تحریر۔ اشفاق احمد ایڈوکیٹ
گلگت بلتستان میں لاگو صدارتی حکم نامہ 2018 کا متبادل ایک نیا عمرانی معاہدہ ہے جس کے بعد یہ طے ہوگا کہ کونسے قوانین کا اطلاق گلگت بلتستان میں ہوگا اور گلگت بلتستان اسمبلی کتنی با اختیار ہوگی؟
موجودہ نظام میں اختیارات نہ ہونے کے برابر ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام خالصہ سرکار کا مکمل خاتمہ کا مطالبہ اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایک نو آبادیاتی کالا قانوں ہے اور یہ قانوں پاکستان کے چار صوبوں میں نافذ نہیں ہے نہ ہی پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر میں لاگو ہے تو پھر یہ کالا قانون گلگت بلتستان میں لاگو کرنے کا کیا جواز بنتا ہے؟
خالصہ سرکار کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے عوام سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی کا مطالبہ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ یہ لوکل اتھارٹی کو سپورٹ کرتا ہے،
آزاد کشمیر میں اس لوکل اتھارٹی کو ایک معاہدہ عمرانی کے تحت تسلیم کیا گیا ہے جس کو معاہدہ کراچی کہتے ہیں-
خالصہ سرکار کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے عوام سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی کا مطالبہ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ یہ لوکل اتھارٹی کو سپورٹ کرتا ہے،
آزاد کشمیر میں اس لوکل اتھارٹی کو ایک معاہدہ عمرانی کے تحت تسلیم کیا گیا ہے جس کو معاہدہ کراچی کہتے ہیں-
28 اپریل 1949 کو اس معاہدہ کراچی کے تحت ریاست پاکستان نے آزاد جموں و کشمیر کے حقوق تسلیم کئے تھے، اور بعدازاں آزاد کشمیر ایکٹ 1974 کے آئین میں کشمیری قوم کے بنیادی انسانی جمہوری سیاسی حقوق کو تحفظ دیا گیا ان کو صدر، وزیراعظم، آئین، جھنڈا ترانہ، اسمبلی اور سٹیٹ سبجیکٹ رول سب کچھ دیا گیا جبکہ دوسری طرف گلگت بلتستان میں کوئی عمرانی معاہدہ سرے سے موجود نہیں ہے حالانکہ آزاد کشمیر کی طرح گلگت بلتستان بھی پاکستان کے زیر انتظام علاقہ ہے اور بقول سپریم کورٹ اف پاکستان و ارٹیکل 257 آف آئین پاکستان گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر دونوں متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہے تو پھر گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار نامی کالا قانون کیوں لاگو کیا گیا ہے؟ اور سٹیٹ سبجیکٹ رول کو کیوں معطل کیا گیا ہے؟
اس وقت ایک ہی نعرہ گلگت بلتستان کے بلند بالا پہاڑوں میں گونج رہا ہے ” نامنظور نامنظور خالصہ سرکار قانون نامنظور”۔
5 اگست 2019 سے قبل انڈین زیر کنٹرول جموں وکشمیر میں بھی سٹیٹ سبجیکٹ رول بحال تھا جس کے تحت انڈیا نے سٹیٹ سبجیکٹ رول کو اپنے آئین میں آرٹیکل 35 اے کے تحت تحفظ دیا تھا جبکہ آزاد کشمیر میں پہلے معاہدہ کراچی پھر 1974 کے ایکٹ میں اسے تحفظ دیا گیا اور آج بھی سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ العمل ہے۔
چنانچہ گلگت بلتستان میں بھی اسی قانونی پیرائے میں عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دیا جا سکتا ہے۔ رواجی قوانین کا اطلاق بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔
آج پورے گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار قانون کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال کیا گیا ہے عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر خالصہ سرکار قانون کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور عوام کی اکثریت آزاد کشمیر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس وقت ایک ہی نعرہ گلگت بلتستان کے بلند بالا پہاڑوں میں گونج رہا ہے ” نامنظور نامنظور خالصہ سرکار قانون نامنظور”۔