تحریر: فرمان بیگ
گزشتہ ایک دو دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک خاتوں ڈاکٹر کے آئی بیکس کے شکار کو لے کر ہر طرح کے تبصرے دیکھنے کو مل رہے ہیں ایک حلقے نے اسے خواتین کی صنفی آزادی سے جوڑا ہوا ہے کچھ نے اس کو طاقت اور دولت کی نمائش قرار دے رہے ہیں اور کچھ اس سے جنگلی حیات کے قتل اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے منافی قرار دینے میں مصروف ہے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ ان نقطہ ہائے نظر رکھنے والے حلقوں کو مقامی لوگوں کے اشتراک سے جاری کمیونٹی کنزرویشن کے ذریعے ٹرافی شکار کے مقامی آبادی، ایکولوجی اور اقتصادی صورت حال پر پڑنے والے مثبت اور منفی اثرات کا سرے سے ادرک نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ نوے کی دھائی سے قابل کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ آئی بیکس، برفانی چیتا اور دیگر انواع و اقسام کے جنگلی حیات بلا خوف و خطر انسانی آبادیوں میں گھوم پھریں گے ۔
یہ تب ممکن ہوا جب بین القومی ماحولیاتی ادارہ آئی یو سی این نے، یو این ڈی پی اور حکومت پاکستان کے مالی تعاون سے پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں حیاتیاتی تنوع کے پائیدار تحفظ اور قدرتی وسائل کا دانشمندانہ استعمال کے لئے مقامی کمیونٹیز کو آمادہ کیا۔
آج مقامی لوگوں نے کمیونٹی کنزرویشن کے اصولوں کے تحت آئی بیکس، برفانی چیتا اور دیگر جنگلی حیات کو نہ صرف معدومیت کے خطرے سے نکالا ہے بلکہ ان جنگلی حیات کو ایک نئی زندگی عطاء کی گئی ہے جس کی وجہ سے عمر رسیدہ جانوروں کا شکار ممکن ہوسکا ہے اور مقامی لوگوں کے لئے ایک متبادل معاشی وسائل کا سبب بھی بنا ہے۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ آیا یہ پہلا شکار ہوا ہے؟ نہیں ۔۔۔۔ اس سے پہلے بھی دو خواتین نے گوجال کے مختلف کنزرویشن ایریاز میں شکار کرچکی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ تیسری خاتوں شکاری پر تنقید اور تعریفوں کے پل باندھے جا رہے ہیں اس کا واضح تصویر ہمارے سامنے ہے کہ مذکورہ کمیونٹی جہاں یہ شکار کھیلا گیا اور خاتوں شکاری کی بےجا تشہر نے تیس پنتس سالوں سے نارمل طریقے سے جاری ایک سرگرمی کو موضوع بحث بنا دیا ہے ورنہ سینکڑوں کی تعداد میں ماضی میں ٹرافی شکار ہوتے رہے ہیں۔ اب اس ٹرافی شکار پر اٹھنے والے سوالات مستقبل میں کیا رخ اختیار کرتی ہے یہ آنے والا وقت ہی بہتر بتا سکے گا لیکن بہت سارے سوالات جنم لیا ہیں اور ٹرافی شکار کے ساتھ تحفظ جنگلی حیات پر مستقبل قریب میں آنے والے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔