Baam-e-Jahan

چاغی میں ڈرائیور کی ہلاکت: بی این پی کا وفاقی کابینہ کا حصہ بننے سے انکار

بشکریہ بی بی سی اردو


وفاق میں حکومت کی اتحادی ہونے کے ناطے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کو بھی وفاقی کابینہ میں نمائندگی دی گئی تھی لیکن باقی جماعتوں کے اراکین کی طرح بی این پی کے اراکین نے حلف نہیں اٹھایا ہے۔

قومی اسمبلی میں بلوچستان نینشل پارٹی کے اراکین کی تعداد چار اور سینٹ میں دو ہے جن میں سے دو کو کابینہ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بتایا کہ پارٹی کے دو اراکین میں سے ایک کو وفاقی وزیر جبکہ دوسرے کو وزیر مملکت کے طور پر شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

لیکن پارٹی کے اراکین نے نہ صرف حلف نہیں اٹھایا بلکہ کابینہ کے اراکین کی تقریب حلف برداری میں بھی شریک نہیں ہوئے ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے اراکین نے حلف کیوں نہیں اٹھایا ؟

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ پارٹی کے دو اراکین کو کابینہ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور انہوں نے منگل کو دوسرے اراکین کے ساتھ حلف اٹھانا تھا۔

انہوں نے اہنے اراکین کے حلف نہ اٹھانے کی وجہ بلوچستان کے سرحدی ضلع چاغی میں پیش آنے والے واقعات کو قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے گزشتہ جمعرات کو ضلع چاغی میں ان گاڑیوں کو روکا جن کے ڈرائیور اپنے بچوں اور خاندان کے افراد کا پیٹ پالنے کے لیے افغانستان سے اشیا لاتے اور لے جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان ڈرائیوروں میں سے ایک کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا جبکہ دیگر ڈرائیوروں سے گاڑیاں تحویل میں لے کر ان کو مبینہ طور پر ناکارہ بنانے کے لیے ان کے انجنوں میں ریت ڈال دی گئی۔

ان کا دعویٰ ہے کہ چاغی میں اس شدید گرمی اور روزے کی حالت میں ڈرائیوروں کو کہا گیا کہ وہ جدھر جانا چاہتے ہیں چلے جائیں۔

‘اس ریگستان میں لوگ پیدل نکلے جن میں سے بعض بے ہوش ہوئے جبکہ بعض کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ ہلاک ہو گئے ہیں۔‘

ایک سوال کے جواب میں کہ کیا صحرا میں ڈرائیوروں میں کسی کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ وہاں سے جو ویڈیوز آئی ہیں ان میں بعض لوگ ویران علاقوں میں کھلے آسمان تلے زمین پر بے حال پڑے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈرائیور کی ہلاکت کے خلاف اور اپنے دیگر مطالبات کی حمایت میں لوگوں نے نوکنڈی اور چاغی میں احتجاج کیا تو ان پر گولیاں چلائی گئیں جن میں سے متعدد زخمی ہوئے اور ان میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اس حالت میں کہ لوگ لہو لہان ہیں، ہم لوگ کس منھ سے وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھاتے۔ اس لیے ہم نے مشاورت کے بعد حلف نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔‘

‘ذمہ دار اہلکاروں کو سزا ملے تو ہمیں فرق محسوس ہوگا’

سردار اختر مینگل نے کہا کہ ‘وزیر اعظم شہباز شریف نے ان سے بات کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت ان واقعات کے حوالے سے کمیشن بنائے گی۔’

انھوں نے کہا کہ ‘میں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ ہم نے تحریک انصاف کے ساتھ بھی حکومت سازی میں ساتھ دیا۔ وہ بھی ہمیں وزرات دے رہے تھے لیکن ہم نے وزراتیں نہیں لیں کیونکہ اس حکومت میں بھی بلوچستان میں نسل کشی نہیں رک سکی اور یہ اب بھی جاری ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت میں ان کے لوگ کم از کم تین ساڑھے تین سال تک وزیر رہ سکتے تھے لیکن بلوچستان میں مبینہ نسل کشی نہ رکنے کی وجہ سے وہ اس حکومت کا حصہ نہیں بنے۔ ’اب معلوم نہیں کہ اس حکومت کا عرصہ سال ہو یا نہ ہو تو ہماری پارٹی کے لوگ ایسے حالات میں کس طرح وزیر بن سکتے ہیں۔‘

سردار اختر مینگل نے کہا کہ انھوں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ کمیشن بنایا جائے اور ذمہ داروں کا تعین ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو سزا بھی ہو تو ’ہم محسوس کرسکیں گے کہ سابق اور موجودہ حکومت میں کوئی فرق ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ’ہمیں کہا گیا ہے کہ کمیشن بنایا جائے گا اور جو لوگ ذمہ دار پائے جائیں گے ان کو سزا دی جائے گی لیکن فی الحال حکومت کی مصروفیات زیادہ ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان مصروفیات میں معلوم نہیں کب کمیشن بنے گا اور ذمہ داروں کو کب سزا ہوگی لیکن فی الحال ایسی صورتحال میں ’ہمارے لیے کابینہ کا حصہ بننا مشکل ہے‘۔

سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے حوالے سے ایک سوال پر انھوں نے بتایا کہ وہ تین مرتبہ آصف علی زرداری کے گھر گئے جس کے باعث وہ جذبہ خیر سگالی کے طور پر گزشتہ روز ان سے ملنے آئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ دیگر امور کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری سے بھی بلوچستان کی صورتحال پر بات ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں