Baam-e-Jahan

گلگت بلتستان لینڈ ریفامز بل ، ایک جائزہ


تحریر: فرمان بیگ

متنازع گلگت بلتستان اور اس کی ارد گرد کے موجودہ حالات اور عالمی طاقتوں کے درمیان کشمکش اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی معاشی بدحالی میں  گلگت بلتستان  اسمبلی سے لینڈ ریفامز پر قانون سازی کیوں اتنی اجلت میں کرائی جارہی ہے؟

گلگت بلتستان لینڈ ریفامز ایکٹ کے ذریعے تاریخی مشترکہ ملکیتی قدرتی اثاثے یعنی پہاڑ، گلیشرز، چراہ گاہیں، جنگلات، نالے، جھیل، دریا اور بنجر زمینوں کو تحفظ کے نام پران کی ملکیت حکومت اور ریاست کو منتقل کرنا ہے ایسا قانون در اصل پوری جی بی کی ایکالوجی کا قسمت طے کرنے جا رہی ہے۔

کیا جی بی اسمبلی قانون سازی کا  آئینی حق رکھتی ہے؟   یہ آج کے بنیادی سوالات ہیں جو گلگت بلتستان  کے تاریخ، شناخت اور یہاں کے بسنے والے لوگ اور ان کے مستقبل کے نسلوں کی بقاء  سے جڑے ہوئے ہیں اس مجوزہ لینڈ ریفامز قانون کامقصد صرف زمین کی تقسیم یا بہتر انتظام نہیں ہے بلکہ اس قانون کے ذریعے تاریخی مشترکہ ملکیتی قدرتی اثاثے یعنی پہاڑ، گلیشرز، چراہ گاہیں، جنگلات، نالے، جھیل، دریا اور بنجر زمینوں کو تحفظ کے نام پران کی ملکیت حکومت اور ریاست کو منتقل کرنا ہے ایسا قانون در اصل پوری جی بی کی ایکالوجی کا قسمت طے کرنے جا رہی ہے۔

 گلگت بلتستان کی موجودہ سیاسی صورت حال اور تنازع کشمیر کے فرق کی حیثیت سے  کیا موجودہ  اسمبلی لینڈ ریفامز پر قانون سازی کرسکتی ہے ؟  یہ بنیادی سوال ہے جو گلگت بلتستان  کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے اور لینڈ ریفامز  کا تعلق معدنیات، جنگلات، پانی اور چراگاہوں سے ہے اور  زمین کا بنیادی تعلق ان چار چیزوں سے وابستہ ہیں۔

 گلگت بلتستان تنازع کشمیر کے بین لاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فریق ہونے کی بنا پر متنازعہ علاقہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز قائم ہے مگر جس کی پچہتر سالوں سے مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے جو اقوام متحدہ کے قرادادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے  جس طرح آزاد کشمیر میں غیر ریاستی باشندہ زمین نہیں لے سکتا اور نہ ہی وہاں کا باشندہ تصور ہوتا ہے بالکل اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی غیر مقامی ایک انچ زمین خریدنے کا مجاز نہیں۔

 گلگت بلتستان تنازع کشمیر کے بین لاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فریق ہونے کی بنا پر متنازعہ علاقہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز قائم ہے مگر جس کی پچہتر سالوں سے مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے جو اقوام متحدہ کے قرادادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے  جس طرح آزاد کشمیر میں غیر ریاستی باشندہ زمین نہیں لے سکتا اور نہ ہی وہاں کا باشندہ تصور ہوتا ہے بالکل اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی غیر مقامی ایک انچ زمین خریدنے کا مجاز نہیں۔

 مگر گلگت بلتستان کو چلانے والے نوکر شاہی نظام جو خطے میں اپنے آپ کو بےلگام حاکم سمجھتے ہیں گلگت بلتستان کو ایک کالونیل جاگیر کے طور پر نوچ رہی ہے  گلگت بلتستان کی بنیادی حقوق کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی نوکر شاہی کا نظام  ہے جن کی چالبازی، مکاری اور بددیانتی سے خطہ جی بی  مسائل کا شکار ہے نا انصافی اور لاقانونیت پر مبنی موجودہ لوٹ مار اور ظالمانہ طبقاتی معاشی سرمایہ دارانہ  نظام اور بدعنوان ترین نوکر شاہی نظام  کے ہوتے ہوئے گلگت بلتستان میں لینڈریفامز  کو مقامی لوگوں کے مفاد میں سمجھنا اور خیر کی توقع رکھنا غیر دانشمندی ہوگی۔

 مجوزہ لینڈر ریفامز بل بھی انہی نظام سے استفادہ کنندہ گان کے معاشی و اقتصادی مفادات اور وہاں کے وسائل کو لوٹنے کی  لایا جا رہا ہیں ۔ لینڈ ریفامز ایکٹ گلگت بلتستان کے وسائل پر قبضے کا ایک نیا منصوبہ ہے جس میں برطانوی سامراجی دور سے بھی زیادہ اختیارات کے قوانین کے ذریعے نوکر شاہی  کو گلگت بلتستان کے وسائل پر قابض  بنایا جارہا ہیں۔

 وہی لینڈ ریفامز  ایکٹ  زمین،  سیاحتی مقامات،  پہاڑ  اور  معدنی وسائل کو کسمٹری لاز کے استعمال کے حقوق کے بجائے اس کا تجارتی استعمال پر مرکوز ہے یہ ایکٹ غیر آباد زمین، چرا گاہیں، پہاڑ، گلیشئیرز، جھیلیں، ندیاں، نالیں، دریاؤں اور جنگلات کو غیر منقسم زمین قرار دیتی ہے تاکہ اس  بہانے ان قیمتی وسائل کوسرکاری زمین قرار دیا جاسکیں۔

 پاکستان کے مراعات یافتہ بیروکرسی نے مقامی لوگوں کو نمایندگی کے حق سے محروم رکھنے کے لئے گلگت بلتستان اور ضلعوں کی سطح پر زمین کی تقسیم کے لئے  جن سترہ ارکان کی کمیٹی کے قیام کی بات کی ہیں جس میں سوائے وزیر اعلی اور ایک ممبر گلگت بلتستان  اسمبلی کے علاوہ  باقی  15 سرکاری افسران ہوں گے اسی طرح ضلعی بورڈ کا چیرمین ڈپٹی کمشنر  ہوگا  جس میں صرف گلگت بلتستان اسمبلی کا ممبر شامل ہوگا  جبکہ 16 ممبران سرکاری ملازمین  ہوں گے اور آخر میں ویلج وری فیکشن کمیٹی  ہوگی جس کا چیرمین تحصیلدار ہوگا جس کے ممبران پٹواری نمبرداران اور 10 مقامی عمائدین  کی تجویز دی گئی ہیں۔

 مجوزہ لینڈر ریفامز بل بھی انہی نظام سے استفادہ کنندہ گان کے معاشی و اقتصادی مفادات اور وہاں کے وسائل کو لوٹنے کی  لایا جا رہا ہیں ۔ لینڈ ریفامز ایکٹ گلگت بلتستان کے وسائل پر قبضے کا ایک نیا منصوبہ ہے جس میں برطانوی سامراجی دور سے بھی زیادہ اختیارات کے قوانین کے ذریعے نوکر شاہی  کو گلگت بلتستان کے وسائل پر قابض  بنایا جارہا ہیں۔

گلگت بلتستان مجوزہ لینڈ ریفامز بل ایک ایسا نظام لانے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے یہاں کے  سیاحتی مقامات، معدنی اور پانی کے وسائل کو استعمال کرنے کی غرض سے  مقامی لوگوں کو اس ایکٹ میں حق داران کا نام دے کر ان کی قانونی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے  غور سے اس ایکٹ کا جائزہ لیا جائے  تو وہ زمینیں جن کا  لیز  صوبائی یا وفاقی حکومت نے جاری کیا ہوا ہیں وہ سرکاری زمین کہلائے گا اس حساب سے ہمارے سارے پہاڑوں کے لیز ہو چکے ہیں جس سے یہ خدشات بڑھ رہا ہے کہ خطے کے اجتماعی وسائل بنجر زمین، چراگاہ، معدنیات اور پانی کے وسائل سےمحروم کرنے کی ایک سازش رچائی جارہی ہے دوسری جانب اس ایکٹ کے ذریعے  پاکستان کی قابض حکمران اشرافیہ بالخصوص غیر مقامی بیوروکریسی کا گلگت بلتستان کے عوام اور ان کی صدیوں کی تاریخ پر سب سے بڑا اور فیصلہ کن حملہ کرنے کی کوشش کی ہے اگر پاکستان کے مراعات یافتہ حکمران اشرافیہ اور بیورکریسی لینڈ ریفامز کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس صورت  میں گلگت بلتستان کے عوام اپنی تاریخی حق ملکیت سے مکمل محروم ہوں گے اور  ریاست پاکستان پر قابض حکمران مراعات یافتہ اشرافیہ اس خطے کے سیاہ و سفید کی مالک بنے گے۔

 اس کے بعد سرمایہ کاری کے نام پر  حکمران مراعات یافتہ اشرافیہ اور ملٹی نیشنلز کے نام پر قدرتی وسائل منتقل کراسکیں گے۔

گلگت بلتستان کی متنازع حیثیت جو پاکستان کے سپریم کورٹ کے آرڈر، اعلی حکومتی شخصیات اور مقدر حلقوں کی طرف سے  اس بات کا واضح موقف رہا ہیں کہ گلگت بلتستان  ریاست پاکستان  کا آئینی حصہ نہیں اور تنازع کشمیر ایشو کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔  ان تاریخی حقائق کی روشنی میں  گلگت بلتستان میں موجود غیر مقامی بیروکریسی کے پاس یہ اختیار ہی نہیں  کہ وہ گلگت بلتستان کے  زمینوں کی ملکیتی حقوق میں تبدیلی لائے۔

گلگت بلتستان کی زمینوں اور وسائل کے حوالے سے  اسٹیٹ سبجکیٹ کے قانون سمت کسٹمری لاز موجود ہے جس میں زمین، پہاڑ اور چراگاہوں کی ملکیت دریائے کے پانی سے پہاڑ کے چوٹی تک کی  حقوق و اختیار موضعات با موضعات اور قبائل با قبائل واضح ہیں اور جس کا انتظام و انصرام صدیوں سے مقامی افراد کسمٹری لاز کے ذریعے  بہتر طریقے سے سر انجام دے رہیں ہیں ۔لہذا صدیوں سے قائم نظام اور ملکیتی حقوق میں چھیڑ چھاڑ علاقے کے مفاد میں نہیں چونکہ یہاں کے  قدرتی وسائل سو فیصد زمینیں، پہاڑ، دریا، جنگلات اور گلشیئرز  سب کے سب گلگت بلتستان کے باشندوں کی ملکیت تھی ہے اور رہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں