Baam-e-Jahan

سرمائی سیاحت کے نام پر غیروں کی ڈگڈگی پر بندروں کی طرح اپنوں کی ناچ


تحریر : احمد جلیل ہنزائی


گلگت بلتستان کے یخ بستہ موسم میں سرمائی کھیلوں  کی بہار عروج پر پہنچ گئی ہے۔ عقل و دانست رکھنے والے حضرات بنیادی انسانی سہولیات سے محروم خطے میں سرمائی کھیل اور سرمائی سیاحت کو فروغ دینے کے نام پر وسائل کے بے دریغ استعمال کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے نظر آرہے ہیں جبکہ مذکورہ وسائل سے فیض یاب ہونے والے لوگ سرمائی سیاحت اور سرمائی کھیلوں  کے فروغ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سرمائی کھیلوں  کے شروعات کو  5 سال ہوگئے ہیں۔

 اس سال محکمہ سیاحت نے سکردو، خپلو، خلتی اور عطاآباد جھیل پر بھی ونٹر سپورٹس پر لاکھوں روپے لٹا دئیے ۔ اس کے باؤجود سرمائی سیاحت  ایک خواب بن کر رہ گیا۔ یہ لوگ پورے ملک میں قومی میڈیا پر تشہیر کے باؤجود درجن بھر سیاحوں کو عطا آباد جھیل  کی طرف متوجہ کرنے میں ناکام ہوگئے۔

سیاحت کو فروغ دینے کے لئے  بہت سے علاقوں میں موضوں   انفراسٹرکچر نہیں۔ ہوٹلز نہیں۔ ہوٹلز ہیں تو گرم اور صاف پانی میسر نہیں۔ سردیوں میں تو خطرہ مول لے کر   آنے والے مقامی سیاح  ایک کپ چائے کی خاطر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں

ہوا یوں کہ بجا ڈگڈگی ۔۔۔ نچا بندر ۔ جیسے محاورہے کے  مصداق  ہم غیروں کی ڈگڈگی پر بندر بن کر ناچ گئے۔ روایات، آداب اور ثقافت کے نام پر چوغے پہنے سینئر سیٹزنز کو چیرلیڈرز بنادی گئی ۔ چند پیسوں کے عوض ہم نے ثقافت کا جنازہ نکال دیا۔ نوجوان نسل کے لئے کھیل انتہائی ضروری ہے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن ان تمام چیزوں سے قبل انسان کے لئے دو وقت کی روٹی، سر پر چھت، باعزت روزگار، پانی، بجلی، گیس، ہسپتال، ہسپتال میں ادویات، مساوی تعلیم اور انصاف ضروری ہیں۔

 سرمائی کھیلوں کے فروع کے نام پر کئی نامور ادارے کود پڑے۔ لاکھوں کروڑوں روپے سپانسرشپ کے نام پر اپنے اداروں کے پروموشن پر لگا دی گئی ۔ مذکورہ ادارے اس وقت مکمل خاموش رہے۔ جب غربت کے باعث لوگوں نے خودکشیاں کیں۔ بیروزگاری کی لعنت نے کئی قیمتی زندگیوں کو نگل لیا۔ ان کو غربت اور بیروزگاری کا احساس ہوگیا اور نہ ہی گلگت بلتستان تاریکی میں ڈوبنے کا۔ نہ ان کو آج تک کو بڑھتی خوفناک بیروزگاری کا احساس ہے۔ غریب لوگوں کو نہ چھت دینے کی فکر ہے اور نہ غریب مریض کو ہسپتال میں ادویات۔ فکر ہے تو صرف اپنے پروموشن کا۔

نوجوان ڈھول کے پیچھے جائے  یا ڈرامے کے۔ شراب کے پیچھے پڑے رہے یا شباب کے۔ اس سے ان کا کوئی سروکار نہیں۔

حکومت، کاروباری ادارے، این جی اوز اور سماجی ادارے ٹوریزم پروموشن کے دعووں سے قبل انسانی بنیادی ضروریات بہم پہنچانے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے  ہیں۔ بنیادی انسانی ضروریات بہم پہنچائے  بنا سیاحت کے فروع  کے دعوے محض خود فریبی کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ سرمائی کھیلوں کی تقریبات میں ماحولیات کے تحفظ کی ہوائی  باتیں بھی کی گئی ہے۔ یہ باتیں پروگرام میں آئے ہوئے مہمانوں کو خوش کرنے کے لئے  تو اچھی ہیں لیکن ان دعوؤں  کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں

گلگت بلتستان میں سرمائی کھیلوں  کے ذریعے سرمائی سیاحت کو  پروموٹ کرنا اشد ضروری ہے لیکن عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نہیں۔ ہنزہ سمیت گلگت بلتستان کے تمام علاقوں میں بجلی کا انتہائی  سنگین بحران ہے۔ بجلی مریض کی دوائی  کی شیڈول کے مطابق ملتی ہے۔ سیاحت کو فروغ دینے کے لئے  بہت سے علاقوں میں موضوں   انفراسٹرکچر نہیں۔ ہوٹلز نہیں۔ ہوٹلز ہیں تو گرم اور صاف پانی میسر نہیں۔ سردیوں میں تو خطرہ مول لے کر   آنے والے مقامی سیاح  ایک کپ چائے کی خاطر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ پہلے سردیوں میں چند ہوٹلز کھلتے تھے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گیس جلانے کے باعث کئی  سیاح  مر گئے۔ جس پر ہوٹل مالکان کے خلاف قتل کے مقدمات درج ہوئے اور انہیں بلاجواز عدالتوں کی چکر کاٹنے پر مجبور کردیا گیا۔ اسی  خوف سے مالکان نے وہ ہوٹلز بھی سردیوں میں اس جھنجھٹ سے جان چھڑانے کی خاطر بند کردئیے ۔ ایسے میں ہنزہ، سکردو، نگر، غذر اور دیگر جگہوں میں سرمائی سیاحت کو فروع دینے  کے دعوے دیوانوں کے خواب لگتے ہیں۔

حکومت، کاروباری ادارے، این جی اوز اور سماجی ادارے ٹوریزم پروموشن کے دعوٸوں سے قبل انسانی بنیادی ضروریات بہم پہنچانے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے  ہیں۔ بنیادی انسانی ضروریات بہم پہنچائے  بنا سیاحت کے فروع  کے دعوے محض خود فریبی کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ سرمائی کھیلوں کی تقریبات میں ماحولیات کے تحفظ کی ہوائی  باتیں بھی کی گئی ہے۔ یہ باتیں پروگرام میں آئے ہوئے مہمانوں کو خوش کرنے کے لئے  تو اچھی ہیں لیکن ان دعوؤں  کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں۔ سردیوں کے صرف ایک سیزن میں ہنزہ اور نگر میں ہی ہزاروں درختوں کا قتل عام ہوتا ہے۔ اس وقت تحفظ ماحولیات کے دعویدار لمبی تان کر سوئے رہتے ہیں۔ تب جاگ جاتے ہیں جب انہیں ڈگڈگی کی آواز سنائی  دیتی ہے۔ خدارا تحفظ ماحولیات پر اگر کام کرنا ہے تو صرف نعروں اور دعوؤں سے عوام کو بیوقوف مت بنائیں۔ تقریبات میں عوام کو ماموں بنانے کی بجائے  گراس روٹ لیول پر کام کریں۔ ہنزہ میں پلاسٹک فری کی ناکام مہم کے بعد اب اسے گلگت میں بھی دہرایا جارہا ہے۔ یورپ اور امریکہ کی حکومتیں پلاسٹک کا مکمل متبادل پیدا نہ کرنے کی وجہ سے پابندی لگانے میں بے بس ہیں۔ ہم ان سے بھی ترقی یافتہ قوم بننے کی چکروں میں صرف پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد  کررہے ہیں جبکہ ہمارے پاس کپڑے یا بایو ڈی گریڈ ایبل مٹیریل کی تھیلیاں بنانے والی ایک فیکٹری  بھی موجود نہیں۔ صرف ایک این جی او اس مہم جوئی میں مصروف ہے لیکن مارکیٹ میں کپڑے اور ڈی گریڈ ایبل تھیلیاں وقت اور ان کی ضرورت کے حساب سے نہ ملنے کی وجہ سے ہنزہ میں کاروباری حضرات پریشان ہیں۔

المختصر سرمائی سیاحت اور سرمائی کھیلوں کے فروع سے قبل غریبوں کو دو وقت کی روٹی دو۔ ٹھٹھرتی سردی میں جان بچانے، درختوں کو قتل عام سے بچانے کے لئے  بجلی دو۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور ادویات کا بندوبست کرو۔ بیروزگاری ایک ٹیکنگ ٹائم بم بنتی جارہی ہے۔ بیروزگار نوجوانوں کے لئے روزگار کا بندوبست کرو۔ کمیونٹی کے ادارے بھی خرافات کے لئے ہی صرف میدان میں آتے ہیں۔ کبھی مشکلات اور مسائل  کے حل کے لئے  بھی یہی پھرتی دکھایا کرو۔

 ہم اتنے عقلمند ہیں کہ کسی بھی چیز پر پابندی پہلے ہی لگاتے ہیں اور اس کے متبادل پیدا کرنے کے لئے بعد میں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری ناقص پالیسی اور دوسروں کے اشاروں پر چلنے کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔

ترقیاتی ممالک میں لوگ کسی کام کے شروع کرنے سے پہلے ہی اس کے مثبت اور منفی پہلووں کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں اجلت میں کام کیا جاتا ہے۔ مثبت اور منفی پہلو بعد میں عوام کے مقدر بن جاتے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں لیڈروں کو غلط فیصلوں کے باعث عوام کے قہرو غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ یہاں عوام کو ہی نااہل حکمرانوں کی قہروغضب کا دوبارہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے یہاں حکمران آزاد ہیں۔

المختصر سرمائی سیاحت اور سرمائی کھیلوں کے فروع سے قبل غریبوں کو دو وقت کی روٹی دو۔ ٹھٹھرتی سردی میں جان بچانے، درختوں کو قتل عام سے بچانے کے لئے  بجلی دو۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور ادویات کا بندوبست کرو۔ بیروزگاری ایک ٹیکنگ ٹائم بم بنتی جارہی ہے۔ بیروزگار نوجوانوں کے لئے روزگار کا بندوبست کرو۔ کمیونٹی کے ادارے بھی خرافات کے لئے ہی صرف میدان میں آتے ہیں۔ کبھی مشکلات اور مسائل  کے حل کے لئے  بھی یہی پھرتی دکھایا کرو۔ سرمائی کھیلوں  اور سرمائی سیاحت  کا کوئی  مخالف نہیں۔ مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لئے  چند افراد کو نوازنے کا سلسلہ ترک کرلیا جائے ۔ ثقافت کے فروغ کے نام پر ثقافت کی بے توقیری بند ہونا چاہئے ۔ پہلے انسانی بنیادی سہولیات عوام کو میسر کرو پھر پوری عوام کی مدد سے ہی سرمائی سیاحت اور سرمائی کھیلوں کے فروع دیا جاسکتا ہے ۔ نہیں تو پھر ہر آنے والے سیزن میں عوامی مزاحمت اور تنقید کے  لئے کمر بستہ تیار رہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں