Baam-e-Jahan

پھانسی کا پھندا اور عورت کی گردن


ماجد علی


موجودہ دور کے مسائل پر لکھتے ہوئے مجھے ایک کوفت سی ہوتی ہے۔ یہ خیال کہ میری لکھی ہوئی باتیں میرے بعد آنے والی نسل پڑھے گی مجھے خوش کرنے کے بجائے الٹا مجھے شرمسار چھوڑ جاتا ہے۔ جن مسائل کو ہم نے سینے سے لگا رکھا ہے وہ اتنے سطحی ہیں کہ ایک واجبی سی ذہنیت کا بندہ بھی انہیں مسائل کے بجائے کوئی مضحیکہ خیز بات کہ کر ٹال دے گا۔ دیکھئے تو ہم دن رات کن معاملات پر بحث چھیڑے بیٹھے ہیں۔ یہی نا کہ کسی میلے یا تقریب میں عورتوں کو داخلے کی اجازت دی جائے یا اسے خالص مردانہ محفل رہنے دیا جائے۔

ثقافت کے نام پر کسی کو ناچ گانے دیا جائے یا ناچ گانے ہی کو حرام کہ کر مسئلے کو سرے سے دبا دیا جائے۔ جہاں جہاں موسیقی کی محافل سے عورتوں کو ثقافت اور مذہب کے نام پر باز رکھا گیا وہاں نوعمر لڑکوں کو مجرے کے طرز پر نچاتے بھی دیکھا گیا اور ان پر نوٹوں کی بارش بھی دیکھی گئی۔ یہ کس کا مذہب اور کس کی ثقافت ہے؟

ہم اپنی ساری توانائی اس کام پر صرف کر رہے ہیں کہ ہماری عورتیں گھر کے اندر رہیں اور محفوظ رہیں۔ ان کا کسی سے میل میلاپ تو درکنار کسی کو دیکھنا بھی ہمیں گوارا نہیں لیکن کیا آج سے پچاس سال بعد ہم اسی طرح رہیں گے یا اس وقت سماں مختلف ہوگا؟ اس کا جواب مشکل لگتا ہے تو کسی بزرگ سے پوچھیے نصف صدی پہلی عورت کی حیثیت کیا تھی۔

سمے کا سمندر کسی کی نہیں سنتا، وقت کے آگے کوئی بند نہیں باندھ سکتا۔ ارتقاء کو روکنے والوں پر ارتقا گزر رہی ہوتی ہے۔ وقت ایک سا نہیں رہتا، لوگ ایک سے نہیں رہتے۔ لوگ بدلتے ہیں تو خیالات اور فلسفے بھی بدل جاتے ہیں۔ ایک ہی فلسفے سے ہر پیڑھی کو ہانکنا حماقت ہے۔ ہر نسل کا طرز حیات پچھلی اور اگلی نسل سے جدا ہوتا ہے۔

بدلاؤ کو ماننا ہی حقیقت پسندی ہے، دنیا کے حال میں ڈھل جانا ہی دانائی ہے۔ دنیا سے بھاگنے والوں کا مقدر محکومی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

ہم نے صدیوں سے صرف ایک موضوع پر کلام کیا ہے اور وہ یہ کہ عورت گھر کے اندر مرے یا باہر۔

ہم اپنی ساری توانائی اس کام پر صرف کر رہے ہیں کہ ہماری عورتیں گھر کے اندر رہیں اور محفوظ رہیں۔ ان کا کسی سے میل میلاپ تو درکنار کسی کو دیکھنا بھی ہمیں گوارا نہیں لیکن کیا آج سے پچاس سال بعد ہم اسی طرح رہیں گے یا اس وقت سماں مختلف ہوگا؟ اس کا جواب مشکل لگتا ہے تو کسی بزرگ سے پوچھیے نصف صدی پہلی عورت کی حیثیت کیا تھی۔

کھیل ہو، ادب ہو، تعلیم ہو، ثقافت ہو یا مذہب ہماری آنکھ نے ہمیشہ کوئی ایسا راستہ تلاش کیا جہاں عورت جائے تو آگے بندشوں کا پھاٹک ہو۔

کیا یہ اتنا اہم معاملہ ہے کہ اس پر صدیاں نچھاور کی جائیں؟ ہم ثقافت سے لے کر مذہب تک اور دین سے لے کر دنیا تک ہر چیز میں بندشوں کی زنجیر لےکر عورت کی کلائی کیوں تلاش کرتے ہیں؟

جہاں ہمیں کوئی خالی پنجرہ نظر آجائے تو ہماری نگاہ عورتوں کی طرف کیوں اٹھ جاتی ہے؟

ہر پھانسی کے پھندے پر ہمیں عورت کی گردن کیوں چاہیے؟

ہم صرف اسی کو کیوں عورت سمجھتے ہیں جو پابند سلاسل ہو؟ ہم ہر خومختار اور آزاد عورت کو شک کی نگاہ سے کیوں دیکھتے ہیں؟

یہ ثقافت کی بیڑیاں کسی مرد کی ٹانگ میں پہنائی کیوں نہیں جاتیں؟

میں یہاں عورت کی وکالت نہیں کر رہا۔ یہ عورتوں کا اپنا کام ہے۔ میں محض یہ پوچھ رہا ہوں کہ دنیا جب مریخ تک پہنچ چکی ہے۔ دور کے سیارے جب دسترس میں ہیں، زندگی جب آرام دہ ہے، انسان جب پہلے سے زیادہ طاقتور اور لوگ جب موت تک کا علاج ڈھونڈنے میں سرگرداں ہیں تو اس وقت کیا یہ بحث کرنا کہ مخلوط میلے منعقد کئے جائیں یا عورتوں کو گھروں میں گھٹ کر مرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے شرم کا مقام نہیں ہے؟ کیا یہ وہی ماضی کو دہرانا نہیں ہے جب ہمارے اسلاف بھی اپنے عصر کے تقاضوں کو بھول کر غیرضروری مباحث میں سر کھپا رہے تھے۔

میں محض یہ پوچھ رہا ہوں کہ دنیا جب مریخ تک پہنچ چکی ہے۔ دور کے سیارے جب دسترس میں ہیں، زندگی جب آرام دہ ہے، انسان جب پہلے سے زیادہ طاقتور اور لوگ جب موت تک کا علاج ڈھونڈنے میں سرگرداں ہیں تو اس وقت کیا یہ بحث کرنا کہ مخلوط میلے منعقد کئے جائیں یا عورتوں کو گھروں میں گھٹ کر مرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے شرم کا مقام نہیں ہے؟

اسلام جو اندلس سے انڈونیشیا تک اپنے جھنڈے گاڑھ چکا تھا اسے اچانک کیا ہوگیا کہ مغربی قوتیں میدان مار گئیں؟

تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھئے۔

دنیائے اسلام زوال کے دہانے پر کھڑی تھی۔ مغربی قوتیں استحکام حاصل کرکے اب بدستور مشرق کی طرف بڑھ رہی تھیں۔

وہاں فرانس، مصر کی اینٹ سے اینٹ بجانے آن پہنچا تھا اور یہاں مصر کے علماء دینی مباحث میں مشغول تھے۔ مغرب کے سر پر سائنس کے راز افشان کرنے کا جنون سوار تھا اور مسلم علماء کی نیند یہ سوچ کر حرام تھی کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیک وقت بیٹھ سکتے ہیں، شریعت کی رو سے داڑھی کی لمبائی بالشت بھر ہونی چاہیے یا ڈیڑھ۔

بارش کے ہر قطرے کے ساتھ کتنے فرشتے آسمان سے زمین کی طرف آتے ہیں وغیرہ۔ یہ وقت ان مباحث کا ہرگز نہیں تھا۔

مولانا ابو الکلام آزاد فرماتے ہیں چند ہی صدی پہلے ماجرا اس کے برعکس تھا۔

مصر کے مسلمان منجنیقیں لےکر فرانس پر آگ برسا رہے تھے اور فرانس کے پادری گرجا گھروں میں گھسے خدا سے مدد مانگ رہے تھے۔

خداوند یسوح کی مدد نہیں آئی۔ مسلمان فتح کے جھنڈے گاڑھتے چلے گئے۔ لیکن اب محض چند سو سال بعد کایا پلٹ چکی تھی۔

وقت بےرحم ہوتا ہے۔ یہ رک کر کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ جو زمانے کے ساتھ نہیں چلتا اسےزمانہ روند کر آگے نکل جاتا ہے۔ ہم بھی روندے جا چکے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ آگے بڑھ کر اس ریل میں اپنے لئے بھی جگہ تلاش کی جائے۔ ورنہ سوئی کی نوک پر فرشتوں کے لئے تو جگہ ہو سکتی ہے لیکن بدلتی دنیا میں ہمارے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

اب فرانس آگ برسا رہا تھا اور مصر کے ملا مسجدوں میں گھسے رو رو کر اللہ کی پناہ مانگ رہے تھے۔ اللہ کی مدد یہاں بھی نہیں آئی۔

کہتے ہیں ایک کافر اور مسلمان دریا میں کود جائیں تو وہی بچے گا جسے تیرنا آتا ہوگا۔ اللہ جاہلوں کی طرف داری نہیں کرتا۔

وقت بےرحم ہوتا ہے۔ یہ رک کر کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ جو زمانے کے ساتھ نہیں چلتا اسےزمانہ روند کر آگے نکل جاتا ہے۔ ہم بھی روندے جا چکے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ آگے بڑھ کر اس ریل میں اپنے لئے بھی جگہ تلاش کی جائے۔ ورنہ سوئی کی نوک پر فرشتوں کے لئے تو جگہ ہو سکتی ہے لیکن بدلتی دنیا میں ہمارے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

جاتے جاتے ثقافت اور مذہب کے پاسبانوں کو یہ تنبیہ کہ جس ثقافت کو بچیوں کے رقص اور کھیل کود سے خطرہ لاحق ہو وہ ثقافت زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اپنی ثقافت کو ذرا ڈھیلا چھوڑئیے، سخت چیزیں جلدی ٹوٹ جاتی ہیں۔

 

اپنا تبصرہ بھیجیں