Baam-e-Jahan

خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی نئی لہر


ہائی ایشیاء ہیرالڈ


ایک سیدھی سی بات بولنی تھی۔

پختونخوا میں پھر سے گیم آف ڈالرز شروع ہوچکا ہے۔ چوبیس گھنٹے تک کاونٹر ٹیررازم کے تھانے پر قبضہ کرنا، فوج کو ماں باپ کہنا اور ریاست اور صوباٸی حکومت کا بظاہر ناکام نظر آنا اس بات کی غمازی ہے  کہ صوباٸی حکومت اور محکمہ پولیس لاچار اور اسٹبلشمنٹ کے غلام ہیں۔

جس طرح عمران کہتا ہے کہ ہم بے اختیار تھے اسی طرح پچھلے دس سال سے پختونخوا میں تحریک انصاف بے اختیار ہے۔ بلکہ مراد سعید ، اسد قیصر اور وزیر اعلی´محمود خان نے تو باقاعدہ طالبان کے سپانسرڈ  اور طالبان کے ہاتھ پر بیعت کر رکھا ہے۔ سوات اور مالاکنڈ کے عوامی شعور نے اسٹبلشمنٹ_طالبان کو پسپا کردیا تو جنوبی اضلاع کا رخ کردیا گیا۔ یہ جتنا بھی کہیں یہ کھبی بھی نیوٹرل نہیں ہوسکتے۔

ویڈیو میں کہہ رہے تھے کہ افغانستان تک محفوظ رستہ دیاجائے جبکہ تحریک طالبان کے مطابق وہ پاکستان کے اندر سے کارواٸیاں کررہے ہیں۔افغان طالبان کے مطابق وہ ٹی ٹی کو سپورٹ نہیں کررہی ہے تو پھر یہ کون لوگ ہیں۔؟

یہ وہی لوگ ہیں۔

لیکن ان سب کا سہرا عمران خان اور فیض حمید کے سر جاتا ہے۔ جبکہ پختونخوا حکومت چاہے جتنا بھی عمران کے ہاں میں ہاں ملاتا رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سرکاری طالبان کے غلام ہیں۔

پولیس اور انتظامیہ برائے نام ہیں۔

ہر ضلع کو ایک کرنل چلا رہا ہے۔ منظور اور سردار بابک کی باتین ہر روز سچ ہوتی نظر آتی رہیں گی۔

پختونخوا حکومت کا ترجمان لوٹا اور اسٹبلشمنٹ کا ٹٹو بیرسٹر سیف جب فخریہ میڈیا پر آکر کہیں کہ جہادی کمانڈر تھا طالبان کا ساتھی تھا تو سوات کے وزیر اعلی´نما شخص یا بنی گالا کے نیازی صاحب نے ان سے پوچھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ موجودہ حالات کا سہرا چاہے پختونخوا میں ہو بلوچستان میں یا افغان طالبان کے ساتھ بارڈر پر ٹینشن سب نیازی صاب کے ان  کو فری ہینڈ دینے کی وجہ سے ہے۔ یہ صرف باجوہ کو اس لیے کوس رہے ہیں کہ درمیان میں چھوڑ دیا ۔ اے پی ایس واقعہ ہو ، بلوچستان ہزارہ قتل عام ہو ، بنوں جانی خیل کا ظلم ہو پشتون تحفظ مومنٹ کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک ہو سب عمران نیازی فیض حمید اور پختونخوا حکومت کے سر ہے۔ جبکہ موجودہ وفاقی حکومت تو ہے ہی اسٹبلشمنٹ کے رحم و کرم پر۔

ان کو کرسی کی پڑی ہے جبکہ پختونخوا کو دانستہ پھر دہشت گردوں کے رحم و کرم پر حوالہ کیا جارہا ہے۔

پختونخوا میں حکومتی رٹ نام کی کوٸی چیز ہی نہیں ہے۔

جب صوباٸی حکومت کا ترجمان اپنے آپ کو طالبان کمانڈر کہہ رہا ہو۔ وزیر اعلی  وزرا اور سابقہ وفاقی وزرا اور نماٸندے بھتے دیں رہے ہو تو کس سے اپنی حفاظت کا توقع کیا جاسکتا ہے۔ پھر سے عالمی سامراج اپنی جنگی کاروبار کو پروان چڑھانے کے لیے جگہ کا انتخاب کر رہا ہے ،جبکہ پاکستان  اور پختونخوا کے سیاسی و عسکری بورژوا طبقہ ان کے ہاتھوں بکنے اور آلہ کار بننے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں