Baam-e-Jahan

رسوم اقوام

رسوم اقوام

تحریر: علی عباس جلالپوری


مشرقی اقوام میں قدامت پسند لوگ بیٹی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں اور بیٹوں پر فخر کرتے رہے ہیں۔

کیونکہ وہ بڑے ہوکر قبیلے کی تقویت کا باعث ہوتے ہیں جبکہ لڑکی کو جہیز دینا پڑتا ہے اور ذلت اٹھانا پڑتی ہے۔

 چنانچہ بیٹے کی پیدائش کو سعد اور بیٹی کی ولادت کو نحس سمجھتے ہیں۔

بیٹی پیدا ہو تو گھر میں سوگواری کا عالم دکھائی دیتا ہے

 زچہ کو اشاروں کنایوں میں طعنے دئیے جاتے ہیں

گویا بیٹی کو جنم دے کر اس سے کوئی جرم سرزد ہو گیا ہے

بیٹے کی پیدائش پر جشن کا سماں ہوتا ہے

ہر طرف مبارک سلامت کے گیت گاتے ہیں، ہیجڑے ناچ ناچ کر دعائیں دیتے ہیں اور رشتہ داروں سے ویلیں بٹورتے ہیں۔

بعض عورتیں منت مانتی ہیں کہ بیٹا ہوا تو عشرہ محرم پر اسے چاندی کی ہنسلی پہنائیں گی

بعد میں یہ ہنسلی بیچ کر غریبوں کو کھیر کھلائی جاتی ہے

اس مقصد کے لئے ذولجناح پت چاندی کی چھوٹی چھوٹی چھتریاں اور پنجے چڑھانے کی منت مانی جاتی ہے

بعض مذاہب میں اس تعصب کو تقویت دی گئی ہے

سنسکرت میں پتر کا لغوی معنی ہے پت (دوزخ) سے بچانے والا

ہندو مت کی رو سے وہی شخص سورگ یا بہشت میں جا سکتا ہے جس کی چتا کو اس کا بیٹا آگ لگائے

رومہ میں کوئی شخص اولاد نرینہ چھوڑے بغیر مر جاتا تو کہتے تھے کہ آخرت میں اسے عذاب دیا جائے گا

مجوسیوں کا عقیدہ ہے کہ جس شخص کا بیٹا نہ ہو وہ چنود کے پل (پل صراط) سے گزر نہیں سکے گا

پنجابی میں جس شخص کی اولاد نرینہ نہ ہو اسے اوتر نکھتر کہتے ہیں اور اسے بد بخت سمجھتے ہیں

لفظ اوتر عربی کا ابتر ہے جس کا معنی ہے دم کٹا

یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورتیں حمل کے آثار ظاہر ہوتے ہی اولیاء کے مزاروں اور پیروں کے سجادوں کا طواف شروع کر دیتی ہیں

بعض عورتیں منت مانتی ہیں کہ بیٹا ہوا تو عشرہ محرم پر اسے چاندی کی ہنسلی پہنائیں گی

جس عورت کے گھر بڑی آرزؤں سے بیٹا پیدا ہو اسے مانگے تانگے کے کثڑے پہنائے جاتے ہیں

بسا اوقات کسی ولی کے نام پر بیٹے کے سر پر لٹ چھوڑی جاتی ہے

گویا جب تک یہ لٹ موجود ہے ولی مذکور اس کی حفاظت کرتا رہے گا

بعد میں یہ ہنسلی بیچ کر غریبوں کو کھیر کھلائی جاتی ہے

اس مقصد کے لئے ذولجناح پت چاندی کی چھوٹی چھوٹی چھتریاں اور پنجے چڑھانے کی منت مانی جاتی ہے

جس عورت کے گھر بڑی آرزؤں سے بیٹا پیدا ہو اسے مانگے تانگے کے کثڑے پہنائے جاتے ہیں

بسا اوقات کسی ولی کے نام پر بیٹے کے سر پر لٹ چھوڑی جاتی ہے

گویا جب تک یہ لٹ موجود ہے ولی مذکور اس کی حفاظت کرتا رہے گا

جب یہ لڑکا بارہ برس کی عمر کو پہنچتا ہے تو ولی کے مزار پر اسے مونڈوانے کی تقریب برپا ہوتی ہے

گانا بجانا ہوتا ہے اور مٹھائی بٹتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے