارسطو اور دیگر یونانی مفکرین کے ساتھ ایک پائیدار تعلق کے قیام میں مدد دی لیکن انھوں نے صرف یونانی تصورات کو جوں کا توں مان نہیں لیا۔
فلسفے کے نقادوں کے برخلاف انھوں نے یہ ثابت کر دکھایا کہ یہ ‘غیر ملکی اور بت پرستانہ’ تصورات کو کیسے ایک نئے فلسفے میں ڈھالا جا سکتا ہے جو ابراہیمی عقائد سے مطابقت رکھتا ہو۔
یہ ایسا فلسفہ تھا جو مذہبی حدود سے بالاتر تھا اور اس لیے اسے پیدا کرنے والے شہر بغداد کے لیے بالکل موزوں تھا جو عباسیوں کی مذہبی اور قومی بنیادوں پر قائم کی گئی سلطنت کا سب سے زیادہ متنوع شہر تھا۔