چوتھی بین الاقوامی ہندوکش ثقافتی کانفرنس کے کچھ چیدہ تحقیقی مقالہ جات اور سینئر محققین کے کلیدی خطابات کے خلاصے اردو ترجمہ کے ساتھ نذر قارئین کرنے کی جسارت کروں گا۔ امید ہے ایسی کوششوں سے نوجوانوں میں صحت مند مکالموں اور تحقیق کی تحریک پیدا ہو سکے۔
مقالہ نگار: پروفیسر ہرمن کرائشمین
Professor Emeritus Hermann Kruetzman
ترجمہ: ظہور الحق دانش
پہاڑی حصاروں کے آس پاس تعلقات کے تبادلے ایک عرصے سے مشکل راستے اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ نئے آوٹ لیٹس کی جستجو میں رہے ہیں۔ اونٹوں اور گھوڑوں کے کارواں کے لیے ابتدائی پہاڑی راستوں سے لے کر جدید ذرائع ابلاغ کی صورت میں آنے والی متعدد تبدیلیوں نے (کم و بیش) قابل رسائی سرحدوں اور گزرگاہوں کے درمیان تعلقات کے تبادلے میں تبدیلی لائی ہے۔ نوآبادیاتی اور مابعداز نوآبادیاتی مداخلتوں نے بنیادی ڈھانچے یعنی انفراسٹرکچر کی بہتری اور سڑکوں کی تعمیر کے ذریعے اور موجود وسائل کے استعمال کی خاطر اِن علاقوں کو کھولنے پر خاصا زور دیا ہے۔ مقامی لوگوں اور خطوں کی شمولیت اور اخراج نے تنازعات اور تصادم، تنہائی اور تحفظ کے ساتھ ساتھ اس علاقے کے انتظامی اور سامراجی معاملات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس علاقے کی پہاڑی برادریوں نے بنیادی ڈھانچے (انفراسٹرکچر) کی ترقی کے لیے ایسے بلیو پرنٹس کے نفاذ کا مشاہدہ کیا ہے، جن کو بیرونی اداکاروں اور اسٹیک ہولڈرز نے دور دراز وزارتوں اور منصوبہ بندی کے محکموں میں بیٹھ کر تصوّر کیا اور نقشہ بنایا تھا۔ تاہم تزویراتی تحفظات نے بنیادی طور پر فیصلہ سازی کے امور اور سڑکوں کی تعمیر کی حد تک معاونت کا انتظام کئے رکھا، پھر بھی ڈھانچے (انفراسٹرکچر) کے یہی اثاثے پہاڑی لوگوں کے لئے (اضافی سہولت کی صورت میں) غیر معمولی فائدے کا باعث بن رہے ہیں۔ پامیر ہائی وے، لواری ٹنل، انڈس ویلی روڈ (جو پاک چین دوستی ہائی وے میں تبدیل ہو گئی ہے) اور دوسرے بے شمار چھوٹی چھوٹی سڑکیں انضمام کی پالیسیوں کی بیّن علامتیں بن چکی ہیں۔ انہی راستوں نے فراہمی کے ڈھانچے کو فعال بنایا ہے، مارکیٹ تک آسان رسائی دی ہے اور نقل و حمل کو بہتر بنایا ہے۔
یہی سڑکیں ”نیو سِلک روڈز” کے فریم ورک میں جدید ترین ڈھانچے کے اُن منصوبوں کے پیشرو وہی ہیں جنہوں نے ملک کے شہری مراکز سے آنے والے سرمایہ کاروں اور سیاحوں کو اس علاقے کی جانب راغب کیا ہوا ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری سے جڑی توقعات ایسے جدید ترین طویل مدتی منصوبوں کا تصور پیش کرتی ہیں جو ڈھانچے کی تعمیر اور اقتصادی ترقی کے اگلے مرحلوں کے لیے سب سے اہم مہمیز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ایسے ڈھانچے کے اثاثوں کا پھیلاؤ ہندوکش، پامیر، قراقرم اور ہمالیہ کی پہاڑی برادریوں کو ایک دوسرے کے بہت قریب لا سکتا ہے اور انہیں افغانستان، وسطی ایشیا، چین اور پاکستان کی دور دراز مارکیٹوں سے جوڑ سکتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ چترال کی پوزیشن بدل گئی ہے۔ ”چترال تکون” نے انیس سو پینتیس سے قبل ٹرانس ماؤنٹین (پہاڑوں کے پرے) مواصلات، تجارت سمیت لوگوں اور سامان کے تبادلے کے لیے تزویراتی مرکز اور تبادلے کے مرکز کے طور پر کردار ادا کیا ہے۔
بعد کے ادوار میں سرحدات کی بندش، کنٹرول کے اقدامات، سیاسی محاذ آرائی اور ایسی مداخلتوں کی وجہ سے نمایاں رہے ہیں جو بالآخر حالات کو نو آبادیت کے اختتام اور سرد جنگ کے آغاز کی طرف لے گئے۔
(پھر) آزاد پاکستان کی مختلف حکومتوں نے چترال اور ہمسایہ ریاستوں کو قومی دھارے میں ضم کیا، اور اس طرح اسے ایک نئے انتظامی سیٹ اپ اور سیاسی بندھن کا حصہ بنا دیا۔
انفراسٹرکچر کے اثاثوں نے حفاظتی تحفظات اور تزویراتی منصوبہ بندی سے بالاتر پہاڑی علاقوں میں دیہی ترقی کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری کوششوں کو مہمیز دیا۔
بین الاقوامی تعاون کی حالیہ کوششیں اور سرحد پار تجارت کی ہمواری ہر قسم کے تبادلے کے تعلقات پر اثر انداز ہوں گی، جن کے نتائج کے ابھی نامعلوم ہیں۔
اس مقالے/پریزینٹیشن میں قراقرم ہائی وے پر سامان لادنے کے وقت سے لے کر کنٹینر ٹرکوں کی آمد تک مواصلات، سفر اور نقل و حمل کی تبدیلیوں پر بات کی جائے گی اور تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی۔ واضح انتظامی اور انفراسٹرکچر کی تبدیلیوں کے علاوہ ”پامیرین ناٹ” سے پہاڑی برادریوں کے بارے میں علم اکٹھا کرنے اور رپورٹنگ کرنے کے عمل کا سراغ نوآبادیاتی دور سے لے کر مابعد نوآبادیاتی دور تک لگایا جا سکتا ہے۔ نقل مکانی اور نقل و حرکت نے پہاڑی برادیوں کے اندر ذرائع معاش کو متاثر کیا ہے جو اُن کی کثیر مقامی آمدنی پیدا کرنے کی حکمت عملیوں اور دور رس رابطوں کے جھال یعنی نیٹ ورک کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔
پروفیسر ہرمن کرائشمین فرائیے یونیورسٹی میں ”ہیومین جیوگرافی” کے چیئر رہے ہیں۔ اس نے ہینوور اور فریبرگ کی یونیورسٹیوں میں فزکس، جغرافیہ اور انتھروپالوجی (علم بشریات) کی تعلیم حاصل کی ہے۔ آپ کی پی ایچ ڈی فرائیے یونیورسیٹیٹ برلن سے ہے، جبکہ پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری بون یونیورسٹی سے کی ہے۔انیس سو چھیانوے میں انہوں نے ایرلانجن نیورنبرگ یونیورسٹی کو بطور چئیر ”کلچرل جیوگرافی” (ثقافتی جغرافیہ) جوائن کیا۔دو ہزار پانچ سے لے کر دو ہزار بیس میں اپنی ریٹائرمنٹ تک وہ فرائیے یونیورسٹی برلن میں سنٹر فار ڈویلپمنٹ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر رہے۔
اُن کی بنیادی تحقیقی دلچسپی علاقائی طور پر وسطی اور جنوبی ایشیاء رہی ہے، جس میں خصوصاً پاکستان اُن کی دلچسپی کا مرکز رہا ہے۔ اُن کے وسیع تحقیقی موضوعات میں ترقیاتی مطالعات، بلند پہاڑی علاقوں کے بارے تحقیق، نقل و حمل اور نقل مکانی سے لے کر سیاسی جغرافیہ اور اقلیتی مسائل شامل ہیں۔ فیلڈ ورک اور تجرباتی تحقیق پر چالیس سال سے زیادہ عرصہ لگایا ہے جس کے ثمرات بیس سے زیادہ کتابوں اور دو سو سے زیادہ تحقیقی مقالوں کی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے چترال میں منعقد شدہ انیس سو نوے اورانیس سو پچھانوے کی بالترتیب دوسری اور تیسری بین الاقوامی ہندوکش کلچرل کانفرنسوں میں بھی شرکت کی ہے۔