Baam-e-Jahan

اپنی اہمیت سے نابلد گلگت بلتستان


تحریر: فرمان بیگ


گلگت بلتستان سونے کے کان پر بیٹھا مسائل سے دوچار ایک ایسا خطے ہے جہاں تین پہاڑی سلسلے کوہ قراقر، کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندوکش ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ  اس کی دفاعی اہمیت پہلے سے زیادہ بڑ ھ گئی ہے۔

 اس کی سرحدیں چین، ہندوستان، پاکستان اور افغانستان سے ملتی ہیں واخان کوریڈور دس کلومیٹر کے فاصلےپر گلگت بلتستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے دنیا کی متعدد بلند ترین پہاڑی چوٹیاں  گلگت بلتستان میں واقع ہیں جہاں دنیا کے سب سےبڑے تین مشہور گلیشیئرز، میٹھا پانی، بہتے دریا، بلند ترین سطح مرتفع،  جھیلیں، سرسبز وشاداب وادیاں، بے پناہ معدینی وسائل،  سیاحتی مقامات، قدیم شاہراہیں، تاریخی و ثقافتی ورثہ اور منفرد جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے  ہمیشہ سیاحوں، مہم جووں  اور مبلغین کے لیے پرکشش خطہ رہا ہے۔  اسی مناسبت سے اس کو سیاحوں کا جنت بھی کہا جاتا ہے۔

 گلگت بلتستان دفاعی و تزویراتی اہمیت کے حامل خطہ ہونے کے ساتھ پاکستان کی زراعت کے لئے ریڑھ کے ہڈی کی مانند  ہے یہاں کے گلیشئرز اور دریا پاکستان کے میدانی علاقوں کو سراب کرتی ہے۔

 حیاتیاتی تنوع کے ساتھ  قدرت نے خطے کو بیش بہا دیگر وسائل سے بھی مالا مال کر رکھا ہیں جس میں خوبصورت سیاحتی مقامات، جھلیں، برف پوش پہاڑ  اور معدنیات سرفہرست ہے اگر معدنیات کی بات کی جائے تو سب سے بہترین کوالٹی کا سونا گلگت بلتستان میں پایا جاتا ہے اب تک کے تحقیق کے مطابق ایک سو چھ مقامات پر پلاٹینم،  چار سو ترانوئے مقامات پر کاپر، ایک سو اڑسٹھ مقامات پر سونا کے علاوہ لیڈ، زنک، کوہالیٹ،  مولیڈیم اور آئرن کے سینکڑوں زخائر  موجود ہیں ۔

  خطے کے حیاتیاتی تنوع  اپنے قدرتی ماحولیاتی زونز کی وجہ سے اعلی مقام رکھتا ہیں ان پہاڑی علاقوں میں تقریبا 1000 قسم کے انواع و اقسام کے پودے، کئی رقبے پر پھیلے جنگلات  اور مختلف اقسام کے ممالیہ جانور  پائی جاتی ہے جن کی کل تعداد 54  ہے ان مشہور نایاب جنگلی جانوروں میں مارخور، آئی بکس، برفانی چیتا اور دیگر  انواع و اقسام کے چرند وپرند شامل ہیں۔

 حیاتیاتی تنوع کے ساتھ  قدرت نے خطے کو بیش بہا دیگر وسائل سے بھی مالا مال کر رکھا ہیں جس میں خوبصورت سیاحتی مقامات، جھلیں، برف پوش پہاڑ  اور معدنیات سرفہرست ہے اگر معدنیات کی بات کی جائے تو سب سے بہترین کوالٹی کا سونا گلگت بلتستان میں پایا جاتا ہے اب تک کے تحقیق کے مطابق ایک سو چھ مقامات پر پلاٹینم،  چار سو ترانوئے مقامات پر کاپر، ایک سو اڑسٹھ مقامات پر سونا کے علاوہ لیڈ، زنک، کوہالیٹ،  مولیڈیم اور آئرن کے سینکڑوں زخائر  موجود ہیں ۔

گلگت بلتستان میں سستی پن بجلی پیدا کرنے کے مواقع موجود ہیں ایک اندازے کے مطابق تقریبا   40000   میگاوٹ پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت گلگت بلتستان میں ہے جن کو استعمال میں لاکر نہ صرف گلگت بلتستان خود کفیل ہوسکتا ہیں بلکہ زائد پیداوار کو  پاکستان کے دوسرے علاقوں میں فروخت سے گلگت بلتستان معاشی اور اقتصادی طور پر خوشحال اور مستحکم ہوسکتا ہیں

 اسی طرح قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے سروے کے مطابق گلگت بلتستان میں روبی، ایمیرالڈ،  سوامائر، سپائل،  ایکو امرین،  ٹوپاز، ٹورمالین،  مون سٹون،  زرقون وغیرہ کے ایک سے زیادہ ذخائر موجود ہیں۔

 خوبصورت سیاحتی مقامات، جھلیں، برف پوش، پہاڑ اور بیش بہا وسائل ہونے کے باوجود خطے کے لوگ بنیادی ضروریات مثلا بجلی، پینے کے صاف پانی، صحت و تعلیم اور   روزگار سے کیوں محروم ہیں ؟

  جب کہ گلگت بلتستان کے پاس معاشی و اقتصادی وسائل کے  دیگر ذرائع بھی موجود ہیں۔ مثلا سوست ڈرائی پورٹ  جس نے ماہ دسمبر کے صرف بارہ دنوں میں سات ارب سے زیادہ محصولات جمع کرکے ایک ریکارڈ بنایا ہے۔

 گلگت بلتستان کے اندر مراعات یافتہ باآثر اشرافیہ کے لئے کاروباری مواقع پیدا کرنے، ان کے لئے وسائل، زمین، دریار اور بنیادی انفرسٹکچرز کے حصول میں وہاں انتظامیہ اور مقامی سہولت کاروں کے زریعے مقامی لوگوں کے زمینوں کو اونے پونے داموں خریدا جارہا ہیں۔

 اس کے علاوہ معاشی وسائل کو پیدا کرنے کے دیگر سکٹرز بھی موجود ہیں مثلا  گلگت بلتستان سے گزرنے والا سی پیک جو پاک چین کا  اقتصادیات کا لائف لائین ہے۔ اسی طرح  ہوائی روٹ اور دریائے سندھ  کی رائلٹی حاصل کرنے کے لئے حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے۔

گلگت بلتستان میں سستی پن بجلی پیدا کرنے کے مواقع موجود ہیں ایک اندازے کے مطابق تقریبا   40000   میگاوٹ پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت گلگت بلتستان میں ہے جن کو استعمال میں لاکر نہ صرف گلگت بلتستان خود کفیل ہوسکتا ہیں بلکہ زائد پیداوار کو  پاکستان کے دوسرے علاقوں میں فروخت سے گلگت بلتستان معاشی اور اقتصادی طور پر خوشحال اور مستحکم ہوسکتا ہیں  اس طرح ٹواریزم انڈسٹریز مثلا کوہ پیمائی  و ٹرینکنگ سے حاصل معاشی محصولات قابل ذکر ہیں۔  

 درجہ بالا معاشی وسائل کو  استعمال میں لا کر گلگت بلتستان کو ایک خوشحال خطہ بنانے کے لیے اقدامات اٹھایا جاسکتا ہے جس کے لیے مقامی سطح پر چھوٹے اور درمیانے سطح کے کاروبار کے لئے  لوگوں کے استعداد کار بڑھانے کے علاوہ  وسائل فراہم کرکے ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔

 لیکن تینوں  وفاقی پارٹیوں کے مرکزی و مقامی حکمران گلگت بلتستان کی ترقی اور مقامی لوگوں کے لئے مراعات اور وسائل فراہم کرنے کی بجائے وہاں کے وسائل، زمین، دریا، پہاڑ، جنگلات، جنگلی حیات، سرسبز و شاداب،  وادیوں،  خوبصورت اور دلفریب قدرتی مناظر، برف پوش پہاڑ ، دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشئرز، بہتے دریا، میٹھے پانی کے چشموں،  اعلی معیار کے معدنیات اور قیمتی پتھر کے ذخائر  سب پرائیوٹائز کرنے میں  مصروف عمل ہے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان پاکستان کے مراعات یافتہ حکمران اور باآثر اشرافیہ کے لئے سونے کے انڈے کی مانند ہے

 گلگت بلتستان کے اندر مراعات یافتہ باآثر اشرافیہ کے لئے کاروباری مواقع پیدا کرنے، ان کے لئے وسائل، زمین، دریار اور بنیادی انفرسٹکچرز کے حصول میں وہاں انتظامیہ اور مقامی سہولت کاروں کے زریعے مقامی لوگوں کے زمینوں کو اونے پونے داموں خریدا جارہا ہیں۔

دوسری طرف معاشی اور اقتصادی  آمدنی کے سورس ہونے کے باوجود گلگت بلتستان کی حکومت اور اسمبلی خطے کے معاشی و اقتصادی اور بنیادی انفرسٹکچرز، سڑکیں، تعلیمی ادارے، ہسپتال وغیرہ کی تعمیر وترقی کے لئے ان وسائل کو استعمال میں لانے کے عملی اقدامات اٹھانے سے کیوں کتراتی ہے ؟

دوسری طرف معاشی اور اقتصادی  آمدنی کے سورس ہونے کے باوجود گلگت بلتستان کی حکومت اور اسمبلی خطے کے معاشی و اقتصادی اور بنیادی انفرسٹکچرز، سڑکیں، تعلیمی ادارے، ہسپتال وغیرہ کی تعمیر وترقی کے لئے ان وسائل کو استعمال میں لانے کے عملی اقدامات اٹھانے سے کیوں کتراتی ہے ؟

اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ کسی فرد یا قوم کی اپنے وسائل پر حق کے ساتھ ساتھ شناخت کا ہوناضروری ہے اگر اس کی شناخت بطور محکوم  یا غلام کی ہے تو اس شناخت کی بنیاد پر کس طرح  وہ  اپنے آقا سے برابری  کی بنیاد پر  حق  لیں سکتا ہے ؟

 گلگت بلتستان اسی غلامی اور کلونیل نظام کےصورت حال سے دو چار ہے اس لئے بحثیت مجموعی جب تک گلگت بلتستان  اپنے معاشی، اقتصادی و سیاسی  وسائل کے استعمال کاحق نہیں لیا جاتا اسی طرح مراعات یافتہ حکمران اشرافیہ گلگت بلتستان کے قدرتی، معاشی و اقتصادی وسائل کو لوٹتے رہیں گے  گلگت بلتستان  ہر لحاظ سے وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود لوگ بنیادی ضرویات زندگی، تعیلم و صحت، بجلی وغیرہ سے محروم رہیں گے  ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں