تحریر: اسرار الدین اسرار
ایک درندہ صفت شخص کی طرف سے گلگت بلتستان کا دور افتادہ علاقہ روندو طورمک میں 14 سالہ بچی کو ساتھیوں سیمت تسلسل سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا واقعہ شرمناک اور دردناک ہے۔
مبینہ طور پر درندہ صفت شخص نے بچی کو شادی کا جھانسہ دے کر پہلے جنسی تعلقات بنائے پھر متاثرہ بچی کی ویڈیو بنا کر ان کو بلیک میل کرتے رہے اور اپنے 8 دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر کئی عرصے تک تسلسل کے ساتھ اس ننھی بچی کو جنسی درندگی کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
مقامی پولیس کے مطابق 8 ملزمان نے بچی کو متعدد مرتبہ جنسی درندگی کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں کم سن بچی حاملہ ھوگئی۔
گلگت بلتستان میں گذشتہ کچھ عرصے میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، بچوں کو ہسپتال سے اغواء کئے جانے، کم سن بچیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر جنسی ہوس کا نشانہ بنانے اور ویڈیوز بنا کر ان کو وائرل کرنے کے علاوہ سائبر ہراسمنٹ کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں جو کہ پورے معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہیں ۔
اس کے باوجود بھی ملزمان ویڈیو کے ذریعے بچی کو بلیک میل کرتے اور اجتماعی جنسی تشدد کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ مقامی پولیس نے انسداد دہشت گری ایکٹ کے تحت واقعے کا مقدمہ درج کر کے 8 میں سے تاحال چار ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے ۔
اس واقعہ کا مرکزی ملزم اور دیگر ملزمان کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ ملزمان کو قرار واقعی سزا دلانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جائے۔
ضلع گلگت کی طرح دیگر اضلاع میں بھی چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کا قیام عمل میں لاکر ایسے واقعات سے متاثرہ بچوں کی قانونی مدد کے علاوہ سائیکو ری ہیبلیٹیشن پر بھی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
گلگت بلتستان میں گذشتہ کچھ عرصے میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، بچوں کو ہسپتال سے اغواء کئے جانے، کم سن بچیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر جنسی ہوس کا نشانہ بنانے اور ویڈیوز بنا کر ان کو وائرل کرنے کے علاوہ سائبر ہراسمنٹ کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں جو کہ پورے معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہیں ۔
بچوں کے تحفظ کے لئے بنائے گئے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کے علاوہ سکولوں اور کمیونٹی سطح پر آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے شرمناک اور قابل نفرت واقعات کی روک تھام کو ممکن بنایا جاسکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو جنسی و جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنانے والے افراد میں اکثریت ان کی ہوتی ہے جو خود بچپن میں جنسی ، جسمانی یا نفسیاتی تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں یا اس کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ گلگت بلتستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے سینکڑوں ایسے کیسسز ہوتے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
ضلع گلگت کی طرح دیگر اضلاع میں بھی چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کا قیام عمل میں لاکر ایسے واقعات سے متاثرہ بچوں کی قانونی مدد کے علاوہ سائیکو ری ہیبلیٹیشن پر بھی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
دوسری طرف معاشرے میں ایسے درندے جو بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں ان کی تعداد میں مسلسل اضافے کی وجوہات جاننے کے لئے ایک تحقیق اور سروے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ایسے افراد کی بروقت نشاندہی کی جاسکے اور اس بڑھتی ہوئی لغنت پر قابو پانے کے لئے اقدمات کئے جاسکیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو جنسی و جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنانے والے افراد میں اکثریت ان کی ہوتی ہے جو خود بچپن میں جنسی ، جسمانی یا نفسیاتی تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں یا اس کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ گلگت بلتستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے سینکڑوں ایسے کیسسز ہوتے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
اب وقت کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے پر کھل کر بات کی جائے اور اس کے تدارک کے لِئے موثر پالیسی بنائی جائے۔
گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس ضمن میں فوری اور ٹھوس اقدامات اٹھائے۔