فرنود عالم
قیامت گزر گئی ہے۔ مشال زندہ ہے۔ کچھ قصے ہیں اور کچھ کہانیاں۔ کچھ کردار ہیں جو تاریخ کے دفتر میں درج ہونے چاہئیں۔ یہ کردار اس وقت کے نہیں کہ جب مشال کے مرقد کی مٹی سوکھ گئی تھی۔ اس وقت کے ہیں کہ جب مشال کا خون بھی ابھی جما نہیں تھا۔ اس وقت کون طاقوں میں رہا اور کون سرِ راہ، شہر کی ہوا کو بجا طور پر ایسے چراغوں میں دلچسپی ہے۔
شیرین یارقلم کتاب کے آدمی ہیں۔ پشتو ادب کو انہوں نے بہت کچھ دیا ہے۔ خان عبدالغفارخان کے پیروکارہیں۔ اپنے حصے کا کام کرتے ہیں، صلہ نہیں مانگتے۔ مشال کے معاملے میں بھی اپنے حصے کا کام کیا۔ عارف خان نامی شخص کی وڈیو آپ تک پہنچی ہوگی۔ جس میں عارف خان ہجوم سے حلف لے رہا ہے۔ کہہ رہا ہے کہ جس کسی نے مرکزی قاتل کا نام لیا وہ رسول اکرم کا غدار ہوگا۔ میرا نام عارف خان ہے، مجھ پہ کسی نے ایف آئی آر کاٹنی ہے تو حاضر ہوں۔ اس جملے کے اختتام پر ساتھ ہی کھڑے شخص نے کہا، مشال کی لاش گھسیٹ کر باہر سڑک پر لاو۔ یعنی باولا ہجوم اب لاش پر اپنا عشق آزمانا چاہتا تھا۔ یہی موقع تھا کہ جب اپنی مدد آپ کے تحت کچھ یار پہنچے۔ بلوائیوں کے پنجے سے لاش چھڑا کر وہ ورثا کے پاس لے گئے۔
مشال خان کی لاش پہنچی تو گاوں سہم کر دیوار سے لگ گیا تھا۔ مشال کے بابا کو اندازہ نہیں تھا کہ خوف کا یہ عالم ہوگا۔ اندازہ ہوا کہ جنازہ نہیں ہوپائے گا. یہی موقع تھا جب شیرین یار پہنچے اور کہا کہ جنازہ تو ہورہے گا. ماحول میں بدلاو آیا. یہاں دو کردار سامنے آتے ہیں۔ ایک حرم کا چغہ پوش پاسبان، دوسرا مست مولائی افیمچی جو مراثیوں کے خاندان سے ہے۔ پہلے کا نام مولانا فضل امین دوسرے کا نام نثارے ہے۔ مولانا فضل امین مقامی مدرسے کا نگران اور جے یوآئی کا ذمہ دار ہے۔ جے یوآئی مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو کہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اس نابغہ روزگار ہستی کا نام ہے جو مشال خان کے معاملے میں کل اپنے خلوت کدے سے صرف اس لیے باہر آئی کہ عمران خان بازی لے گئے تھے۔ کل مشال کی لاش پرکھڑے ہوکر انہوں نے اپنے اورعمران خان کے بیچ سیاسی صف بندی کے لیے فرمایا، کسی میں ہمت نہیں جو توہین رسالت کا قانون بدل سکے۔ کیا مطلب؟ یعنی کہ گزشتہ انتخابات میں آپ نے مجھے اس لیے ووٹ دیا تھآ کہ اسلام کوعمران خان سے خطرہ تھا، اگلے انتخابات میں مجھے اس بنیاد پرووٹ دیا جائے کہ قانونِ توہینِ مذہب کوعمران خان سے شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ میری صورت میں مذہب کا چھٹا ستون اگر پارلیمنٹ میں نہ ہوا تواندازہ کیجیے کہ اسلام پر کیا گزرے گی۔ حضرتِ آزاد نے کچھ غلط تو نہیں کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ سیاست کی آنکھ میں پانی بھی نہیں ہوتا۔
آمدم برسرِمطلب، مولانافضل الرحمن کی جماعت کے مقامی ذمہ دار مولانا فضل امین نے مشال کا تابوت پہنچنے سے پہلے ہی فرمان جاری کردیا تھا کہ کوئی مشال کا جنازہ نہ پڑھائے۔ جو پڑھائے گا اپنی ذمہ داری پر پڑھائے گا۔ شام ڈھلے وہ مشال کے بابا کے پاس پہنچے۔ فرمایا، جتنا جلد ہوسکے اپنے بیٹے کو خاموشی سے دفنا دو۔ کچھ دیر میں مدرسے کے لاوڈ اسپیکر سے نعتوں کی گونج سنائی دینے لگی۔ تابوت جوں جوں جنازہ گاہ کی طرف بڑھتا تھا نعتوں کی آواز توں توں اٹھ رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ مشال کی آمد سے فضاوں پر جو کفر طاری ہوا ہے وہ حمد ونعت سے توڑا جا رہا ہے۔ مشال کا تابوت پڑے گھنٹے ہو چکے تھے، مگررشتے دار تک بھی گریزاں تھے۔ دوستوں نے دروازے بھیڑ لیے تھے۔ کیوں نہ بھیڑتے، نکڑوں پہ کھڑے قدسیوں نے اعلان کررکھا تھا کہ یہ لاش ایک مرتد کی لاش ہے۔ جنازہ گاہ تک جسد خاکی پہنچانے کے لیے سات افراد کے کندھے میسرآ سکے۔ ان سات میں بھی کچھ دور صوابی کے تھے، جو لاش کے ساتھ مردان سے آئے تھے۔ بابا نے کہا، کیا لوگوں کو جنازے کے لیے نہ بلایا جائے؟ ہر ایک کو اتفاق تھا کہ بلایا جائے، مگر بلائے گا کون اور آئے گا کون؟
آج تو جنازہ گاہ میں وہ ذمہ دار شخص بھی موجود نہیں تھا جو پیشے کے مطابق جنازے کا اعلان کرتا ۔ وہ آج یہاں ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ یہ وہ راہ نہیں تھی جہاں سے تکبیر فروش گزرتے ہیں۔ یہ وہ مقام تھا جہاں منصور کے لیے سولی سجائی جاتی ہے۔ گاوں کا سناٹا یہی تو پوچھ رہا تھا کہ کون ہے جو اس وقت موت کے کان میں اناالعشق کا صور پھونک سکے۔ یہ رہا افیم کا دھواں اڑاتا مست مولائی نثارے، جو ایک طرف خاموشی سے بیٹھا حالات دیکھ رہا ہے۔ وہ اٹھا اور کلمہ شہادت پڑھ کر ناقوس بجا دیا۔ اس نے صدا دینا شروع کی تو پھر روکے نہیں رکا۔ وہ جنازہ گاہ کے دروازے پہ جا پہنچا۔ وہ بلا بھی رہا تھا فریاد بھی کررہا تھا۔ مر گئے، کیا پختون مرگئے؟ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ اس مولائی کی صدا پر کئی قدموں نے حوصلہ پکڑا اور جنازہ گاہ کی طرف اٹھنے لگے۔ اتنے لوگ تو آہی گئے کہ “پختون ولی” کی لاج رہ گئی۔ ابھی صفیں ترتیب میں نہیں آئی تھیں کہ ایک خفیہ رستے سے ہوتے ہوئے شاہ ولی پہنچ گیا۔ شاہ ولی پاس کے گاوں سے آیا تھا۔ تبلیغی جماعت سے وابستہ ہے۔ پہنچ کر کہا، جنازہ میں پڑھاوں گا۔ شاہ ولی یہ خبر سن کرآیا تھا کہ عرش کے نمائندوں نے جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا ہے۔ دو رکعت کے دیگر امام عزتِ سادات بچائے پھر رہے ہیں۔ بلند آہنگ مشران بھی پریشان ہیں کہ مظلوم کو کندھا دیا تو روز حشر خدا کو کیا جواب دیں گے۔ اس عالم میں کہ جب مشال کے لیے قبرستان کی بجائے ایک کھیت میں قبر کھودی جارہی تھی، شاہ ولی نے بڑھ کر جنازہ پڑھایا۔ شیرین یار کہتے ہیں شاہ ولی نے آخری دو تکبیروں کے بیچ کا دورانیہ اتنا بڑھا دیا کہ جی گھبرانے لگا تھا۔ جانے کیا وجہ رہی ہوگی، کچھ بعید نہیں کہ مشال کے تابوت کو دیکھتے دیکھتے شاہ ولی نے جی ہی جی میں انسانیت کا وہ ماتم کیا ہو کہ سلام پھیرنا بھول گیا ہو۔ شیرین یار اوراس کے ساتھیوں کو سلام۔ مست مولائی نثارے کو سلام۔ شاہ ولی کو سلام۔ آپ ہمارے ہیرو ہیں۔ آپ نے اس لمحے کے جبر کو چیلنج کیا کہ جس لمحے نامور ہستیاں اس لیے چپ تھیں کہ کہیں مشال پہ الزام ثابت ہی ہوگیا تو ہم کعبے کس منہ سے جائیں گے۔
ایک پیارے قلم شریک بھائی جنازے کو لے کر سیکولرز پہ طنز کرتے ہیں کہ چلیے کوئی نماز تو بھلی لگی، مگر یہ دوست نہیں جانتے کہ مست مولائی کی صدا اور شاہ ولی کی تکبیر معمول کی نماز نہیں تھی۔ یہ توعثمان ہارونی کا وہی رقص تھا جو شیما کرمانی نے خنجر کے سائے میں انجام دیا تھا۔ بات جنازے کی نہیں ہے، بات اپنے حصے کی گواہی کی ہے۔ منبر نے معتصم باللہ کے دربار میں کوڑے کھانے والے امام احمد ابن حنبل کے حق میں گواہی دینے سے انکار کردیا تھا، مشال کے حق میں کیوں دیتا۔ کوئی میرے دوست کو بتائے، آپ کل سے اُس تکبیر میں الجھے ہوئے ہیں جس کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ ہم اس تکبیرکا رونا رورہے ہیں جس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ یہ ملاں کی اذان نہیں تھی۔ یہ کسی چاک گریبان کی صدا تھی۔ کچھ تو فرق ہوگا ہی۔ یقین نہ آئے تو اقبال سے پوچھیے۔ الفاظ ومعانی کا تفاوت معلوم ہو جائے گا۔