Baam-e-Jahan

کلاش برادری کا سالانہ مذہبی تہوار "چاوموس”اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اختتام پذیر


رپورٹ: کریم اللہ/ فتح اللہ


چوموس سے متعلق یہ وڈیو رپورٹ فتح اللہ نے ہمیں بھیجی ہے۔

چترال کے وادی کلاش میں موسم سرما کا چاوموس تہوار اختتام پذیر ہوا

 چاوموس کلاش برادری کا سال کا آخری اور طویل ترین تہوار ہے سینکڑوں برس قدیم اس تہوار کا آغاز سات دسمبر کو ہوتا ہے اور احتتام دسمبر کی پچیس تاریخ کو۔

اس تہوار کے دوران بہت سارے مذہبی رسومات بھی ادا کئے جاتے ہیں، جس کو دیکھنے کے لئے بڑی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح کلاش وادیوں کا رخ کرتے ہیں

اسے کلاش کمیونٹی کے لوگ سال کے احتتامی تہوار بھی کہتے ہیں یوں وہ سال کو الوداع بھی کہتے ہیں۔

اس تہوار کے دوران بہت سارے مذہبی رسومات بھی ادا کئے جاتے ہیں،

جس کو دیکھنے کے لئے بڑی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح کلاش وادیوں کا رخ کرتے ہیں۔

کلاش چترال کی قدیم ترین روایت کے نمائندہ لوگ ہے بعضی تاریخی روایات کے مطابق سولہویں صدی تک  اسلام کی آمد سے قبل اس پورے خطے میں کلاش تہذیب کے لوگ رہائش پزیر تھے۔ جنہیں شمال سے آنے والے مسلمان حکمرانوں نے زور زبردستی اسلام میں داخل کروا دیا۔ اور یوں کلاش تہذیب سکڑتے سکڑتے صرف بمبوریت، رمبور اور بریر کی وادیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

عموما تہوار کا آغاز کلاش ویلی رمبور سے ہوتا ہے اور وہاں سے آہستہ آہستہ یہ بریر اور بمبوریت تک پہنچ جاتا ہے جبکہ تہوار کے آخری رسومات بمبوریت میں ادا کئے جاتےہیں۔

اس تہوار کے موقع پر کلاش کمیونٹی کے لوگ بکریاں زبح کرکے ان کی قربانی دیتے ہیں۔ جبکہ تہوار کے آخری دنوں میں ایک ہفتے تک کلاش مرد و خواتین گھروں میں روپوش ہو کر عقائد و عبادات کی بجا اوری لاتے ہیں۔ اس دوران کوئی بھی غیر کلاشی کلاش کمیونٹی کے گھروں میں نہیں جا سکتے اور نہ ہی کسی کلاش سے مل سکتے ہیں۔ یہاں تک کے کسی غیر کلاشی کا کلاش کے گھروں کی دیواروں کو چھونا بھی معیوب تصور کیا جاتا ہے۔

اسی تہوار کے دوران ہی کلاش جوڑے پسند کی شادی بھی کرتے ہیں ۔

فتح اللہ نے یہ رپورٹ بھی ہمیں بھیجی ہے

یاد رہے کہ کلاش چترال کی قدیم ترین روایت کے نمائندہ لوگ ہے بعضی تاریخی روایات کے مطابق سولہویں صدی تک  اسلام کی آمد سے قبل اس پورے خطے میں کلاش تہذیب کے لوگ رہائش پزیر تھے۔ جنہیں شمال سے آنے والے مسلمان حکمرانوں نے زور زبردستی اسلام میں داخل کروا دیا۔ اور یوں کلاش تہذیب سکڑتے سکڑتے صرف بمبوریت، رمبور اور بریر کی وادیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے نورستان و کنڑ میں بھی کلاش تہذیب کے لوگ رہائش پزیر تھے جب اٹھارہ سو تراسی میں ڈیورنڈ لائین کھینچی گئی تو نورستان و کنڑ کے علاقوں کو افغان امیر عبدالرحمن خان کے حوالے کردیا۔ جنہوں نے اس وادیوں میں مہم بھیج کر وہاں کے لوگوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا، خواتین کی عزت لوٹ لی اور باقی ماندہ لوگوں کو غلام بنایا اور بچھے کچھے لوگ اسلام قبول کرکے جان بچائی۔

چترال کے موجودہ کلاش کی آبادی بھی روز بروز سکڑتی جارہی ہے جس کی وجہ وہاں پر بڑے پیمانے پر تبلیغی سرگرمیاں اور تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت اور بین الاقوامی برادری مل کر اس تہذیب کو تحفظ دینے میں اپنا کردار ادا کریں اور کلاش قبیلے کے لوگوں میں تبلیغ کرنے کو مکمل ممانعت قرار دیا جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت اور بین الاقوامی برادری مل کر اس تہذیب کو تحفظ دینے میں اپنا کردار ادا کریں اور کلاش قبیلے کے لوگوں میں تبلیغ کرنے کو مکمل ممانعت قرار دیا جائے۔

اس کے علاوہ کلاش بچے اور بچیوں کو اسلامی تعلیمات کے بجائے کلاش تہذیب و ثقافت، ادب اور زبان میں تعلیم دے کر اس تہذیب کو مکمل معدومیت سے بچایا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں