تحریر: عزیزعلی داد
کچھ سال پہلے کا ایک واقعہ ہے۔ میں گلگت میں ایک ادارے میں کام کر رہا تھا۔ میرے ہمکاروں میں ایک خاتون بھی شامل تھیں۔ وہ پاکستان کے ایک بڑے شہر کے ایک علمی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ علم کے ساتھ ساتھ گھرانے کی پہچان میں لکھنو کے آداب و اطوار اور شائشتہ اردو زبان بھی شامل تھے۔ ہم آفس میں ایک دوسرے دفتری ساتھی کے ساتھ کمرہ شیئر کرتے تھے۔ ہمارے کام کا آغاز دعا سلام کے بعد گزری شام میں ایک دوسرے کی مصروفیات اور دن کو کرنے والے کام کے متعلق بات چیت سے شروع ہوتی تھی۔ خاتون معروف ملکی اور غیر ملکی جامعات کی پڑھی ہوئی تھی اورعلم البشریات ان کی دلچسپی کا محور تھا۔ اس لیے چاۓ اور کھانےکےوقفے کےدوران عمرانیات، بشریات اور فلسفے کے موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی۔ چونکہ خاتون انتھرو پولوجسٹ تھی اس لیے مقامی ثقافت کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور ہمیشہ پاکستانی لباس پہنا کرتی تھی۔ میں ذرا اپنے آپ سے تنگ آیا ہوا بندہ تھا تو لامحالہ ان سے اختلاف ہوجاتا تھا۔
ایک دن وہ آفس میں داخل ہوئیں اور سلام دعا کرنے کے بعد خاموشی سے بیٹھ گئی۔ میں نے کچھ توقف کے بعد پوچھا "سب ٹھیک تو ہے نا؟ آپ بہت فکرمند نظر آرہی ہیں۔” پہلے تو انھوں نےکہا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ مگر چاۓ کے وقفے کے دوران میرے اور میری ایک اورساتھی خاتون کے استفسار پر بتا دیا کہ آج وہ آفس میں داخل ہونے کے بعد اپنے کمرے کی طرف آرہی تھی تو آفس کا ایک ملازم نے آکر کہنے لگا کہ اس طرح کے کپڑے مت پہنئیے۔ اس پر خاتون نے کہا کہ "شلوار قمیض میں کیا برائی ہے”۔ مذکورہ شخص کہنے لگا کہ بازو کے کپڑے سی تھرو (نظر آنے والے) ہیں جو کہ ہماری ثقافت اور قومی حمیت کے خلاف ہیں۔ میں نے کہا کمال ہے ایک سال سے ہم ساتھ کام کررہے ہیں مگر مجھے کبھی بھی سی تھرو نظر نہیں آیا۔ مگر اس ثقافتی رکھوالے اور غیرت کے شاہین کو سی تھرو نظر آگیا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آخر ہمیں عورتوں میں صرف اس کے جسم کے حصے ہی کیوں نظر آتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے عورت کو جسم سمجھ رکھا ہے جس کے اندر روح نہیں ہے۔ اب عورت میں روح نہیں ہے تو مطلب یہ ہوا کہ وہ مذہب کی اہل نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم شینا میں کہتے ہیں "چییئیی جیک دینک (عورت کا کوئی مذہب نہیں)۔ اب عورت میں روح اور مذہب نہیں تو وہ انسان بھی نہیں ہے۔ انسان کا متضاد حیوان ہے۔ چونکہ حیوان اچھے برے کی تفہیم نہیں کرسکتا اس لیے اس کو نکیل ڈھالنے اور ہانکنے کے لیے ایک انسان چاہیے،جوکہ ایک غیرت مند مرد ہی کرسکتا ہے۔
یہ صورتحال صرف گلگت تک محدود نہیں بلکہ سارے پاکستان میں یہ رویے موجود ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ جدیدیت کے اس دور میں ہم خوف کے ساۓ میں اپنی زندگی جی رہے ہیں۔ یہ جو خوف ہے ہماری انفرادی اور اجتماعی شعور میں ایک کالے آسیب کی طرح پیوست ہوگیا ہے اور فکر اور نظر کو تاریک کردیا ہے۔اس لیے ہمارے اندر سے کوئی شعور اور رجائیت کی روشنی نہیں پھوٹتی۔ ہماری ثقافت تاریک زندان بن چکا ہے جہاں سے بلائیں نکل کر ہمیں نگل رہے ہیں۔ اس زندان کو ہم نے معاشرے کا نام دیا ہے۔
ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی سہمی اور تنگ نظرذہنیت کس طرح جنم لیتی ہے اور اس کا تدارک کیسے کیا جاسکتا ہے؟ ایک گھسا پٹا نسخہ یہ ہے کہ بچوں کو تعلیم دو۔ اب گلگت بلتستان والے اپنے بچوں کو تعلیم تو دے رہے ہیں مگر علم نہیں دے رہے ہیں۔ علم وہ ڈگریاں نہیں ہیں جو ہمیں معاشرے میں اپنے لیے کوئی کردار یا مقام بنانے میں مدد کرتا ہے۔ جبکہ علم ہمارے دماغوں میں لگے قفل کھول کر ہمارے ذہنی آفق کو کشادہ کرتا ہے۔ یوں وہ ہماری ذات کو غیر مرئی یا نظر نہ آنے والی زنجیروں سے آزاد کردیتا ہے۔ ایک آزاد اور کشادہ ذہن نہ صرف سائنسی میدان میں نئی ایجادات کرتا ہے بلکہ نئے افکار کی تشکیل کرکے ایک متبادل معاشرے یا دنیا کی تخلیق کرتا ہے۔
مگر ہمارے ہاں علم کے ذریعے نہ تو ذہن آزاد ہورہا ہے اور نہ ہی ذات کی تکمیل ہورہی ہے۔یہاں ذہن اور ذات دونوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ اور اس قتل پہ آواز اٹھانے والے بے غیرت قرار پاتے ہیں۔ سائنسی ایجادات اور افکار تو ہم سے نوری فاصلے پر ہیں۔ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کیونکہ ہمارا گھرانہ، معاشرہ اور جامعہ یا یونیورسٹی بچوں کو ایسی روایات کی چغالی کرنے پر مجبور کرتے ہیں جو بالآخر آزاد فکر اور سوچ کو اپاہج کردیتی ہے۔کیا آپ کا جسم گلی سڑی چیزوں کو کھا کہ تندرست اور توانا رہ سکتا ہے؟ اگر نہیں تو سڑےہوۓخیالات اور متروک اقدار آپ کو ذہنی طور پر کہاں توانا رکھ سکتے ہیں؟
آپ یقینا یہ پوچھیں گے کہ باقی سب چیزیں تو سمجھ میں آگئیں مگر یونیورسٹی میں ذہن کے مفلوج ہونے کا سبب سمجھ میں نہیں آیا۔ اس کا جواب میں عرض کرتا ہوں کہ یونیورسٹی علم کا وہ شہر ہے جہاں آپ نے داخل ہونے سے پہلے ہی اپنی ذات پات، زبان، رنگ و نسل، مذہب اور باہر کاسب کچھ دروازے پر چھوڈ کر اپنے آپ کو علم کے حوالے کرناہےتاکہ نئے خیالات آپ کی شخصیت کی تشکیل نو کرسکے۔ اس طرح نیا ذہن جنم لیتا ہے۔ یونیورسٹی کا یہ نیا ذہن جب معاشرے میں داخل ہوتا ہے تو وہ علم کی روشنی میں معاشرے میں نئے افکار اور رویے متعارف کرواتا ہے۔ یوں معاشرے میں ایک فکری تبدیلی رونما ہوتی ہے جو نئے اور آذاد معاشرے اور فرد کی تخلیق کے نتیجے کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
مندرجہ بالا سطور میں یونیورسٹی، علم اور معاشرتی تبدیلی کے درمیان پیچیدہ تعلق کاایک بہت ہی سادہ سی وضاحت اس لیے کی گئی ہےتا کہ گنجلک معاملات کی سادہ طریقے سے تفہیم ہو۔ گلگت بلتستان کے تناظر میں یونیورسٹی کے ذریعے ایک نئی ذہنیت اور شخصیت کی تشکیل نو میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے معاشرتی نفسیات اور اقدار ہیں۔گلگت میں یونیورسٹی میں نہ نیا ذہن بن رہا ہے اور نہ ہی یہ باہر نکل کر معاشرے کی سوچ کو تبدل کر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہونیورسٹی سے باہر گلگت کا الجھا اور بیمار ذہن یونیورسٹی کے اندر داخل ہوچکا ہے۔ یوں یونیورسٹی کا ذہن مفلوج ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت باہر کے معاشرے میں مروج غلیظ بیانیوں کا اکھاڑہ بن گیا ہے۔
ہم گلگت والوں کے لیے فیس، اسکالرشپ، بنیادی سہولیات، تحفظ، میعاری تعیلم، تحقیق اور علم کی ترویج اہم نہیں ہے۔ ہمیں تو ایک ان دیکھی غیرت، بیمار اقدار اور فرقہ واریت عزیز ہے۔ یونیورسٹی میں ہم اپنی شخصیت کو علم کے عکس میں پیدا کرنے کی بجاۓ ہم علم کو اپنے تعفن زدہ ذہنیت اور جامد ذہن کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔یوں علم کی دوا، ہمارے بیمار ذہن کی بدولت اب خود بیمارہوگیا ہے۔ اس طرح ہم اپنے ہزاروں بچوں کے عقلی قتل کا باعث بن رہے ہیں۔
اب قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اس جامد اور بیمار ذہن کے مکمل نرغے میں آچکی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے بچوں کی ذہنی صحت کی فکر کرنی چاہیے۔ اس کی تازہ مثال حال ہی میں یونیورسٹی کی طرف سے جاری ہونے والا نوٹیفیکیشن ہے جس میں طلبا اور طالبات کا ڈریس کوڈ بیان کیا گیا ہے۔ اس کوڈ کی روشنی میں کھلے گلے والی شرٹ، تنگ کپڑے، سی تھرو کپڑے، لڑکیوں کے کھلے بال، لانگ نک لائن، اور تین تہائی سے زیادہ نمایاں بازو کا نظر آنا وغیرہ کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے کے ساتھ سخت منضباطی کاروائی کی دھمکی دی گئی ہے۔
ہم عجیب و غریب قوم ہیں۔ ہمیں اپنے بہنوں اور بیٹیوں پر بالکل اعتبار نہیں ہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ ہماری غیرت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ایک طرف وہ دنیا ہے چاند سے نکل کل مریخ پہنچ گئی ہے اور دوسرے سیاروں تک کے فاصلے ناپ رہی ہے،اور دوسری طرف ہم ہیں کہ طالبات کے بازوں کے کپڑوں کا سائز ناپ رہے ہیں۔ اتنا خوفزدہ معاشرہ آج کی اس دنیا کا مقابلہ تو کجا زندہ بھی نہیں رہ سکتا۔ یہ غیرت اور اقدار کے نام جو وویلا ہورہا ہے، یہ اس قریب مرگ معاشرے کے نوحے ہیں۔ اگر ہماری ثقافت اتنی ہی خوددار ہے تو براہ کرم یونیورسٹی کو ہی بند کردیں کیونکہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہی نہیں ہے۔ لباس بغیر شلوار والا لمبا چوغہ پہنئے۔ تعلیم تو کبھی بھی ہماری میراث نہیں رہی ہے۔ اس کو خیرباد کہہ دیجئے۔اصل خطرہ تو ثقافت میں ڈوبے ہوۓ پدرشاہی ذہنیت کی ہے جسے لڑکیوں اور طالبات میں فحاشی نظر آتی ہے۔ لیکن اپنی حرکات نظر نہیں آتی ہیں۔ کیونکہ پردے کی تعریف یہ ہے کہ عورت اپنے آپ کو چھپاۓ اور مرد اپنے غلیظ کرتوتوں کو۔
گلگت کی ایک دیومالائی کہانی میں ایک یتیم بچی جس کا نام شاری بانو تھا اپنی زندگی سے تنگ آجاتی ہے۔ چونکہ وہ خوبصورت ہوتی ہے تو وہ مردوں کے ہر طرح کے حملوں اور حراسانیوں کے زد میں ہوتی ہے۔ ایک دن وہ پھولوں کے باغ میں پناہ لیتی ہے اور روتی ہوئی اپنے دیوی پریوں سے درخواست کرتی ہے کہ وہ اس کو اپنی پناہ میں لے کر معاشرے کے ظالم مردوں سے بچاۓ۔ اس کے کرب کو دیکھ کر پریاں برفیلے پہاڑوں سے نیچے اترتی ہیں اور پرستان لے جاتے ہیں۔شاری بانوکی سہیلیاں اس کی گمشدگی پر پریشان ہوجاتی ہیں۔ گاوں کے بزرگ لوگ شامن/دنیل کو بلاتے ہیں۔ وہ شامن/دنیل اپنے آپ کو مقدس درخت کی دھونی میں ڈھال کر وجد میں آکر گانے لگتی ہے۔ گاتے ہوۓ بتاتی ہے کہ شاری بانو اپنی رکھوالی کرنے والی پریوں کے ساتھ پرستان میں ہے اور وہاں پہ وہ اتنی خوش ہے کہ آپ اس کا خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتے ہیں۔ وہ گاتے ہوۓ پیشن گوئی کرتی ہے کہ تمھارے ظلم نے شاری بانو کو ہم سے دور کردیا۔ اب تمہارا یہ ظالم رویہ تم لوگوں کو ہی نیست و نابود کرے گا۔ کچھ سال بعد شاری بانو اپنی سہیلیوں سےملنا چاہتی ہے۔ وہ اپنی ماں پری سے نیچے وادی کے لوگوں کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کرتی ہے۔ اس کی رکھوالی کرنے والی پری کہتی ہے کہ تم جاسکتی ہو مگر وہاں رہ نہیں سکتی۔ تمہیں واپس آنا پڑے گا، کیونکہ ہمارے مقدس اطوار اور طریقے انسانوں کی صحبت سے ناپاک ہوجائینگے۔
اس شرط کو وہ لڑکی مانتی ہے اور ہوائی گھوڑے اجشگر پر سواری کرکے گاوں پہنچتی ہے۔وہ گاوں کی سہیلیوں سے پوچھتی ہے کہ زندگی کیسی جارہی ہے؟ اس کی سہیلیوں میں کئی کی شادی ہوچکی ہے اور کچھ کی طلاقیں۔ کچھ اپنے گھر میں ہی ظلم وستم کا شکار ہو رہی تھیں تو کچھ طعنوں اور بدنامی کے شکار۔ سب کے سب مردوں کی محتاج تھیں۔ کسی کے پاس نہ کوئی اپنا خواب تھا نہ خواہش۔ وہ ذہنی اور روحانی طور پر بنجر ہوچکیں تھیں۔ بس جسم مردوں کے حکم کے مطابق بچے پیدا کررہےتھے۔ وہ سب یک زبان ہوکر شاری بانو سےپوچھتی ہیں کہ پرستان کی زندگی کیسی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ وہ مردوں کے زندان میں رہتے ہیں۔ پھر انھوں نے پرستان کی مکین لڑکی سے پوچھا کہ اس کی زندگی کیسی جارہی ہے۔ اس نے کہا کہ پرستان میں سب عورتیں ہی عورتیں ہیں۔ وہاں جائیداد کا کوئی تصور نہیں ہے۔ وہاں کی خوراک پھول کی خوشبو ہے۔ ہم ہر رات ایک نیا خواب دیکھتے ہیں۔ہر دن ہر منظر نیا ہوتا ہے۔ رنگ بارہ نہیں ہزاروں ہیں۔گاوں کی اپنی سہیلیوں کی بے بسی اور دکھ کو دیکھ کر پرستان کی باسی شاری بانو کہتی ہے۔ کہ تم بھی پرستان چلے آو۔ مردوں کے بغیر زندگی سہانی ہے۔ سننے میں یہ آرہا کہ اس دن گاوں کی سب عورتیں غائب ہوگئیں۔ شامن/شامن کا کہنا ہے کہ وہ خوش وخرم اپنی زندگیاں پرستان میں گزار رہے ہیں۔ تاریخ دان بتاتے ہیں کہ اس کے بعد مرد ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے اور قتل کرنے لگے۔ بالآخر ان کا گاوں سے ہی صفایا ہوگیا۔
اس لوک کہانی کو سامنے رکھتے ہوئی قراقرم یونیورسٹی کی انتظامیہ سے عرض ہے کہ پہلے یونیورسٹی میں موجود مردوں کی آنکھوں پر بلائنڈرز لگالیں۔ عورتیں خود بخود محفوظ ہوجائین گی اور عزت بھی محفوظ ہوگا۔ اقدار اور افکار کو عورتوں سے نہیں، بلکہ ہمارے بیمار ذہن سے خطرہ ہے۔ قراقرم یونیورسٹی میں یہی ذہنیت علم کو کھا رہی ہے۔ یہی ذہنیت آج خود ہمیں نگل رہی ہے اور ہم ہیں کہ اپنے موت پر شادیانے بجا رہے ہیں اور اپنی جہالت کا جشن یونیورسٹی میں منا رہے ہیں۔
عزیز علی داد ایک نوجوان مفکر اور لکھاری ہیں۔ وہ گلگت بلتستان کے سماجی و ثقافتی موضوعات پر قومی اور مقامی اخبارات اور عالمی جریدوں میں مضامین لکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں بام جہاں اور ہائی ایشیاء ہیرالڈ کے صفحات پر شائع ہوتے ہیں۔