Baam-e-Jahan

عمران خان کا اعلان سرپرائز یا فیس سیونگ؟


تحریر: غلام الدین (جی ڈی)


پاکستان میں غیر یقینی صورت حال کوئی نئی بات نہیں، ہر وہ جماعت جو برسراقتدار ہوتی ہے وہ یہ بات دہراتی ہے کہ پاکستان تاریخ کے ایک مشکل دوراہے پر کھڑا ہے۔

ہر آنے والی حکومت گزشتہ کوکرپشن، بدعنوانی، اقربا پروری اور معاشی ابتری کی ذمہ دار ٹھہراتی ہے ، یوں یہ دائروی چکر عشروں سے جاری ہے۔

 گزشتہ 75 برسوں میں ہمارے سیاستدان، پالیسی ساز اور اسٹیک ہولڈرز نے اس ملک کو سیاسی اور معاشی گرداب سے نکالنے کی کبھی زحمت تک نہ کی۔
اپریل میں عدم اعتماد کی کامیابی اور عمران خان کو آئینی طور پر اقتدار سے محروم کئے جانے کے بعد تحریک انصاف نے عوامی رابطہ مہم کے ذریعے ووٹرز کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ انہیں ایک سازش کے تحت اقتدار سے نکالا گیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی مثالیں نہیں ملتی ہے کہ وہ لیڈر جس کی مقبولیت کا گراف گر چکا ہو اور اسے اقتدار سے محرومی کے بعد پہلے سےزیادہ شہرت ملی ہو۔ ضمنی الیکشن میں میدان مارنا, 60 سے زائد بڑے جلسوں کا انعقاد اور پھر دو عدد لانگ مارچ۔۔۔ اور آخری لانگ مارچ اختتام پر وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کے بجائے ٹرمپ کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان۔
عمران خان کے بقول لانگ مارچ ختم  ہوا لیکن حقیقی آزادی مارچ ابھی جاری ہے۔ 26 نومبر کو حسب روایت اتحادی حکومت اور اداروں کو خوب للکارا،  ایک بار پھر نیب کی جانبداری کی وجوہات بیان کی،  ورثے میں ملنے والی بیمار معیشت کی بحالی، کورونا وباء  سے مقابلہ، زرعی اور صنعتی شعبے میں ریکارڈ ترقی اور شرح نمو تقریبا 6 فیصد تک پہنچانے کا دعوی دہرایا۔

ملکی معیشت کی ترقی کے اعدادوشمار شرکا کو ازبر کرانے کی کوشش کی۔ ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کو ایک بار پھر سائفر اور سازش سے منسوب کیا، رجیم چینج کے نقصانات گنوائے، اتحادی حکومت کو مبینہ طور پر ملنے والے این آر او اور نیب کیسزکے خاتمے پر بات کی، پی ٹی آئی حکومت گرانے کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی و معاشی بحران کا تذکرہ کیا۔ حکومت اور اداروں کی جانب سے تحریک انصاف کی زبان بندی کے حربوں پر روشنی ڈالی،

25 مئی کے لانگ مارچ کے دوران کارکنوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتیوں پر حکومت اور اداروں پر شدید تنقید کی، شہبازگل، سینیٹر اعظم سواتی پر ڈھائے جانے والے مظالم، ارشد شریف کا بہیمانہ قتل، صحافیوں پر تشدد اور اظہار رائے پر شب خون مارنے کی کوششوں کی مذمت کی۔

 بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کے پیش نظر حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے حکومتی اتحادکے اہم فریق سابق صدر آصف علی زرداری سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ملاقات ہوئی، عمران خان کےا علان کےبعد کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے آصف علی زرداری کو پنجاب میں عدم اعتماد لانے سمیت دیگر آپشنز کا ٹاسک دے دیا گیا ہے۔

 عمران خان نے اپنے اوپر   ہونے والے قاتلانہ حملے کا ذکر کیا اور کہا کہ تین لوگوں نے مذہب کی آڑ میں مجھے قتل کرانے کی ناکام کوشش کی، مجھے لیاقت علی خان کی طرح ختم کرنے کا منصوبہ بنایاگیا تھا۔ آج ہماری بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ہماری ایف آئی آر تک نہیں کاٹی جارہی ہے۔

 اس دوران عمران خان نے اس بات پرزوردیا کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کا واحد حل صاف و شفاف انتخابات ہیں۔

 انہوں کہا کہ بنگلہ دیش کے ٹوٹنے کی بنیادی وجہ اکثریتی جماعت کو اقتدار نہ دینا تھی۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ میری صحت یابی میں تین ماہ لگ سکتے ہیں اور اگر نو ماہ بعد بھی انتخابات ہوئے تو ہم جیت جائیں گے۔

 آخر میں کہا کہ اسلام آباد کی طرف مارچ کرتے تو ملک کا نقصان ہوگا لہذا خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی توڑنے کا اعلان کرتا ہوں اور اس حوالے سے پارٹی کے سینئر اراکین اور پارلیمانی ممبران سے مشاورت کی جائے گی۔

 اس اعلان کےبعد اتحادی حکومت کی صفوں میں ہلچل مچ گئی ہے تاہم ن لیگ نے اسے فیس سیونگ کہا۔

 بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کے پیش نظر حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے حکومتی اتحادکے اہم فریق سابق صدر آصف علی زرداری سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ملاقات ہوئی، عمران خان کےا علان کےبعد کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے آصف علی زرداری کو پنجاب میں عدم اعتماد لانے سمیت دیگر آپشنز کا ٹاسک دے دیا گیا ہے۔

 پاکستان پیپلز پارٹی یہ عزم لئے بیٹھی ہے کہ سندھ اسمبلی آئینی مدت پوری کرے گی۔ عدم اعتماد کے بعد جب تحریک انصاف نے اتحادی حکومت سے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کیا تو اتحادی حکومت کے قائدین اور رہنماوں نے تحریک انصاف سے اپنی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے میں پہل کرنے کا کہا تاہم یہ معاملہ بیانات کی حد تک محدود رہا،

 ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنااللہ کا کہنا تھاکہ اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوں گی، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عدم اعتماد لائیں گے۔

گزشتہ ہفتے سردار ایاز صادق نے ایک نجی ٹی وی میں گفتگو  کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس غیر یقینی اور غیر معمولی صورت حال میں اسمبلیوں کی مدت چھ ماہ تک بڑھائی جاسکتی ہے یہی بات بعد ازاں رانا ثنا اللہ نے بھی دہرائی۔

 روالپنڈی جلسے میں وزیراعلی پنجاب کی عدم شرکت پر سوال اٹھنے لگے تو مؤنس الہی نے ٹویٹ میں کہا کہ "پنجاب میں بونس پر حکومت چل رہی ہے جب خان صاحب کہیں گے وزیراعلی پنجاب اسمبلی تحلیل کریں گے "۔

 وزیراعلی پرویز الہی نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ "شہباز شریف کی حکومت 27 کلومیٹر پر محیط ہے اور یہ ستائیس گھنٹے بھی قائم نہیں رہ سکتی، پنجاب حکومت خان صاحب کی امانت ہے جب کہیں گے تحلیل کرنے میں آدھا منٹ بھی نہیں لگائیں گے”۔

 پیر کے روز پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے ملاقات میں وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کا کہنا تھا کہ ” جب اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہو تو نہ عدم اعتماد لاسکتے ہیں نہ ہی گورنر راج لگ سکتا ہے،اپوزیشن اقلیت میں ہے اور اقلیت میں رہے گی” ۔

موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف بھی میدان میں اترے اور کہا کہ "وفاق پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گورنرراج نافذ کرے گا”، میاں جاوید لطیف نے آج ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گورنرراج لگانے کی بات تو دہرائی لیکن گورنر راج لگانے کا کوئی ٹھوس آئینی اور قانونی جواز پیش نہ کر سکے۔

 دوسری جانب پروگرام میں شریک سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ”اس وقت دونوں صوبوں میں کوئی ایسی قدرتی آفت یا امن عامہ کے حوالے کوئی ایمرجنسی والی صورت حال نہیں کہ گورنر راج لگ جائے، اگر وزیراعلی صوبائی اسمبلی تحلیل کرتے ہیں تو گورنر عملد درآمد کرنے کے پابند ہیں”۔

 خیبر پختونخوا اسمبلی کے اسپیکر مشتاق غنی نے بھی کہا ہے کہ خان صاحب کے احکامات کی بجاآوری ہوگی۔

پاکستان میں ، ادارہ جاتی اصلاحات، معیشت کی ڈاکیومنٹیشن، بلاتفریق احتساب، پائیدار ترقی کے لیے منصوبہ بندی اور مضبوط و بااختیار مقامی حکومتوں کا نظام (نیم) جمہوری ادوار ہوں یا آمریت ، کسی کی ترجیح نہیں رہی ہے۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اکرم خان دررانی بھی اتحادیوں سے عدم اعتماد لانے کے لیے مشاورت کررہے ہیں، چونکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے جس کے باعث عدم اعتماد کا کوئی خطرہ نہیں اور باآسانی اسمبلی تحلیل ہوسکتی ہے۔

 اس دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ادارہ آئین و قانون کے مطابق 60 روز کے اندر خالی نشستوں پر انتخابات کرانے کے پابند ہے،

 بیان میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں انتخابات کے لیے 22 ارب روپے درکار ہونگے۔

 اس سے قبل آئندہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن نے حکومت سے 47 ارب روپے مانگے ہیں، درخواست پر تاحال عمل در آمد نہ ہوسکا ہے۔

 پاکستان پیپلز پارٹی یہ عزم لئے بیٹھی ہے کہ سندھ اسمبلی آئینی مدت پوری کرے گی۔ عدم اعتماد کے بعد جب تحریک انصاف نے اتحادی حکومت سے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کیا تو اتحادی حکومت کے قائدین اور رہنماوں نے تحریک انصاف سے اپنی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے میں پہل کرنے کا کہا تاہم یہ معاملہ بیانات کی حد تک محدود رہا،

اب جب تحریک انصاف نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے تو اتحادی حکومت خیبرپختونخوا اور پنجاب میں عدم اعتماد لانے کے لیے سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔

پیر کو لاہور میں تحریک انصاف کے سینئر رہنماوں کے اجلاس میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے کی توثیق کی گئی، اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے تحریک انصاف اسمبلیاں تحلیل کرنے کی حتمی تاریخ دے گی۔

دوسری جانب ایک دلچسپ صورت یہ بھی ہے کہ پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک سے بچنے کے لیے گزشتہ 4 ماہ سے اسمبلی کا اجلاس جاری ہے، اس دوران گورنر پنجاب وزیراعلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ بھی نہیں سکتے۔

 چیس بورڈ پر ہر جماعت اپنی چال چل رہی ہے۔غور طلب پہلو یہ بھی ہے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں ہارس ٹریڈنگ بھی نہیں ہوسکتی۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ” نصف سے زائد تحریک انصاف کے اراکین ہم سے رابطے میں ہیں ، خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت ہیں نئے انتخابات ہونگے”

 سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ اس بات پر متفق ہیں کہ "دو صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات سے ملک موجودہ بحران سے نہیں نکلے گا، بہتری اسی میں ہے کہ اسمبلیاں مدت پوری کریں تب تک معاشی حالات بھی بہتر ہوسکتے ہیں”

ادھر فواد چوہدری نے ایک اور توجیہہ یہ پیش کی ہے کہ "پی ٹی آئی کی اسمبلیوں سے علیحدگی سے64 فیصد نشستیں خالی ہوسکتی ہیں” سوال یہ ہے کہ کیا اس ساری صورت حال میں اتحادی حکومت کےپاس کوئی متبادل آپشن موجود ہے؟

 معاشی صورت حال دگرگوں ہے اور ملکی ذخائز خطر ناک حد تک کم ہوچکے ہیں یعنی کہ پاکستان کا دیوالیہ ہونے کا خدشات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

 دوسری جانب اتحادی حکومت کے سابق وزیر خزانہ مفتح اسماعیل نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ حالات پر قابو نہ پایا گیا تو ملکی معیشت دیوالیہ ہوسکتی ہے۔

حالیہ سروے رپورٹس اور تحریک انصاف کی ضمنی انتخابات میں کامیابیوں کے بعد اتحادی حکومت شش و پنج میں ہے کہ فوری انتخابات کی صورت  میں تحریک انصاف دوبارہ حکومت میں آسکتی ہے۔

دوسری جانب ن لیگ اس کوشش میں ہے کہ انتخابات سے قبل لیول پلئنگ فیلڈ مل جائے، نواز شریف کی واپسی ہو اور میاں صاحب خود انتخابی مہم لیڈ کرے تو ایسی صورت میں ن لیگ بہتر پوزیشن میں آسکتی ہے۔

 پورا پاکستان اس بات سے متفق ہے کہ صاف و شفاف انتخابات ہی موجودہ بحران کا واحد حل ہے۔

 لیکن کیا انتخابات کےبعد جو بھی جماعت حکومت بناتی ہے تو اس کے پاس کونسی جادو کی چھڑی ہوگی کہ وہ پاکستان کو موجودہ معاشی بحران سے نجات دلائے گی؟ اس سوال کا جواب کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس نہیں۔ پاکستان میں ، ادارہ جاتی اصلاحات، معیشت کی ڈاکیومنٹیشن، بلاتفریق احتساب، پائیدار ترقی کے لیے منصوبہ بندی اور مضبوط و بااختیار مقامی حکومتوں کا نظام (نیم) جمہوری ادوار ہوں یا آمریت ، کسی کی ترجیح نہیں رہی ہے۔

بعض معاشی ماہرین کی یہ رائے ہے کہ اگر ملکی معیشت کو بحال اور مستحکم کرنا ہے تو سارا نظام آٹومیشن/کمپیوٹرائز کرنا لازمی ہے، 5 ہزار، ایک ہزار اور 500 کے نوٹوں کو ختم کرکے بڑا نوٹ صرف 200 کا معارف کرانا ہوگا،

 اس کے ساتھ 10 ہزار سے زائد کی خریداری کے لیےپلاسٹک منی یعنی ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کی شرط لگانی ہوگی۔

 اگر اس طرح کا مربوط نظام رائج ہوجاتا ہے تو ملک میں دولت کی ریل پیل ہوگی اور کرپشن میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔

کیا اتحادی حکومت اور اپوزیشن کے پاس کوئی ٹھوس پلان موجود ہے؟ کیا اتحادی حکومت اور اپوزیشن کے پاس مہنگائی میں کمی اور بے روزگاری کے خاتمے کا کوئی جامع منصوبہ موجود ہے؟ کیا انتخابات کے بعد بھی حالات جوں کے توں رہیں گے یا پاکستان بدلے گا؟

کالم نگار غلام الدین (جی ڈی) سینئر براڈ کاسٹ جرنلسٹ ہیں اور وہ مختلف موضوعات پر مضامین لکھتے ہیں


اپنا تبصرہ بھیجیں