Baam-e-Jahan

افغانستان: ثور انقلاب کی روشن صبح سے طالبان کی تاریک رات تک

ویش زلمیان کی تحریک کا آغاز

زی۔کے


دوسری قسط

آرٹ اور انقلاب

اس وقت میرے سامنے کابل ٹائمز کے 23 دسمبر 1978ء کے شمارے کا صفہ نمبر 8 کھلا ہوا ہے۔ اخبار میں دائیں طرف کونے میں ایک تصویر چھپی ہے جس میں کابل کے میئر‘ ویتنام سے آئے ہوئے وزیر خارجہ سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ بائیں جانب موصوف کا بیان ہے۔ لیکن اس وقت میری دلچسپی کا باعث اپنی نوعیت کا وہ منفرد حکومتی اشتہار ہے جو ’اہم نیلام‘ کے عنوان سے چھپا ہے۔ اشتہار میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف افغانستان (انقلاب کے بعد افغانستان کا نام) کی وزارتِ مالیات کی جانب سے کسی یحییٰ خاندان کی قومیائی گئی اشیا کو نیلامی کی جا رہی ہے۔

 داخلہ ٹکٹ 10 افغانی ہے اور نیلامی کے وقت کا تعین صبح 9 سے دوپہر 3 بجے رکھا گیا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ خاندان اور اس کا سربراہ کون ہے لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اس کا تعلق اشرافیہ سے ہے اور اشیا میں ایسی نادر اشیا ضرور ہوں گی جنہیں آرٹ کے نام پر اپنی بند الماریوں میں نجانے کتنی نسلوں سے اس خاندان نے چھپایا ہو گا اور انقلابی حکومت کی بدولت اب انہیں عام انسانوں کی پہنچ میں دینے کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ اشتہار ایک علامت ہے ان عوام دوست اصلاحات کی جن کی رو سے بے زمین اور بے گھر کسانوں اور محکوموں میں زمینیں تقسیم کی گئیں اور ان محکوموں کو زمینی خداؤں سے نجات دلائی گئی۔

افغانستان: انقلاب ثور کے روشن صبح سے طالبان کی تاریک رات تک (پہلا قسط)

 انقلاب سے پہلے کی نادر شاہی اشرافیہ نے نہ صرف زمینوں اور نوادرات پر قبضہ کر رکھا تھا بلکہ آرٹ کی ایک دوسری صنف یعنی موسیقی کو بھی اپنے محلوں اور درباروں تک محدود کر رکھا تھا۔

افغان امرا کے خرابات خانوں میں مقید آرٹ

ہندوستان، ایران اور افغانستان کے شاہوں اور اُمرا کے درباروں میں رقص و موسیقی اور شاعری کی محفلوں کی شہنشاہانہ داستانوں سے کون واقف نہیں۔ نسل در نسل ان شاہوں، بادشاہوں، وزیروں، مشیروں، سرداروں، خوانین اور حکمراں طبقات کے زیر تسلط رہتے ہوئے ہمارے بچے بچے کو نہ صرف ان کے شجرے یاد کرائے گئے ہیں بلکہ ہم ان کی تعمیر کردہ عالیشان عمارتوں کی سحر انگیز ی کے ساتھ ساتھ ان کی محبوباؤں کے ناموں اور خد و خال سے بھی واقف ہیں۔ ان سے ایسی صفات منسوب کی گئی ہیں جن کی پراسراریت، رعب اور دبدبے کے زیر اثر مظلوم و محکوم طبقات اپنے اوپر طاری کی گئی بیگانگی کے ذاتی خول میں مقید رہنے کے اپنے حال میں ہی خوش ہیں۔ امراء کے ذوق و شوق، رقص و سرور، چمک دمک اور جاہ و جلال کے زرد آسمانوں کا ذکر ہو اور اس میں سے کلاسیکی موسیقی، ستار، طبلے اور رباب کی آوازیں نہیں آ رہی ہوں تو آسمانوں کی زردی پھیکی پڑنے لگتی ہے۔

ایران میں بخارا کے امیروں کے ایسے ہی آسمانوں پر اُنیسویں صدی کے اواخر میں ایرانی موسیقی کا نظام’شش مقام‘ دریافت ہوا اور محل کی دیواروں سے سُر ٹکراتے رہے۔ کابل میں اُنیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز پر افغان موسیقی کی جداگانہ صنف کا آغاز ہوا۔ تخت کابل‘ شیر علی خان سے لے کر ظاہر شاہ تک موسیقی کی سرپرستی کرتا رہا اور جب پدرانہ سماج کے بادشاہ کسی کی سرپرستی کرتے ہیں تو اس سے باہر نکلنے کا خیال کم از کم نوخیز انسانوں کے دلوں میں نہیں آنا چائیے۔ اب چاہے یہ نو خیز انسانی بچے ہوں یا افغان موسیقی کی نئی صنف۔

 شیر علی خان ایسے ہی شوق کی تکمیل کے لئے ہندوستان سے گوئیے، طبلہ نواز، سارنگی نواز، رباب نواز اور رقاصہ خواتین فنکاروں کو ان کے گھروں سے ہزاروں میل دور کابل میں لا کر سرپرستی کرتے تھے۔ امیر شیر علی ہندوستان سے جو سازندے اور رقاص اپنے دربار کی شان بڑھانے کے لئے لائے تھے انہیں دربار کے مضافات میں جگہ دی گئی تھی۔ اس وجہ سے نہیں کہ امیر ان فنکاروں کی قدر کرتے تھے اور انہیں اپنے محل کے قریب رکھنا چاہتے تھے بلکہ قریبی رہائش دینے کی وجہ یہ تھی کہ انہیں بلانے میں وقت کم لگے۔

بہر حال ان سازندوں اور رقاصاؤں کا ایک محلہ سا بن گیا تھا جسے کوچہ خرابات کہتے تھے۔ خرابات بیسویں صدی کے وسط تک اتنا وسیع ہو گیا تھا کہ اس کے رہائشی سینکڑوں تک پہنچ چکے تھے۔ تاہم جب ہم شاہ امان اللہ خان کے دور میں قدم رکھتے ہیں تو موسیقی اور آرٹ خرابات خانوں سے نکل کر عوامی میلوں کا حصہ بنتے نظر آتے ہیں۔ بعد میں آنے والے حکمرانوں خصوصاً امان اللہ خان کی ریڈیکل اصلاحات کے رد عمل میں تخت کابل پر قبضہ کرنے والے حبیب اللہ کلکرنی یا بچہ سکہ جو ایک انتہا پسند جنونی تھا نے امان اللہ خان کی دیگر اصلاحات کے ساتھ فن موسیقی کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ یہاں تک کہ کوچہ خرابات کے فنکار اپنی جان بچانے کے لئے روپوش ہونے لگے۔ اس کے بعد نادر شاہ نے تخت پر قبضہ کر کے حبیب اللہ کو پھانسی دے دی۔

تاہم امان اللہ خان نے عوامی میلوں میں موسیقی کی جو روایت رکھی تھی اس سے عوامی سطح پر بھی اب موسیقی سے لطف اندوز ہونے کے دروازے کھلنے لگے تھے۔ جاری ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں