Baam-e-Jahan

کامریڈ آصف سخی


تحریر۔ کریم اللہ

یہ ہے کامریڈ آصف سخی

ان کا تعلق اپر ہنزہ گوجال سے ہیں۔ کراچی سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس اپنے آبائی علاقے میں آکر سیاسی ایکٹوزم شروع کی۔

گزشتہ چند سالوں کے دوران انہوں نے ہنزہ بالخصوص اپر ہنزہ کے مسائل پر بھر پور آواز بلند کیا۔

پچھلے انتخابات میں آپ عوامی ورکرز پارٹی کی ٹکٹ پر ہنزہ سے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ گو کہ آصف کو کامیابی تو نہ ملی مگر اس ناکامی سے ان کے استقلال میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ اپنے علاقے میں لوگوں کو منظم کرنے اور اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو ہنزہ سیاسی شعور کے لحاظ سے زیادہ زرخیز سرزمین نہیں رہی۔ یہاں سے اکثر اوقات عوامی سوچ رکھنے اور عوامی مسائل پر بات کرنے والے لیڈر شپ کو آگے آنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

اس کی بڑی وجہ ہنزہ کا جغرافیہ اور نسلی و لسانی بنیادوں پہ تقسیم ہے۔ سنٹرل ہنزہ زمانہ قدیم سے طاقت کا مرکز و محور  رہا ہے اس علاقے کے لوگوں کی غالب اکثریت بروشسکی بولنے والوں کی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اس خطے نے کسی عوامی مزاحمتی تحریک کو جنم نہیں دیا بلکہ اس کی جگہ صرف مثبت امیج دکھانے کی ایک بیماری یہاں کے باسیوں کو لاحق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی سیاحت کے اس گھڑ میں بجلی کا نام و نشان نہیں پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں۔ سرکار نے اس خطے کو صرف ملک و علاقے کا مثبت چہرہ دکھانے کے لئے استعمال کیا مگر یہاں کے لوگوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کی کوئی کوشش نہیں کی۔

ایسے وقت میں کامریڈ بابا جان اور پھر کامریڈ آصف سخی نے علاقے کے مسائل کو اجاگر کرنے اور عوام کو متبادل قیادت فراہم کرنے کے لئے میدان عمل میں آئے۔ جس کی وجہ سے ان دونوں لیڈروں کے خلاف سرکار اور ان کے نمک خوروں نے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔

کامریڈ بابا جان کو نو سال تک سیلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔

جبکہ گزشتہ روز کامریڈ آصف سخی کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کردیا گیا۔ اور انہیں پولیس تھانے میں بند کیا۔ مگر کامریڈ بابا جان اور دیگر ساتھیوں کے زبردست احتجاج کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔

کامریڈ آصف سخی مزاحمتی سیاست سے عاری ہنزہ کے معاشرے میں امید کی تازہ کرن ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں