کریم اللہ
چترال نرسز فورم کی جانب سے پشاور میں کامیاب نرسز کنونشن کا انعقاد کیا گیا اس موقع پر نرسز کے علاوہ چترال سے تعلق رکھنے والے ایم پی ایز، بیروکریٹس، صحافی برادری، سوشل ورکرز سمیت سول سوسائٹی کے اراکین کثیر تعداد میں شریک ہو کر کنونشن کو کامیاب بنایا۔
پروگرام میں ممبر صوبائی اسمبلی مولانا الرحمٰن، ممبر صوبائی اسمبلی وزیر زادہ ، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عمران، سپیشل سیکریٹری ایجوکیشن جناب محمد اکرام صاحب، ڈپٹی فائنانس سیکرٹری سید ابراہیم شاہ، صدر چترال جرنلسٹ فورم نادر خواجہ صاحب، صدر چترال لائر فورم و لیگل ایڈوائزر شاہد علی خاں یفتالی ، صدر تحریک حقوق چترال پیر مختار ، چیرمین ہیلتھ بورڈ پشاور و مردان آفتاب ، سابقہ چیرمین ہیلتھ بورڈ پیار علی، سینئر جرنلسٹ فیاض احمد ، سینئر جرنلسٹ پاکستان ٹیلی ویژن جناب امجد علی سمیت دیگر مہمانان گرامی کیساتھ بڑی تعداد میں نرسز اور نرسنگ سٹوڈنٹس نے شرکت پروگرام کو چار چاند لگا دئیے۔۔
چیرپرسن چترال نرسز فورم جفریاد حسین نے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور سپاس نامہ پیش کی۔
پٹرن ان چیف چترال نرسز فورم و پی ایچ ڈی اسکالر حکیم شاہ نے نرسنگ کی تاریخ، نرسز کے خدمات پر روشنی ڈالی اور نرسز کو درپیش چیلنجز کے بارے میں کمیونٹی کو آگاہ کرتے ہوئے ان کے مسائل حل کروانے پر زور دیا اور ساتھ ساتھ نرسز کو اپنے کلچر و روایات کا خیال رکھتے ہوئے مریضوں کو بہترین سہولیات مہیا کرنے اور ایمانداری کے ساتھ تمام سٹاف کے ساتھ تعاون کرکے ڈیوٹی سر انجام دینے پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا نرسز کا اپنا تشخص ہوتا ہے اور ڈاکٹر کا اپنا، ہم ڈاکٹر کی تشخص کے بعد اپنا تشخص کرکے مریضوں کا بہترین خیال رکھ سکتے ہیں اور دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے مگر افسوس پاکستان میں نرسز کی کمی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہے۔
صدر چترال نرسز فورم ناصر علی شاہ نے فورم کے مقاصد اور ویژں پر روشنی ڈالتے ہوئے تمام معززین سے کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں کے اندر نرسز چوبیس گھنٹے خدمات سر انجام دیتے ہیں چونکہ نرسز کی تعداد انتہائی کم ہونے کی وجہ سے کوالٹی کئیر مہیا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے قوانین کے مطابق ایک نرس دس مریضوں کو اچھا کئیر دے سکتا ہے مگر یہاں ایک نرسز اور 50 سے 60 مریض ہوتے ہیں تو بڑی مشکل سے تجویز کردہ دوائیاں ہی دی جاتی ہے انتہائی نگہداشت یونٹ میں ایک نرس ایک وینٹی لیٹر مریض ہوتا ہے مگر یہاں ایک نرسز تیں سے چار وینٹی لیٹر مریضوں کو دیکھتا ہے تو تواقعات سے زیادہ کیئر تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ نرسز مشین نہیں ہیں بلکہ وہ بھی انساں ہیں۔
چترال میں گورنمنٹ کی طرف سے نرسنگ کالج وقت کا تقاضا ہے جس پر کردار کی ضرورت ہے۔ پشاور میں نرسنگ ہاسٹل اور سٹاف کے چھٹیوں کا مسئلہ سنگین ہے قوانین پر عمل کرکے سال میں ایک مہینے چھٹی کے بجائے تکلیف دیا جاتا ہے اور منت سماجت پر مجبور کیا جاتا ہے ہسپتالوں سے پوچھنے والا کوئی نہیں، پرائیویٹ ہاسٹل میں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ،سیکورٹی نہیں جن پر بھی فوکس کی ضرورت ہے۔
ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمان اور منسٹر وزیر زادہ نے چترال نرسز فورم کے اقدامات کو چترال کے لئے گیم چینجر قرار دیتے ہوئے پاکستان کے تمام نرسز کے خدمات کو سراہا اور خراج تحسین پیش کئے اور دونوں نے نرسنگ کالج سمیت دیگر مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی۔