پرویز فتح
دُنیا بھر میں قومی آزادی، سماجی انصاف، انسانی برابری اور محنت کشوں کے حقوق کے علم بردار، انقلابی، سوشلسٹ، مارکسسٹ پارٹیوں اور حامیوں نے 5 مئی کوعظیم فلسفی اور سوشلسٹ نظریہ کے بانی اور فلسفی کارل مارکس کی 204 ویں سالگرہ منائے۔ قبل ازیں، دنیا بھر کے ترقی پسندوں نے سال 2018ء کو مارکس کے دو سو سال کے طور پر بھرپُور طریقے سے منایا تھا۔
اس سلسلے میں برطانیہ کے شہرلیڈز میں برطانوی کیمونسٹ پارٹیاور ساوتھ ایشین پیپلز فورم نے ایک مشترکہ تقریب کا انعقاد کیا تھا ۔ جس میں نامور مارکسی دانشوروں اور معیشت دانوں کے ساتھ راقم کو بھی اظہارِ خیال کا موقع ملا۔ اُس سال دُنیا بھر میں منعقد
ہونے والے سینکڑوں تقریبات نے مارکسی فلسفہ کی آج کے دورمیں افادیت اور ضرورت اور نوجوانوںمیں بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئےایک نئی امیدپیدا ہو گئی اور بہت سے دلوں میں ہلچل پیدا کر دی تھی۔ اُن تقریبات میں نامور دانشوروں کی جانب
سے بھرپور تقریریں کی گئیں اور مقالے پڑھے گئے۔ مارکس کی یاد میں ہونے والی تقریبات کے سلسلے میں کچھ قابل ذکر کام کتابوں، اخباری مضامین، ٹی وی مباحثوں، بروشیرز اور دیگر شکلوں میں سامنے آئے۔ بی بی سی نے مارکس کو گزشتہ دو سو سال میں پیدا ہونے والے فلسفیوں میں سب سے بڑااور ملینیم کا فلسفی قرار دیا تھا۔
جرمنی کے جنوب مغربی شہر ٹریر میں 5 مئی 1818ء کو پیدا ہونے والے کارل مارکس کے والد ہینرک مارکس ایک وکیل تھے
جنہوں نے یہودی عقیدے کو ترک کر کے عیسائیت اختیار کرلی تھی، کیونکہ اس زمانے میں جرمن حکومت نے یہودیوں پر
قانون کے شعبے میں درس و تدریس پر پابندی عائد کررکھی تھی۔ مارکس کا خاندان دولت مند نہ ہونے کے باوجود آرام دہ زندگی
گزار رہا تھا اور والدین کی خواہش کے مطابق مارکس نے بون یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔
مارکس کی معاشی اور سماجی مسائل سے دلچسپی نہ صرف جرمنی کے عوام کی بد حالی اور محرومی دیکھ کر جاگی تھی بلکہ برطانیہ اور فرانس جیسے ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کے حالات و واقعات سے بھی اُبھری تھی۔ 1830کے آخر میں برطانیہ کے محنت کشوں میں انقلابی تحریک کی لہر اور 1831ء اور 1834ء کی فرانس میں لیونیس سلک ورکرز کی بغاوتوں جیسے واقعات نے1842ء میں اپنے نکتہ عروجپر پہنچ کر بھرپُور سیاسی کردار ادا کیا۔اسی وقتکے یورپ کے نہایتترقی یافتہ ملکوں میں بورژوازی اور پر ولتاریہ، یعنی محنت کشوں میں طبقاتی کشمکش کیشکلواضعاور شدیدہوتا جا رہا تھا ۔ پرولتاریہطبقہ کی جدوجہد میںشمولیت نے مارکس کو اس بات پر مجبور کیاکہ وہ نسبتاً نئے سماجی و معاشی مسائل میں گہری دلچسپی لے ۔ یوں اس کی دلچسپی سوشلسٹ ادب میں بڑھیجو ان دنوں برطانیہاور فرانسمیںشائع ہو تا تھا۔رانشے زاتؤنگ میں کام کرنے، زندگی سے بیباکانہ نپٹنے، جرمنی کےعام عوام کی مساعی کو دیکھنے اور دوسرے ملکوں میں چلنے والی مزدور مزتحریکوں سے واقفیت حاصل کرنے کی وجہ سے نو جوان مارکس پربہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
کارل مارکس اور مارکسزم کی آمد انسانیت کی تاریخ میںسب سے بڑا انقلابآیا ۔ مارکسزم نے انسانی تاریخاور سماجی رشتوںاور تلخ حقائق اور تضادات کی ایک سائنسی اور فلسفیانہتفہمو تشریحاور انسانوں کو استحصال کی زنجیروں سے آزادکرانے اور ضروری قدروں کا ادراککرنے کا عملی طریقہ فراہم کیا ۔ مارکس نے جدلیاتی مادیت کی روشنی میں تاریخ اور اس کی تبدیلی کے عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے معاشی استحصال اور قدرِ زائد کے بارے میں پائے جانے والے غلط تصورات اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غیر انسانی رویوں کی واضع نشان دہی کی، اور اُسنے نہصرف اس کا وسیع تر تجزیہ کیا، بلکہ انسانوں کو معاشی غلامی اور استحصال سے نجات دلانے کا قابلِ عمل طریقہ بھی بتایا۔مارکسزم کا جامع دائرہ کار، جو نہ صرف پیداوار کی مادیت پسند بنیادوں پر محیط ہے، بلکہ زندگی کی دیگر باریک جہتوں کوبھی سمیٹتا ہے، اوراسے انسانی شعور کے سماجی، معاشی اور ثقافتی پہلوؤں کو سمجھنے اور تبدیل کرنے کا ایک جامع طریقہ بناتا ہے۔ اِس لیے مارکسزم کو زندگی کی معاشی جہتوں کے محض مطالعہ تک محدود کرنا، یا صرف معیشت کے مطالعہ تک محدُود کرنے کا تصور صریحا´غلط ہے۔ بلاشعبہ مارکس نے زندگی کے باریک پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھا، جیسے جمالیات،اخلاقیات، موسیقی، وغیرہ۔
مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب داس کیپیٹل کی پہلی جلد 14 ستمبر 1867ء کو شائع کی، جس میں انہوں نے سرمایہ دارانہنظام اور اس کی اپنی تباہی کی طرف لامحدود رجحانات کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا۔ داس کیپیٹل کی جلد دوم1885 ء میں اور جلد سوم 1894ء میں شائع ہوئی، جنہیں فریڈرک اینگلز نے مارکس کے مرتب کردہ نوٹس کی بنیاد پر شائع کیا تھا۔ مارکس نے اپنے مادی نکتۂ نظر کی اساس پر اس خیال کو فروغ دیا کہ نظریہ عوام کو اسی وقت اپنی گرفت میں لے سکتا ہے، جب وہ ان کی حقیقی بنیادی تضادات کی عکاسی کرے۔ اس نے ثابت کیا کہ محنت کش ایک ایسا طبقہ ہے جو اپنیمعروضی صورتحال کی بنا پرترقی پسند فلسفے کے انقلابی نظریہ کا علمبردار ہو سکتا ہے، اور اسے ہونا بھی چاہیے۔ مارکسکہتا تھا کہ جیسا کہ فلسفہ پرولتاریہ، یعنی مزدور طبقے کے وجود میں اپنا مادی ہتھیار پا لیتا ہے، اسی طرح مزدور طبقے کو فلسفے میں اپنا روحانی ہتھیار مل جاتا ہے۔ اس طرح مارکس نے مزدور طبقے کے عالمی تاریخی کردار کا عظیم خیال پہلی بارتشکیل دیا۔ انسانیت کی فلاح کی آواز جو مارکس نے اس وقت اُٹھائی جب ابھی وہ سکول کا طالب علم تھا، اب اُس آواز نے نہایت مستحکم سرگرم اور انقلابی کردار کا روپ دھار لیا تھا۔ اِس طرح مارکس کے نزدییک انسانیت کی خدمت کا مقصد مزدور طبقے کی خدمت قرار پایا، جو نہایت ترقی یافتہ اور اصولی طور پر انقلابی طبقہ تھا، جو خود کو اور تمام بنی نوعِ انسان کوجبر اور استحصال سے نجات دلانے کا اہل تھا۔
مارکس کو اِس باتکی پوری آگاہی تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کس طرح اپنے ہی سماجی ڈھانچے اور متوسط طبقے کے طرز زندگی کو تباہکر دیتا ہے۔ مارکس جب یہ کہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام متوسط طبقے کو ایک ایسی صورتحال کی جانب دھکیل دے گا جہاں وہ سخت دباؤ کے شکار مزدور طبقے کی طرح کی صورتحال کا سامنا کر رہے ہوں گے۔ مارکس نے جو پیش گوئی کی تھی ہم آجپاکستان اور دیگر ممالک میں ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔ مارکس نے اُجرت اور سرمایہ میں، جو اس کی اولین اقتصادی تصانیف میں سے ہے، جِس میں انہوں نے ان معا شی رشتو ں کی لگائی جو سر مایہ داری نظام کے ہاتھو ں محنت کش طبقے کے مکمل افلاس کی واضعسے معاشیات کے نہایت پیچیدہ مسائل سائنسی تجزیے کا موضوع بنائے گئے ہیں، لیکن پھر بھی لکھنے کا انداز ایسا سادہ ہے کہ یہمیرے جیسے سادہ لوح آدمی کی سمجھ میں بھی آتی ہے۔ آج اکیسیویں صدی کے مارکیٹ اکانومی کی بنیاد پر چلنے والے معاشروں میں بھی، جہاں بڑہتی ہوئی معاشی عدم مساوات نے عام لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے، مارکس کا فلسفہ اور تجزیے قابلِ عمل سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس کی شہرہ آفاق تصنیف داس کیپیٹل اِس وقت دُنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کُتب میں شامل ہے، اور جب بھی دُنیا میں معاشی بحران ابھرتا ہے، یہ کتاب شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے۔مارکس نے جہاں جاگیرداری کی غلامی کے سلسلے میں انسانوں پر سرمایہ داری کے آزادانہ اثرات کو تسلیم کیا، وہیں اس نے استحصالی سرمایہ دارانہ ڈھانچے اور اس سے انسانوں کو پہنچنے والے لامتناہی مصائب کا گہرا تجزیہ کیا ہے۔ آج کےموسمیاتیاور ماحولیاتی تبدیلیوںکے بھنور میں پھنسےمعاشروںمیںمارکسینظریہکی متحرک نوعیت اور ان کا جدلیاتیکردار انسانیت کے لیے دیرپا اہمیت کا حامل ہے۔ آج سرمایہ دارانہ معیشت اور مارکیٹ اکانومی کی استحصالی قوتیں زمین کے وجود کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ سرمایہ داری، جس کا مارکس نے تجزیہ کیا تھا، آج کرونی کیپٹلزم میں تبدیل ہو چکا ہے، جو مزید استحصال کا باعث بن رہا ہے اور سنگین غیر انسانی صورت اختیار کر چکا ہے۔ مارکس نے سرمایہ داری کی تباہ کن نوعیت کے بارے میں پیشن گوئی کی اور اس نے سائنسی سوشلزم کو متبادل کے طور پر پیش کیا، جِس کا ادراک کرنا ھر ملک کے معروضی حالات کے مطابق وہاں کی انقلابی قوتوں، دانشوروں اور محنت کش طبقات کا کام ہے۔ مارکس کو برِصغیر پر برطانو ی سامراج کے نوآبادیاتی تسلط اور جبر و استحصال کا پوری طرح احساس تھا جِس سے یہاں کےعوام کی اکثریت غربت، افلاس اور بھوک کا شکار ہو چکی تھی۔ جب 1857ء میں برِصغیر میں برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت ہوئی، جِسے ہم 1857ء کی جنگِ آزادی کہتے ہیں، اور یہاں کے عوام آزادی کے حصول کے لیے برطانو ی سامراج کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے، تو مارکس نے یہاں کے مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق اور اُن کے تحفظ کے لیے بھرپور آواز اُٹھائی۔ برِصغیر پر برطانوی نوآبادیاتی تسلط کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ برِصغیر کے عوام اُس وقت تکاپنی آزادی کا حصول غربت افلاس پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوں گے جب تک کہ برطانیہ میں محنت کشوں کا راجقائم نہیں ہو جاتا، یا پھر ایسا وقت نہیں آجاتا کہ یہاں کے عوام خود اتنے باشعور اور طاقتور ہو جائیں کہ وہ نوآبادیاتی غلامی کی زنجیروں کو ہمیشہ کے لیے ا تا ر پھینکیں۔ مارکس کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی معاشی نظام اور اُس کے ذرائع پیداوار سماجی ترقی دینے سے قاصر ہو جاتے ہیں تو معاشرہ ایک جموُد کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ جموُد ایک بحران کو جنم دیتا ہے جو سماجوں میں بغاوتیں پیدا کرتا ہے۔ یہیں سے وہ انقلاب ابھرتے ہیں جو اُس معاشرے کی معاشی، سماجی اور اقتصادی بنیادوں کو یکسر بدل دیتے ہیں۔ تیسری دُنیا کے ممالک میں طبقاتی تفریق زیادہ واضح ہے، جہاں امیر اور غریب کے درمیان حرکیات ہماری اجتماعی ذہنیت کو تشکیل دیتی ہیں۔ ہمارے اپنے ملک پاکستان کو درپیش مسائل کی فہرست کا جائزہ لیں تو مسائل کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا۔ مختلف سماجی طبقات کے درمیان تفاوت ایک ایسا معاملہ ہے جس سے بہت سے لوگ اس وقت پریشان نظر آتے ہیں۔ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے لیے مارکسزم کی سربلندی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ وہاں بہت سے ممالک میں قومی آزادی کی تحریکوں کو مارکسزم کے آزادی پسند نظریے کے ذریعے آگے بڑھایا گیا۔پاکستان جیسے نیم آزاد ممالک میں، جہاں سامراج کا جدید نوآبادیاتی تسلط اپنی پوری قوت سے مسلط ہے اور عوام پر مسلط کیا گیا جاگیردارانہ معاشی ڈہانچہ اور بیوروکریسی اُس کی مضبوط اتحادی بنی ہوئی ہو، وہاں قومی آزادی کے تکمیل اور سماجی برابری و انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام ہی وہ بنیادی نقطہ ہے، جِس پر ایک موثر انقلابی تحریک کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ ایسی ملک گیر عوامی تحریک وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کی جدوجہد کو مضبوط بنیادیں فراہم کر سکتی ہے۔۔ یہاںایک ایسے فلسفہ اور عمل کی ضرورت ہے جو لوگوں کو قومیت، مذہب، زبان، نسل یا اس طرح کے کسی بھی ابتدائی زمرے کے خطوط پر تقسیم نہ کرے۔ دہشت گردی اور دائیں بازو کی قدامت پسندی، فاشزم کی ابھرتی ہوئی نئی شکلیں، گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی ہمیں قرون وسطیٰ کے تاریک دور میں واپس لے جانے کے خطرات ظاہر کرتی ہیں۔
آج کے انقلابیوں کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لینن، ماؤ، ہوچن منہ اور کاسترو جیسے مارکسسٹ انقلابیوں نے مارکس کے نظریہ کو اپنے معاشروں کے اُن حالات میں ڈھال لیا تھا، جو ان کے انقلابات کی ضروریات کے لیے بہترین تھے۔ مارکسی اصولوں کا اطلاق ہر جگہ یکساں نہیں ہو سکتا، کیونکہ مارکسزم، یا سائنسی سوشلزم بذات خود ایک متحرک قوت ہے، جو جگہ اور حالات کے معروضی حالات کے مطابق اطلاق میں تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے۔
![](https://baam-e-jahan.com/wp-content/uploads/2022/05/WhatsApp-Image-2022-05-21-at-10.20.57-PM.jpeg)