Baam-e-Jahan

شاہنامہ سئر….ایک تاریخی جائزہ


تحریر: سرور صحرائی

         شاہنامہ کے بارے میں۔۔

    مرزا سئر کا شاہنامہ اٹھارویں صدی کے دوران کچھ ان کے والد کی یاد داشتوں اور کچھ ان کے اپنے مشاہدات کی بنیاد پر غالبا 1810ء کے عشرے میں ان کے دیوان کے ساتھ ترتیب دیا گیا تھا کیونکہ ان کے دیوان کے اندر ایک جگہ (بمطابق 1812ء) کی تاریخ لکھی پائ جاتی ہے۔۔

    شاہنامہ سئر کا اصل مسودہ  موجود تھا جس کی نقل شگرام توریکھو میں شہزادہ امان الملک کے حکم پر ھ ( بمطابق 1844ء) میں اس وقت کرائی گئی جب وہ ریاستی دور میں وہاں مقامی حکمران کے طور پر تعینات تھے۔ اس کے بعد اصل نسخے کے بارے میں موجودہ وقت میں معلومات دستیاب نہیں کہ وہ ہے بھی کہ نہیں اور اگر ہے تو کہاں پر اور کس کے پاس ہے۔۔؟ تاہم مذکورہ نسخہ ( نسخہ نمبر 2) سے تیسرا نسخہ اویون کے ایک شخص نے 1927 میں بنایا اور پھر اس تیسرے  کی مدد سے اورغچ اور دینین میں دو نسخے بنائے گئے۔ دینین والی نقل آخری بار 1973 میں کئے جانے کے شواہد موجود ہیں۔۔

اویون والے نسخے کی نقول تو موجود ہیں لیکن خود اویون والا نسخہ ایک لمبے سفر کے بعد 2006ء میں یوروپ کے ملک اٹلی پہنچ کر محو استراحت ہے۔۔۔

              پس منظر۔۔

   چونکہ چترال کی تاریخ کے متعلق کوئی قدیم ہم عصر لکھی تاریخ میسر نہیں ہے اس لئے بہت سے مورخین کے نزدیک مذکورہ شاہنامہ چترال کی تاریخ کے سلسلے میں مقامی طور پر واحد موجود دستاویز ہے۔ مگر چونکہ شانامہ ایک منظوم دستاویز تھا اور بظاہر تاریخ کی ایک مکمل اور رسمی کتاب نہیں تھی اس لئے ریاستی حکمرانوں کی خواہش پر مرزا محمد غفران نے جب چترال کی تاریخ پر مقامی طور پر کام شروع کیا تو اپنے 1893 کے مختصر مسودہ تاریخ  اور  بعد میں 1921 کی مفصل تاریخ چترار فارسی کی تیاری میں مذکورہ شاہنامہ میں جو جو تاریخی مواد موجود تھا اس سے استفادہ کیا اور دیگر تاریخی مواد کو اپنی تحقیق اور روایات کی بنیاد پر اضافوں کے ساتھ تاریخ کا حصہ بنایا۔

 رئسہ حکمرانوں کے بارے میں نہ شاہنامہ میں تفصیلات تھیں نہ خود انکو کوئی تاریخی تفصیلات ملیں، تاہم صرف اتنا لکھا  کہ بڑی جستجو کے بعد انہیں رئسہ حکمرانوں کے صرف نام مل سکے ہیں اور وہ دس نام انہوں نے تاریخ چترار فارسی 1921 میں بتا بھی دیا ہے۔۔انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ حکمران بعض گلگت میں اور بعض چترال میں تقسیم ہو کر حکمرانی کر رہے تھے۔۔

     کافی عرصہ بعد ان کے بیٹے غلام مرتضی نے نئی تاریخ چترال اردو کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی جو  مہتر محمد ناصرالملک کے تیار کردہ مواد پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں علاوہ دیگر معلومات کے ایک بہت بڑا باب شامل ہے جس میں ایک سابق  معروف خاندان ‘رئسہ خاندان’ کی حکمرانی کا احاطہ کیا گیا ہے جو 1320 ء سے لے کر 1595 یعنی 275 سالوں تک پھیلے ہوئے آٹھ حکمرانوں کے دور کے سیاسی واقعات، حکمرانوں کی عمروں، ان کے دورانیوں اور ان کی وفات کی تواریخ سب کچھ کو تفصیلا پیش کیا گیا ہے۔

مزید براں ان سب کو صرف چترال پر حکمران دکھایا گیا ہے۔۔ دوسرا حصہ ان کے والد مرزا محمد غفران کی 1921 والی تاریخ چترار فارسی سے ماخوذ ہے اور تیسرا اور آخری حصہ 1921 سے لے کر 1954 میں آخری ریاستی حکمران سیف الملک ناصر کی تخت نشینی تک کے واقعات ان کی اپنی کاوش پر مشتمل ہے۔

یہ کتاب 1962 میں شائع ہوئی اور تب سے بہت دیر تک چترال کی تاریخ پر یہ واحد کتاب ہے جو عوام  کو اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو دستیاب رہی ہے۔ اس میں بھی شاہنامہ کے مواد سے استفادہ کیا گیا ہے بلکہ مرزا غفران کی مذکورہ فارسی سے وہ مواد نقل کئے گئے ہیں اور جسے قارئین اور قلم کار حضرات مرزا محمد غفران کی تاریخ کے نام سے جانتے ہیں، حالانکہ مرزا محمد غفران کی دونوں اولین تاریخی کتابیں یعنی مسودہ 1893 اور شائع شدہ معروف کتاب تاریخ چترار فارسی 1921 قارئین کے لئے دستیاب ہی نہیں گنتی کے محض مورخین اور محققین کی ان تک رسائی ہے۔

تاریخی پیش رفت کا دور۔۔

وقت گزرتا رہا۔۔۔شاہنامہ محققین/ مورخین سے لیکر عام قاری کے لئے طویل عرصہ نایاب رہا اور نہ کسی نے تاریخ پر کام کرنے کی سنجیدہ کوشش کی۔ تاہم تحقیق و جستجو کی راہیں اس وقت پھر سے کھلیں جب 1996 میں دوسری ہندو کش بین  کلچرل کانفرنس کی روداد شائع ہوئیں اور اس کے بعد 2006ء کے دوران جب شاہنامہ منظر پر آ کر پھر سے کچھ لوگوں کے زیر مطالعہ آیا۔۔

     نتیجتا تاریخ سے تعلق اور دلچسپی لینے والے بعض مقامی حضرات کا عام طور پر غیر اعلانیہ یہ ایک موقف سامنے آنے لگا کہ چونکہ شاہنامہ واحد بنیادی ماخذ ہے، اس کے مواد سے آگے پیچھے جاکر تاریخ پر لکھنا مناسب نہیں، اس لئے بعد میں چترال کی تاریخ پر لکھی جانے والی کتابوں کے تاریخی واقعات اور شخصیات سے متعلق حصے تاریخی طور پر درست نہیں کہے جاسکتے۔ اسی طرح کے خیالات پبلک مقامات پر بھی سننے میں آئے اور تحریر میں بھی آئے۔

 چنانچہ حال ہی میں چترال میں منعقد ہونے والی چوتھی بین الاقوامی  کلچرل کانفرنس کے دوران ایک معروف اور چترال کی تاریخ و ثقافت پرکافی دسترس رکھنے والے اسکالر البرٹو کاکو پارڈو ( اٹلی) نے اپنے آن لائن مقالے میں یہاں تک کہ دیا بلکہ انکشاف کیا کہ  شانامہ کے منظر عام پر آنے کے بعد اب تک کی لکھی ہوئی چترال کی تاریخ یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ یہ معلوم اب تک نہیں ہے کہ ان کے نزدیک کون کون سے حصے تبدیل ہوچکے ہیں یا ہونے چاہئیں۔ ان کا مقالہ پورا نہ سنا جاسکا کیونکہ انہوں نے زبانی طور پر صرف اپنے مقالے کے ابتدائی حصے یعنی abstract کو پڑھا تھا تاہم اندازہ ہے کہ ان کے خیال میں اب تک کی لکھی تاریخ کے اندر شاہنامہ کے مندرجات سے ماورا تاریخی واقعات بیان کئے گئے ہیں۔

شاہنامہ میں کیا ہے۔۔؟

   چنانچہ ان واقعات کے تناظر میں ایک علمی اور تاریخی اقدام کے طور پر شاہنامہ سئر کا ایک جائزہ لینے کا خیال آیا کہ آیا شاہنامہ سئر کو چترال کی تاریخ کے سلسلے میں ایک ایسے دستاویز کے طور پر لیا جاسکتا ہے جس میں ساری تاریخی تفصیلات اس حد تک موجود ہیں کہ اس کے بیانئے سے ادھر ادھر جانے کی گنجائش موجود نہیں یا

بات حقیقت میں ایسی نہیں؟

  اس ارادے سے چند سوالات جو ذہن میں ابھرے وہ حسب ذیل ہیں:

1 : کیا شاہنامہ سئر چترال کی قبل از تاریخی  واقعات، بہمن کوہستانی، سو ملکی اور کلاݰہ حکمرانیوں کی بابت کوئی ذکر موجود ہے؟

2:  کیا شانامہ سئر چترال کی تمام معلوم سیاسی، ثقافتی اور لسانی تاریخ کا احاطہ کرتا ہے؟ اور کیا اس میں کٹوریہ اقتدار سے پہلے کے خاندانوں کے حکمرانوں اور ان کے دور کے واقعات تفصیل کے ساتھ درج ہیں؟

3:  کیا خوشوقتے خاندان کے اندرونی طرز حکمرانی، ٹیکس/ خراج، حکمرانوں کی ترتیب وار تفصیل، بیرونی ریاستوں/ ممالک کے ساتھ ان کے تعلقات اور ان کے دور کے تاریخی واقعات کی کوئی تفصیل درج ہیں؟

4:  کیا خود علاقہ کٹوریہ کے اندر سارے حکمرانوں کی تفصیلات اور اس دوران باہر سے کسی حملہ آوروں/ قلماق حملوں، قبضے وغیرہ کی بابت تفصیلات شانامہ میں دی گئی ہیں؟

  ترتیب وار نتائج/ جوابات

  1:  قبل از تاریخی  واقعات، افسانوی حکمرانوں، بہمن کوہستانی، سوملکی اور کلاشہ حکمرانوں یا ادوار کے متعلق شاہنامہ خاموش ہے۔

2:  احاطہ نہیں کرتا۔۔چترال پر سوملکی اور کلاشہ اقتدار کے دور میں یارکند کے ترک/ مغلوں کے حملوں اور اقتدار کی تفصیلات، خاندان رئسہ کے حکمرانوں کے نام ، حکمرانی کی تفصیل اور اسلام کی آمد اور فروغ کے بارے میں کوئی اندراج نہیں ملتا۔ صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ اولاد سنگین علی کی حکمرانی سے پہلے یہاں پر رئسہ خاندان کا اقتدار تھا اور وہ لوگ سکندر النسل کہلاتے تھے۔۔

3:  خوشوختے خاندان کی ان کے اپنے علاقوں میں الگ حکمرانی کی تفصیلات، ٹیکس/ خراج، حکمرانوں کے ترتیب وار دورانئے وغیرہ کی بابت کوئی تفصیلات شاہنامہ میں درج نہیں، سوائے چند خوشوخت کٹور حکمرانوں کے مابین اقتدار کے لئے لڑائیوں کے۔۔

4:   ساروں کی تفصیلات اور سیاسی واقعات کے متعلق شاہنامہ خاموش ہے البتہ صرف محترم شاہ اول اور اس لائن میں آنے والے حکمرانوں کے بارے تفصیلات درج کی گئی ییں۔۔ یعنی محترم شاہ، ان کے بیٹوں شاہ افضل،  اور شاہ افضل کے بیٹوں شاہ نواز،سر بلند اور محترم شاہ تک حکمران مذکور ہیں۔

   یہ بھی نہیں بتایا گیا ہے کہ سنگین علی کس کا بیٹا تھا ان کے اجداد کون تھے، کہاں سے تعلق تھا۔۔۔

سنگین علی، محمد بیگ اور محمد رضا اور ان کی اولاد کی تفصیلات بھی بطور شجرہ نسب شاہنامے میں درج نہیں۔۔۔ سنگین علی اول کی آخری رئیسہ حکمران کے دربار میں کسی حیثیت اور کردار لے بارے میں بھی معلومات نہیں دی گئی ہیں۔

محترم شاہ اول اور خوشوخت کے اقتدار کی شروعات کا ذکر مختصرا موجود ہے لیکن ان کے اقتدار کے خاتمے کی کوئی وجہ اور تفصیلات، شاہ محمود رئیسہ اور قلماق کا حملہ اور چترال پر قبضہ کی روداد سب شامل شاہنامہ نہیں۔۔

   سنگین علئے اقتدار کے تذکرے سے شاہنامہ خالی۔۔

   محترم شاہ اول کے بڑے بیٹے سنگین علی ثانی اور ان کی اولاد کی طویل حکمرانی کا کوئی ایک بھی واقعہ شاہنامے کا حصہ نہیں۔۔

   سنگین علی ثانی کا ہندوستان جانا، واپس آکر شاہ محمود رئیسہ کو شکست دے کر اقتدار دوبارہ حاصل کرنا، سنگین علی کا قتل، محمد غلام ابن محترم شاہ اول اور شاہ عالم ابن خوشوخت کی مختصر حکمرانی کے دور کے واقعات کی تفصیل شاہنامے میں درج نہیں۔۔

   اسی طرح محمد شفیع اور اس کے بھائی مردان قلی بیگ کی طویل حکمرانی اور اس دوران امیر بدخشان کا شاہ عبد القادر رئیسہ کی معیت میں چترال اور مستوج کے خوشامد ثانی پر حملوں، قبضوں اور چین کے دباؤ پر واپسی یہ سب تاریخی واقعات شاہنامے کا حصہ نہیں۔ گویا سنگین علی ثانی اور ان کے پورے خاندان کے اقتدار کی تاریخ کو شاہنامہ میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔ خوشوخت مہتر فرامرد کی چترال میں حکمرانی کی سرگرمیوں کی بابت بھی شانامہ خاموش ہے۔۔

  خود محترم شاہ ثانی کی شہزادگی کے دور کے واقعات سے شاہنامہ بھرا پڑا ہے مگر ان کے دور حکمرانی کے اکثر واقعات شاہنامے کا حصہ نہیں حالانکہ مرزا سئر 1812- 13 میں زندہ تھے اور وہ عشرہ دو عشرہ  اور بھی زندہ رہ سکتے تھے اور محترم شاہ ثانی کا اقتدار غالبا 1810 کو ہوچکا تھا۔

    شانامہ کی بندش یعنی 1810 سے لے کر 1969 تک شاہ افضل ثانی سے لے کر سیف الملک ناصر تک 160 سالوں کے دوران گیارہ کٹوریہ حکمرانوں اور اس طویل عرصے کے دوران سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کی  تاریخ  بھی ظاہر ہے شاہنامہ کے دائرے میں ہی نہیں آتی اس لئے وہ بھی شاہنامہ میں شامل نہیں۔

 مطالعہ کے نتائج

    ہم نے دیکھا کہ چترال کی مقامی تاریخ کا  تقریبا ساٹھ ستر فی صد حصہ شاہنامہ میں شامل نہیں۔ اس کے علاوہ خارجی سیاسی اجارہ داریوں اور حکمرانیوں کی تاریخ بھی اس کا حصہ نہیں، نہ ہی ان دنوں ایسا کوئی مواد انہیں ملنے کے مواقع میسر تھے۔

ہم نے دیکھا کہ تاریخی شاہنامے کا  بیانیہ محترم شاہ ثانی کی ذات اور ان کے کارناموں، اور وہ بھی ان کے شہزادگی کے دور کے گرد گھومتا ہے اور دور گزشتہ کے سلسلے میں بھی صرف ان کے والد شاہ افضل اور ان کے جد محترم شاہ اول ہی مقتضائے بیان ہیں۔

دوسری طرف سنگین علی ثانی بھی تو محترم شاہ ہی کا بیٹا تھا اس کے بیٹے بھی تو محترم شاہ اول کے پوتے ہوتے تھے لیکن شاہنامہ میں اس شاخ کے حکمرانوں کی تاریخ کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ 

   یہ بھی درست ہے کہ تاریخی تقاضوں کے تحت کچھ شخصیات کا ذکر کرنا تاریخ کا حصہ ہوتا ہے خاص کر کسی حکمران خاندان کے اجداد اور ان کی نسلی تاریخ کا مگر ہم نے دیکھا کہ یہ تقاضا بھی کئی پہلووں سے نامکمل ہے۔۔

جہاں تک شاہنامہ میں اس پیمانے پر مقامی تاریخ کے عدم اندراج کی بات کا تعلق ہے، تین طرح کے گمان یا خیالات ذہن میں آسکتے ہیں ایک یہ کہ ہم یہ گمان کرسکتے ہیں کہ شاہنامے کے مصنف کو اس بابت مواد کا یا ان میں سے کچھ حصے کا انہیں کوئی علم نہیں تھا یا ان کے والد انہیں سارے واقعات نہیں بتا پائے تھے، اس لئے نہیں لکھا۔

یا یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ شاہنامہ میں ان تاریخی واقعات کو کسی سیاسی بنیاد پر قصدا شامل نہیں کیا گیا ہے۔۔

تیسرا یہ کہ ہم یہ تصور کرسکتے ہیں کہ محمد سئر کے ذہن میں ریاست کی باضابطہ تاریخ لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، وہ محترم شاہ ثانی کی تکریم و تقدیس کے تحت صرف ان کے دور کے واقعات کو زیر قلم لانے کا ارادہ رکھتا تھا۔

    یہ تیسرا اندازہ پہلے دو اندازوں پر اس لئے بھاری ہے کہ جہاں تک تاریخی معلومات کا تعلق ہے، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے پاس یا ان کے والد کے پاس معلومات کا فقدان تھا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ان کا والد محترم شاہ اول کے متعلق معلومات رکھے، ان کے بیٹے شاہ افضل یا شاہ فاضل بارے معلومات رکھے لیکن ان کے بڑے بیٹے سنگین علی ثانی کی اہم سرگرمیوں کے بارے سرے سے لاعلم ہو۔۔ دوسرا یہ کہ ہم اس مرحلے پر شاہنامے کے مصنف پر یہ الزام لگانے کا حق اور اخلاقی جواز نہیں رکھتے کہ انہوں نے کسی بدنیتی کے تحت اتنے بڑے پیمانہ پر تاریخی مواد کو شامل شاہنامہ نہیں کیا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شاہنامہ ایک مکمل اور روایتی تاریخ نہیں بلکہ محترم شاہ ثانی نامہ ہے تو اس کا ایک ناقابل تردید پس منظر ہے۔ محمد سئر ابتدائے نوجوانی سے ہی محترم شاہ ثانی ابن شاہ افضل اول ابن محترم شاہ اول کے پرستار اور ان کے عقیدت مندوں میں شامل تھے۔ جوانی کا دور ان کی صحبت میں گزارا چنانچہ اپنے چچا شاہ فاضل کے دور حکومت میں جب محترم شاہ اور ان کے بھائی شاہنواز خان اور سربلند خان دروس قلعہ میں قیام پذیر تھے تو ان دنوں کہا جاتا ہے کہ سئر بھی ان کی صحبت میں رہتے تھے۔۔ بعد میں جب خیر اللہ خوشوقتے کے قتل کے بعد چترال کی حکمرانی پر کٹوریہ شہزادوں کا دوبارہ اقتدار قائم ہوکر شاہنواز مہتر بنے اور محترم شاہ مستوج اور بعد میں کھو علاقے کے مقامی حکمران بنے تب بھی محمد سئر اپنے شاہنامے کی روشنی میں ہمیشہ محترم شاہ کا دم بھرتے رہے مرکزی حکمران کے نہیں۔

 چنانچہ محترم شاہ کے دور شہزادگی ہی میں محمد سئر انہیں ‘شاہ’ اور ‘شاہنشاہ’ ہی کہتے اور لکھتے رہے ہیں اور جو خود شاہنامہ کے متعدد اشعار سے عیاں ہیں۔ مزید براں ان کی حکمرانی ( مہتری) کے آغاز پر شاہنامہ کی ابتدا بھی ان کے لئے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں "سلطان السلاطین” یعنی اسم صفت کے تیسرے اور اعلی درجے کو استعمال کیا ہے۔

   محمد سئر کے اس قدر محترم شاہ ثانی کے پرستار ہونے کے تناظر میں پروفیسر فتح محمد ملک بھی شانامہ کے مواد کو محترم شاہ ثانی کی شان میں ایک منظوم خراج عقیدت(a poetic homage)  کا درجہ دیتے ہیں )

(Cultural Area Karakuru Hindukush Part II 1998, Germany)

  اس صورت حال میں کسی کا اب یہ کہنا کہ شاہنامہ کے منظر پر آنے کے بعد چترال کی ساری لکھی تاریخ یکسر تبدیل ہوچکی ہے کوئی مناسب بات نہیں ہے کیونکہ جیسا تفصیل اوپر دی گئی ہے، شاہنامہ کوئی باضابطہ مکمل تاریخی دستاویز نہیں ہے جس سے ہٹ کر ادھر ادھر نہ جایا جاسکے ۔

 ہاں البتہ نئی تاریخ چترال کا وہ معروف باب جو خاندان رئیسہ سے تعلق رکھتا ہے اور جو نہ شاہنامہ کا حصہ ہے، نہ جان بڈلف کو اس بارے اپنے وقت میں تفصیلات ملیں اور نہ ہی مرزا محمد غفران اپنے دور میں رئسہ دور کی تفصیلات تک پہنچ سکا مگر ان کے بارے ایک بڑا باب اطمینان کے ساتھ چھ سات سو سال بعد 1943 میں ترتیب دیا جاسکا، معترضین کے نزدیک ایک  مسئلہ ہوسکتا ہے، تاہم اس مرحلے پر ہم اس کی صفائی دینے کی پوزیشن میں نہیں یہ مسئلہ جانے ان کے ذمہ دار جانیں۔۔

سرور صحرائی چترال میں تاریخ کے شعبے میں گزشتہ کئی سالوں سے تحقیق کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں