فرنود عالم
شبیر کانچ والا نے درست ہی کہا تھا، حکومت کا خاتمہ ہو گیا تو بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو معاشرے کا کارامد فرد کیسے بنایا جائے۔ یہ تو ہتھے سے ہی اکھڑ چکے ہیں۔ وضع داری پہلے بھی کم تھی اب نام کو بھی نہیں رہی۔
منہ اندھیرے زبان پر گرم مصالحہ پیلتے ہیں اور وہم و گمان کے راستوں پر نکل جاتے ہیں۔ بات کرو تو نفرت کا غیر فطری اظہار کرتے ہیں۔ جواب میں نفرت نہ کرو تو اسے اپنی کرامت سمجھتے ہیں۔ ان کے لہجے میں بات نہ کرو تو اسے بزدلی سمجھتے ہیں۔ عزت دو تو چوڑے ہوجاتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ حب الوطنی کی سند لینے کے لیے ہماری چاپلوسی کی جارہی ہے۔ عجیب سی اکڑ ہے، حال بھی پوچھ لو تو آگے سے الف ہوجاتے ہیں۔ مطلب کی بات کرو تو بھی ان کے ناریل چٹخ جاتے ہیں۔
بھائی آپ کیوں ناراض ہیں، اِس سوال کا جواب بھی ٹھیک سے نہیں دے پاتے۔ ون وہیلنگ بالکل ٹھیک کرتے ہیں، اگلا ٹائر زمین پہ لگتے ہی بائیک ٹھوک دیتے ہیں۔ گالم گفتار بے تکان کرتے ہیں۔ سیاسی بات کرو تو تیسرے جملے پر ہانپ جاتے ہیں۔ خود خان صاحب کا دورانِ حکومت بھی یہ عالم تھا۔ کارکردگی پر بات کرتے تو لفظ چبانے لگتے۔ مخالف کو گالیوں کے بھاڑ میں جھونکنے کا سوال آتا تو ایک دم رواں ہوجاتے۔
اب تو خود راستی اور قطعیت کے نامعلوم درجے پر ہیں۔ خود کو دنیا کا مرکزی نقطہ تصور کیا، رفتہ رفتہ پھر اس پر یقین بھی کرلیا۔ اب تو لگتا ہے کوہِ طور سے صرف آٹھ پتھر کی دوری پر ہیں۔ ابھی پہاڑ پہ چڑھیں گے اور کوئی دعوی کردیں گے۔
یہ سب کیوں؟ ہمارا مینڈیٹ چھینا گیا ہے۔ چلو چھِن گیا، تو اب بیانیہ تو سیاسی بنالو۔ لیکن نہیں، بیانیہ یہ ہے کہ ہمیں باجوہ نہیں چاہیے فیض چاہیے۔ اِتنی سی دانشمندی ہے جس پر اِتنا سارا ترا رہے ہیں؟
آپ کا مینڈیٹ اگر چھینا بھی گیا ہے، تو یہ سب حالات موافق نہ رہنے پر عدمِ اعتماد کے راستے سے ہوا ہے۔ جنرل مشرف نے دن کے اجالے میں مینڈیٹ مارا تھا اور جناب نے گھنگرو توڑ دیے تھے۔ریفرنڈم والے دن مشرف بھی ابھی سو رہے تھے کہ جناب جاگ چکے تھے۔ ووٹ کرنے کے بعد سینہ پھُلاتے ہوئے گھر واپس گئے تھے۔ کیا کسی بھی مشتعل کارکن نے راستہ روک کر جناب کا ٹینٹوا دبایا تھا؟
2018 میں ایک دو جماعتوں کا بھی نہیں، پوری قومی قیادت کا مینڈیٹ مار کر آپ کی مانگ میں سندور بھرا گیا تھا۔ جیلیں ہوئیں، تذلیل ہوئی، تعاقب ہوا، گھیراو ہوا، بر طرفیاں ہوئیں، دیواریں پھلانگی گئیں، گاڑیوں سے منشیات برامد کی گئیں، اول آخر درود شریف پڑھ کر جھوٹ بولا گیا، جسٹس ثاقب نثار کو سنتیں چیک کرنے پر لگایا گیا اور غداری کے مقدمے ہوئے۔ حکومت بنانے اور قائم رکھنے کے لیے بندوقچی ترازو میں مینڈک تولتا رہا۔ کسی نے آپ کا گھیراو نہیں کیا۔ کیا اس لیے کہ وہ طنابیں اکھیڑنا نہیں جانتے تھے؟
بندوق کے احترام کا سوال آیا تو ٹویٹر سپیس کو پندار کا صنم کدہ بنادیا گیا اور دوسری طرف ہر شریف انسان پر گلی کا ایک لونڈا چھوڑ دیا گیا۔ اظہارِ جرات کا یہ کون سا سلیقہ ہے بھائی۔ جتنی رواداری پتلون کے لیے ہوسکتی ہے اس سے کچھ کم ہی سہی، لنگوٹ کے لیے کیوں نہیں ہوسکتی۔ مسئلہ اور ہے۔ خادم رضوی کا جنازہ جو بہت سہولت سے اٹھاسکتے ہیں، ذرا سی بات کا وزن بھی وہ کیوں اٹھائیں گے۔